Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Atiq Chaudhary
  4. Zimni Intikhabat Ka Sabaq

Zimni Intikhabat Ka Sabaq

ضمنی انتخابات کا سبق

حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج نے پاکستانی جمہوریت کے نظام میں پنہاں کمزوریوں کو ایک بار پھر واضح طور پر بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ انتخابات صرف سیاسی فتح و شکست کا معمولی واقعہ نہیں ہیں بلکہ یہ ملک میں گہری ہوتی ہوئی موروثی سیاست، انتخابی عمل سے عوامی لاتعلقی، سیاسی جماعتوں کی داخلی کمزوریاں، عوامی رابطے کی کمی اور انتخابی اصلاحات کی ناگزیر ضرورت کی طرف اشارہ ہیں۔

ان نتائج کا تجزیاتی مطالعہ کئی ایسے تلخ حقائق سامنے لاتا ہے جن سے منہ موڑنا کسی بھی سیاسی جماعت یا ملک کے جمہوری مستقبل کے لیے سودمند نہیں ہوگا۔ ایک بار پھر ثابت ہوا کہ پاکستانی پارلیمانی جمہوریت کے اندر ایک خاندانی جمہوریت فروغ پا چکی ہے۔ کامیابی کا راستہ عوامی خدمت، سیاسی تجربے یا قابلیت سے نہیں بلکہ سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے میں پوشیدہ ہے۔ وفاقی وزراء، مشیروں اور موجودہ یا سابق اراکینِ اسمبلی کے رشتہ داروں کی کثیر تعداد میں آپس میں مقابلہ بازی اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاسی اختیار اب وراثت میں منتقل ہو رہا ہے۔ یہ مہنگا نظام انتخاب اور انتخابات اب عام آدمی کی نمائندگی کا ذریعہ کم اور محض اشرافیہ کی آپس میں اقتدار کی بندر بانٹ اور مخصوص خاندانوں کا اکھاڑہ زیادہ لگتے ہیں۔

جہاں پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب کے بیشتر حلقوں میں بائیکاٹ کیا وہاں پی ٹی آئی کے بائیکاٹ کے اصول کو توڑ کر الیکشن لڑنے والے عمر ایوب اور حماد اظہر کی جانب سے بھی اپنی ہی خاندانی اجارہ داری کو قائم رکھنے کے لیے ٹکٹ اپنے رشتہ داروں کو دیے گئے۔ عمر ایوب نے اپنی اہلیہ کو اور حماد اظہر نے اپنے رشتہ دار کو میدان میں اتارا۔ ایک جماعت جو موروثی سیاست کے خلاف بیانیہ رکھتی ہے اس کے اندر یہ عمل ووٹرز کو شدید ناپسند آیا اور ان کی شکست کی ایک وجہ بنا۔ تحریک انصاف کے ووٹر کو یہ موروثی امیدوار پسند نہیں آئے اور یہ اقدام پارٹی کے اصولوں سے انحراف کا تاثر دیتا ہے۔

ضمنی انتخابات کا سب سے بڑا آپ سیٹ ان دو قومی اسمبلی حلقوں پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی شکست ہے کیونکہ وہ ایک طرح سے محفوظ نشستیں سمجھی جاتی تھیں۔ ہری پور این اے 18 میں مسلم لیگ ن کی جیت تحریک انصاف کو کئی اہم پیغامات دے رہی ہے۔ عمر ایوب کی خاندانی اور محفوظ سمجھی جانے والی سیٹ پر ان کی اہلیہ کی شکست ایک واضح پیغام ہے کہ پی ٹی آئی کے لیے اب کوئی بھی نشست خودکار ضمانت نہیں رہی۔

بائیکاٹ کے اصول کو توڑ کر الیکشن لڑنا، خاندانی امیدوار کو میدان میں اتارنا اور مسلسل محاذ آرائی کا بیانیہ پارٹی ورکرز کو ایک کنفیوژن میں مبتلا کر گیا جس سے وہ کھل کر مہم نہیں چلا سکے۔ اس کے علاوہ خان صاحب کے ووٹرز کا موجودہ قیادت پر عدم اعتماد، ایک جنگ جیتے ہوئے فیلڈ مارشل پر مسلسل بے جا تنقید، ریاست کے خلاف مسلسل محاذ آرائی، احتجاجی سیاست اور دیگر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات میں ناکامی بھی شکست کی وجوہات میں شامل ہیں۔

لاہور کی نشست پر مقامی اور مخلص ورکرز کو ٹکٹ نہ دینا بھی کارکنوں میں شدید بے چینی اور لاتعلقی کا باعث بنا۔ لاہور این اے 129 میں حماد اظہر کے قریبی رشتہ دار کو ٹکٹ دیا گیا جو فعال ورکر یا لیڈر کے طور پر پہچان نہیں رکھتے تھے۔ مقامی قیادت نے بھی اس کی مہم چلانے میں زیادہ دلچسپی نہیں لی جبکہ ماضی میں سیالکوٹ کے ضمنی انتخابات میں پارٹی نے بھرپور جوش و خروش دکھایا تھا۔ پی ٹی آئی کا سیاسی بائیکاٹ کا فیصلہ ایک خطرناک حکمت عملی ثابت ہوا کیونکہ یہ حریف جماعتوں کے لیے میدان کھلا چھوڑ کر ان کے انتخابی اثر و رسوخ کو محدود کر دیتا ہے۔

سیاسی جماعتیں مشکل ترین حالات میں بھی سیاسی اور جمہوری جدوجہد نہیں چھوڑتیں۔ اس کے ساتھ ہی حکمت عملی کی غلطیاں، اندرونی انتشار اور میرٹ کو نظرانداز کرکے موروثی امیدواروں کو ٹکٹ دینا پارٹی کی کارکردگی کو نقصان پہنچانے کے بڑے عوامل ہیں۔ اگر پارٹی قیادت نے محاذ آرائی کی حکمت عملی پر اصرار جاری رکھا اور گورننس کو نظر انداز کیا تو ضمنی انتخابات کا یہ نتیجہ بڑے پیمانے پر عوامی انحراف کی علامت بن سکتا ہے۔

ان انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ کی شرح کا تجزیہ تشویشناک ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق زیادہ تر حلقوں میں ٹرن آؤٹ 35 فیصد سے بھی کم رہا۔ فیصل آباد این اے 104 میں یہ محض 13.23 تک گرا، جبکہ لاہور کے حلقہ این اے129 میں صرف 18.67 ووٹ ڈالے گئے۔ یہ انتہائی کم شرکت انتخابی عمل کی قانونی حیثیت اور منتخب نمائندوں کی اصل نمائندگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ جب ووٹر یہ محسوس کرتا ہے کہ انتخابی عمل سے کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی اور متبادل صرف ایک خاندان سے دوسرے خاندان تک محدود ہےتو وہ گھر بیٹھنے کو ترجیح دیتا ہے۔

یہ کم ٹرن آؤٹ ملک میں جمہوری عمل کی کمزوری اور لوگوں کا جمہوری اداروں پر سے اعتماد ختم ہونے کا واضح اظہار ہے۔ تاہم ہری پور میں 48 کے قریب ٹرن آؤٹ قدرے خوش آئند ہے۔ ان ضمنی انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کی قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 132 ہوگئی ہے اور اتحادی جماعتوں کو ملا کر سادہ اکثریت کا میجک نمبر 170 پورا ہوگیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سادہ اکثریت کے لیے اب مسلم لیگ (ن) کو پیپلز پارٹی کے سہارے کی فوری ضرورت نہیں ہے۔

اسی اثنا میں چیئرمین سینیٹ کی جانب سے ن لیگ اور پی پی پی کے درمیان کسی ڈھائی سالہ فارمولے کا ذکر ایک نیا پینڈورا باکس کھول رہا ہے۔ ارباب اختیار کے ترجمانوں کی جانب سے 28 ویں ترمیم اور این ایف سی میں ترمیم، مضبوط بلدیاتی نظام کے لئے آئین میں ترمیم کے اشارے مل رہے ہیں جس سے مستقبل کے سیاسی منظرنامے میں تبدیلی کا امکان ہے۔ ضمنی انتخابات کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں کو ملک میں جمہوری اداروں پر عوامی اعتماد بحال کرنا ہے تو انہیں فوری اور سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔

سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر داخلی جمہوریت لانی ہوگی اور گراس روٹ لیول تک اپنا نیٹ ورک مضبوط کرنا ہوگا۔ جب تک پارٹیوں کے اندر شفاف اور جمہوری انتخابات نہیں ہوں گےاور ٹکٹ میرٹ پر جاری نہیں کیے جائیں گے، موروثی سیاست کا خاتمہ ممکن نہیں۔ پارٹی میں جمہوریت ہی پارلیمان میں جمہوریت کا راستہ کھولے گی۔ سیاسی جماعتوں کو محض مرکزی قیادت سے نکل کر یونین کونسل اور وارڈ کی سطح تک منظم ہونا ہوگا اور نچلی سطح کے کارکنان کو حقیقی اہمیت دینی ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی مقامی حکومتوں کا مضبوط نظام نئی قیادت کو سامنے لائے گا اور لوگوں کے مسائل مقامی سطح پر حل ہونے سے عام آدمی کا نظام پر اعتماد مضبوط ہوگا۔ لوگوں کے ختم ہوتے ہوئے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے جامع انتخابی اصلاحات ناگزیر ہیں۔

یہ اصلاحات صرف انتخابی عمل کی شفافیت تک محدود نہیں ہونی چاہئیں بلکہ پارٹیوں کے اندرونی ڈھانچے اور ٹکٹ دینے کے طریقوں کو بھی جمہوری اصولوں کے تابع کرنا ضروری ہے۔ سخت چیک اینڈ بیلنس کے بغیر انتخابی نظام میں بہتری ممکن نہیں ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں نے اپنی روایتی اور موروثی روش ترک نہ کی اپنے ورکرز کو نظرانداز کرنا بند نہ کیااور حقیقی اصلاحات نہ لائیں تو ملک میں جمہوری اداروں سے عوام کا رہا سہا اعتماد بھی مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari