Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Atiq Chaudhary
  4. Nakam Muashi Model Aur Nojawano Ki Mayoosi

Nakam Muashi Model Aur Nojawano Ki Mayoosi

ناکام معاشی ماڈل اور نوجوانوں کی مایوسی

پاکستان کا موجودہ معاشی منظرنامہ کئی دہائیوں کی ناکام پالیسیوں، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور اشرافیہ کے تسلط کا براہ راست نتیجہ ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق محنت کش اور متوسط طبقہ معاشی تحفظ کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہا ہے جب کہ نوجوان نسل مایوسی اور بے یقینی کا شکار ہے۔ قومی لیبر فورس سروے 25-2024ء کے نتائج اس تشویشناک صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔

سروے کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح 7.1 فیصد تک پہنچ گئی ہےجو کہ سال 2020-21 کی 6.3 فیصد شرح سے 0.8 فیصد زیادہ ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں بے روزگاری میں یہ اضافہ تشویشناک ہے۔ ملک میں اس وقت تقریباً 80 لاکھ افراد بیروزگار ہیں جب کہ 2023 کی مردم شماری کے مطابق ملکی آبادی 24 کروڑ 14 لاکھ 90 ہزار ہے۔ روزگار کی تقسیم کے لحاظ سے سروسز سیکٹر 41.7 فیصد کے ساتھ سب سے زیادہ روزگار فراہم کر رہا ہے (3 کروڑ 18 لاکھ 30 ہزار افراد) اس کے بعد زرعی شعبہ 33.1 فیصد (2 کروڑ 55 لاکھ 30 ہزار افراد) اور صنعتی شعبہ 25.7 فیصد (1 کروڑ 98 لاکھ 60 ہزار افراد) پر ہے۔

مزدور منڈی کی اکثریت اب بھی غیر رسمی اور کم اجرت والی ملازمتوں پر مشتمل ہےجہاں 85 فیصد سے زیادہ روزگار غیر رسمی نوعیت کا ہے۔ اس کے باوجودلیبر فورس سروے کے مطابق ملک میں فی کس ماہانہ اوسط اجرت 39 ہزار 42 روپے ہےجو 2020-21 کے 24 ہزار 28 روپے سے تقریباً 15 ہزار روپے زیادہ ہوئی ہےلیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سامنے یہ اضافہ بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ ریکلیمِنگ مومینٹم ٹوورڈز پراسپرٹی: پاکستان کی غربت، مساوات اور لچک کا جائزہ ملک کے ترقیاتی ماڈل کی ناکامی کو بے نقاب کرتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کا وہ ترقیاتی ماڈل جس نے ابتدائی طور پر غربت میں کمی کی تھی اب نا کافی ثابت ہوا ہے اور 2021-22 سے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غربت میں کمی کا وہ امید افزا سفر اب رک گیا ہے اور برسوں کی محنت سے حاصل کردہ کامیابیاں ضائع ہو رہی ہیں۔ صرف گزشتہ تین برسوں میں غربت میں 7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اگر بین الاقوامی غربت لائن کے مطابق دیکھا جائے تو یہ شرح 44.7 فیصد تک جا پہنچی ہے۔

تشویشناک امر یہ ہے کہ ملک کی 42.7 فیصد ابھرتی ہوئی متوسط طبقہ آبادی مکمل معاشی تحفظ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے اور محفوظ نکاسیٔ آب، صاف پینے کا پانی، سستی توانائی اور رہائش جیسی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہے۔ معاشی بحران کا سب سے بڑا شکار پاکستان کا نوجوان ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق 15 سے 24 سال کی عمر کے 37 فیصد نوجوان نہ تو ملازمت کر رہے ہیں اور نہ ہی تعلیم یا تربیت میں شامل ہیں۔

نوجوانوں کی اس بڑی تعداد کا مزدور منڈی سے باہر ہونا ملک میں مایوسی اور آبادیاتی دباؤ میں عدم توازن کا سبب بن رہا ہے۔ یہ حقیقت ایک بومنگ آبادی کے لیے ایک بسٹڈمستقبل کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس معاشی اور سماجی عدم توازن کی جڑیں ایلیٹ کیپچر میں پیوست ہیں۔ آئی ایم ایف کی گورننس اور کرپشن کی تشخیصی رپورٹ میں "ایلیٹ کیپچر" کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، طاقتور اور بااثر گروہ شوگر، رئیل اسٹیٹ، انرجی سیکٹر اور زراعت جیسے اہم شعبوں اور سرکاری اداروں کے فیصلوں اور پالیسیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہ عمل غیر ضروری ٹیکس چھوٹ، پبلک پروکیورمنٹ میں غیر شفافیت اور خسارے میں جانے والے اداروں میں جوابدہی کے فقدان کے ذریعے ملک کے وسائل پر اپنا قبضہ مضبوط کرتا ہے۔ آئی ایم ایف کا مرکزی موقف واضح ہے کہ کرپشن مسلسل اور وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے، جس سے ریاستی اداروں میں فیصلہ سازی کمزور اور وسائل کا ضیاع ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان کرپشن اور گورننس کے مسائل کو بہتر کر لے تو جی ڈی پی میں 5 سے 6 فیصد تک اضافی ترقی ممکن ہے۔

