Wednesday, 10 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Atiq Chaudhary
  4. Pani Ka Sangeen Bohran

Pani Ka Sangeen Bohran

پانی کا سنگین بحران

پاکستان آج پیچیدہ آبی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ یہ بحران صرف پانی کی مقدار تک محدود نہیں بلکہ اس کے معیار اور سب سے بڑھ کر ناقص انتظامی ڈھانچے (گورننس) میں موجود خلاء سے جڑا ہوا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایشین واٹر ڈیولپمنٹ آؤٹ لک 2024 کی تازہ ترین رپورٹ اس حقیقت کا ایک لرزہ خیز نقشہ پیش کرتی ہے کہ ملک کی 80 فیصد سے زائد آبادی کو محفوظ پینے کے پانی تک رسائی حاصل نہیں۔ یہ اعداد و شمار محض ایک رپورٹ نہیں بلکہ ایک ایسی قومی ایمرجنسی ہے جو صحت، معیشت اور ماحولیاتی استحکام کو یکساں طور پر متاثر کر رہی ہے۔

اے ڈی بی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ بارہ برسوں میں پانی کے تحفظ کے قومی اسکور میں معمولی بہتری (6.4 پوائنٹس) ضرور آئی ہے لیکن یہ بہتری آبادی میں تیز رفتار اضافہ، موسمیاتی تغیرات اور خراب انتظامی ڈھانچے کی وجہ سے غیر مؤثر ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 1972 میں 3,500 مکعب میٹر سے ڈرامائی طور پر کم ہو کر 2020 تک صرف 1,100 مکعب میٹر رہ گئی ہےجو اسے آبی قلت کے خطے میں دھکیل چکی ہے۔ یہ کمی نہ صرف ہماری زراعت کو خطرے میں ڈال رہی ہے بلکہ صنعتی اور گھریلو استعمال کے لیے بھی پانی کے وسائل پر شدید دباؤ بڑھا رہی ہے۔

معاشی آبی تحفظ کے شعبے میں جمود برقرار ہے اور اس صورتحال کو اسٹیون سلومین نے اپنی کتاب "واٹر: دی ایپک بیٹل فار ویلتھ، پاور، اینڈ سویلائزیشن" میں بیان کردہ نیلی سونے، (Blue Gold) کی حقیقت کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ سلومین کی دلیل ہے کہ مستقبل میں پانی ہی عالمی طاقت اور معیشت کا فیصلہ کن عنصر ہوگا۔ پاکستان اپنے قیمتی "نیلے سونے" کو غیر مؤثر انتظام کی بھینٹ چڑھا رہا ہے۔ زرعی شعبے میں زیرِ زمین پانی کا حد سے زیادہ اور بے لگام استعمال نہ صرف ذخائر کو ختم کر رہا ہے بلکہ اسے آرسینک جیسی آلودگی سے زہر آلود بھی کر رہا ہے۔ معاشی ترقی کے لیے ناکافی ذخیرہ اندوزی اور صنعتی سرگرمیوں پر پانی کے غیر مؤثر نگرانی کا نظام ہماری معیشت کو پسماندگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ آبی بحران کا سب سے براہ راست اور لرزہ خیز اثر انسانی تحفظ پر پڑ رہا ہے۔

ایمری ایلویڈی (Emery Elveidi) کی کتاب "کیٹاسٹروفی: واٹر سکیئرسٹی اینڈ ہیومن سکیورٹی" کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ پانی کی کمی اب محض ماحولیاتی مسئلہ نہیں رہی بلکہ یہ قومی سلامتی اور انسانی تحفظ کے لیے ایک سنگین اور بڑھتا ہوا خطرہ ہے۔ کتاب دلیل دیتی ہے کہ پانی کی قلت کا سب سے بڑا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ صحت کے بحرانوں، خوراک کے عدم تحفظ اور بڑے پیمانے پر جبری نقل مکانی کو جنم دیتی ہے۔ اس کے علاوہ، یہ کتاب جغرافیائی سیاست پر زور دیتی ہے کہ پانی پر بڑھتا ہوا دباؤ، خاص طور پر مشترکہ آبی وسائل پر انحصار کرنے والے ممالک کے درمیان، بین الاقوامی تنازعات کو ہوا دے سکتا ہے اور ملک کے اندر بھی سماجی عدم استحکام اور جھگڑوں کا باعث بن سکتا ہے۔

یونیسیف اور عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ بھی عالمی سطح پر عدم مساوات اور پسماندہ آبادیوں کی محفوظ پانی تک رسائی میں کمی کو اجاگر کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے ہر چار میں سے ایک شخص (تقریباً 2.1 ارب افراد) اب بھی محفوظ پانی تک رسائی سے محروم ہے اور 10 کروڑ سے زائد افراد براہِ راست غیر صاف شدہ سطح کے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں ناقص سروس ماڈلز اور وسیع پیمانے پر بیکٹیریائی آلودگی کے نتیجے میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا پھیلاؤ ایک مستقل وبائی صورت اختیار کر چکا ہے جو ملکی صحت کے نظام پر بے پناہ دباؤ ڈال رہا ہے۔

مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ جہاں عالمی کوریج میں بہتری آئی ہے وہیں پاکستان کے شہری علاقوں میں بنیادی سطح کے پینے کے پانی کی سہولت 94 فیصد سے گھٹ کر 93 فیصد تک آ گئی ہے۔ یہ معمولی کمی اس امر کا ثبوت ہے کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری طلب، ناقص انتظامی ڈھانچے اور بغیر علاج شدہ گندے پانی کے اخراج کی وجہ سے نظام کمزور ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں غریب اور پسماندہ شہری آبادیوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی آبی تحفظ کا اسکور 9.6 سے کم ہو کر 9.2 پر آ گیا ہے جس کی وجہ سے دریائے سندھ اور اس سے جڑے میدانی دلدلی علاقے آلودگی اور بہاؤ کی کمی کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر ہیں۔ آبی بحران کی اصل جڑ پانی کے انتظام کے نظام میں موجود نقائص ہیں۔ اے ڈی بی کی رپورٹ واضح کرتی ہے کہ اگرچہ پاکستان کے انتظامی نظم و نسق کی کارکردگی میں بہتری (2017 میں 50 فیصد سے بڑھ کر 2023 میں 63 فیصد) آئی ہےلیکن یہ بہتری صرف "کاغذی قانون سازی" کی عکاس ہے۔ عملی نفاذ میں پائے جانے والے وسیع خلا نے صورتحال کو سنگین بنا رکھا ہے۔

2018میں منظور شدہ قومی پانی پالیسی ایک قابلِ تعریف دستاویز ہے مگر ادارہ جاتی بکھراؤ، محدود ہم آہنگی، تکنیکی صلاحیتوں کی کمی اور ناکافی سرمایہ کاری وہ کلیدی رکاوٹیں ہیں جو اس پالیسی کو زمین پر مؤثر ہونے سے روک رہی ہیں۔ رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ مربوط اور مناسب فنڈنگ کے حامل نظامِ حکمرانی کے بغیر پانی کے تحفظ میں ہونے والی کوئی بھی بہتری غیر ہموار اور غیر پائیدار رہے گی۔ نیشنل واٹر کونسل کا اعلان 2018 میں ہونے کے باوجود تاحال غیر فعال ہونا، سیاسی عزم کی کمی کا واضح ثبوت ہے۔

پاکستان آبی آفات کے حوالے سے بھی شدید خطرات کا سامنا کر رہا ہے۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب کے باوجود آبی آفات کے تحفظ کا اسکور محض معمولی ترقی (10.8 سے 11.5 تک) ظاہر کرتا ہے۔ جب مقامی سطح پر رسک مینجمنٹ کمزور ہو اور موسمیاتی خطرات جیسے بے ترتیب مون سون اور گلیشیائی جھیلوں کا پھٹنا موجود ہوں تو یہ صورتحال ایک ماحولیاتی آفت سے بڑھ کر قومی سلامتی کا بحران بن جاتی ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر ہوتے ہیں اور غذائی تحفظ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

پاکستان کا آبی بحران ایک کثیر جہتی چیلنج ہے جو فوری اور ٹھوس اقدامات کا متقاضی ہے۔ اگرچہ واش (WASH) فنڈنگ میں کچھ اضافہ ہوا ہے، لیکن مطلوبہ اہداف کو پورا کرنے کے لیے درکار 12.3 ارب ڈالر کے مقابلے میں یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ محض منصوبہ بندی سے آگے بڑھ کر عملی نفاذ پر توجہ دی جائے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بنک کی اہم سفارشات پر فوری عملدرآمد ناگزیر ہےاول، نیشنل واٹر کونسل کو فوری طور پر فعال کیا جائے۔ دوم، زراعت اور صنعت میں پانی کے مؤثر استعمال کے لیے والومیٹرک پرائسنگ متعارف کرائی جائے۔ سوم، ایک خود مختار واٹر کوالٹی اتھارٹی قائم کی جائے۔

پانی زندگی ہے۔ انسانی جسم کا ہر عضو، بشمول دماغ، پھیپھڑے اور خون، پانی کا محتاج ہے۔ جب 80 فیصد سے زائد آبادی کو یہ بنیادی حق میسر نہ ہو، تو یہ قومی سلامتی، معاشی استحکام اور انسانی حقوق کا ایک بڑا سوال ہے۔ ہمیں پانی کے انتظام میں نظامی کمزوریوں کو دور کرنا ہوگا ورنہ یہ آبی عدم تحفظ ہماری بقا اور آئندہ نسلوں کی فلاح کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔

Check Also

Mohtat Rehne Ki Zaroorat

By Hameed Ullah Bhatti