آئی ایم ایف کی رپورٹس نے پاکستان میں کمزور مالیاتی نظم و نسق اور گورننس کے نقائص کو بھی اجاگر کیا ہے۔ رپورٹ میں کمزور سنگل ٹریژری اکاؤنٹ فریم ورک، عوامی سرمایہ کاری کے انتظام میں خامیاں اور قرض کے انتظام کے لیے بکھرے ہوئے ادارے (جن کے اختیارات اور ذمہ داریاں ایک دوسرے سے اوپر نیچے ہوتی ہیں) کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ وہ ادارے جو روایتی مالیاتی احتساب کے دائرے سے باہر کام کرتے ہیں، ریاستی اداروں کو کمزور کرتے ہیں اور بدعنوانی کے خطرات کو بڑھاتے ہیں۔

اسٹیٹ بینک کے گورنر جمیل احمد کا یہ اعتراف کہ پاکستان کا موجودہ معاشی ترقیاتی ماڈل 25 کروڑ سے زائد آبادی کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر ہے، بحران کی شدت کو واضح کرتا ہے۔ گورنر سٹیٹ بنک کے مطابق گزشتہ تین دہائیوں سے معاشی نمو میں مسلسل تنزلی (اوسط 3.9فیصد سے 3.4فیصدتک) اور "بوم اینڈ بسٹ" کے مختصر چکر ملکی معیشت کو طویل مدتی استحکام فراہم نہیں کر سکتے۔ ملک ایک انفلیکشن پوائنٹ پر کھڑا ہے، جہاں فوری طور پر قلیل مدتی استحکام سے ہٹ کر پائیدار اور جامع معاشی نمو کی طرف بڑھنا ناگزیر ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف عالمی بینک اور آئی ایم ایف ہی ہماری معاشی کمزوریوں و ناکامیوں کے ذمہ دار ہیں؟ یا ہماری اپنی معاشی پالیسیاں ملک میں معاشی ترقی کو فروغ نہیں دے رہی جس سے عام آدمی کا معیار زندگی بلند ہو۔ انسانی ترقی کے عالمی انڈیکس میں پاکستان نچلے درجوں پر ہے۔ عالمی بینک کے سینئر ماہرین نے اس دعوے کو مسترد کیا ہے کہ پاکستان نے کوئی مخصوص معاشی ماڈل اپنایا جو ان اداروں نے مسلط کیا ہو۔

یہ بات درست ہو سکتی ہے کہ ماڈل کسی نے مسلط نہیں کیا، لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ یہ ادارے پاکستان کے ساتھ "آنکھ مچولی" کھیل رہے ہیں اور کمزور گورننس کے باوجود مسلسل قرض فراہم کرکے، بالواسطہ طور پر، اشرافیہ کے طاقتور بیانیے کو ہر وقت سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔ ان اداروں کی شرائط، اگرچہ ٹیکس اصلاحات اور شفافیت کا تقاضا کرتی ہیں لیکن ان کا نفاذ ہمیشہ طاقتور طبقات کو غیر ضروری رعایتیں دیتے ہوئے کیا جاتا ہےجیسا کہ آئی ایم ایف نے خود پاکستان کے "ڈسٹورٹیو اور پیچیدہ ٹیکس نظام" اور طاقتور طبقوں کو فائدہ دینے والی غیر ضروری ٹیکس چھوٹ کی نشاندہی کرکے واضح کیا ہے۔

پاکستان کا معاشی بحران محض اعداد و شمار کا کھیل نہیں، یہ لاکھوں نوجوانوں کے خوابوں کا ٹوٹنا اور متوسط طبقے کا غربت کی دلدل میں دھنسنا ہے۔ جب تک اشرافیہ کا وسائل پر قبضہ (ایلیٹ کیپچر) ختم نہیں کیا جاتا، گورننس میں بنیادی اصلاحات نہیں کی جاتیں اور ٹیکس نظام کو طاقتور گروہوں کے اثر سے آزاد کرکے شفاف اور سادہ نہیں بنایا جاتااس وقت تک پاکستان کی اقتصادی ترقی سٹرکچرل طور پر محدودرہے گی اور معیشت اوپر نہیں اٹھ سکے گی۔

ملک کو ایک بنیادی طور پر نئے، شفاف اور عوامی مفاد پر مبنی معاشی ماڈل کی ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں میں پھیلتی مایوسی کو امید میں بدلا جا سکے اور برسوں کی محنت سے حاصل کی گئی کامیابیاں ضائع نہ ہوں۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam