Sunday, 28 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Atiq Chaudhary
  4. Muashi Bohran Se Nikalne Ka Rasta

Muashi Bohran Se Nikalne Ka Rasta

معاشی بحران سے نکلنے کا راستہ

حکومت کی جانب سے معاشی بحران سے نکلنے کے دعوے اپنی جگہ لیکن کلیدی اقتصادی اشاریے زمینی حقائق کی سنگینی کا پردہ چاک کر رہے ہیں۔ ملک کی معیشت کو درپیش چیلنجز کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سرمایہ کاری میں جی ڈی پی کا تناسب، برآمدات کی کارکردگی، بیروزگاری کی شرح اور قوت خرید جیسے اشاریوں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں۔ کسی بھی معیشت کی ترقی کا انحصار اس کی سرمایہ کاری میں جی ڈی پی کے تناسب پر ہوتا ہے جو پاکستان میں شدید تشویشناک ہے۔ یہ تناسب خطے کے دیگر ممالک جہاں یہ 25 سے 30 فیصد کے قریب ہے کے مقابلے میں تقریباً نصف ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024ء میں انویسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی کی شرح 13.1 فیصد کی کم ترین سطح تک گر گئی جسے نظر ثانی کے بعد 13.8 فیصد کیا گیا۔ مالی سال 2025ء میں معمولی اضافے کے باوجود یہ 14.1 فیصد تک پہنچی مگر یہ 2023ء کی سرمایہ کاری پالیسی میں طے شدہ 20 فیصد کے ہدف سے اب بھی بہت دُور ہے۔ اس مایوس کن منظر نامے کو مزید تقویت اس امر سے ملتی ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹس کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ کے دوران براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) میں 26 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

ادارہ شماریات کے اعداد و شمار تجارتی محاذ پر بھی مایوسی کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران برآمدات میں گزشتہ برس کے اسی دورانیے کی نسبت 6.4 فیصد کمی آئی، جو 13.72 ارب ڈالر سے کم ہو کر 12.84 ارب ڈالر رہ گئی۔ اس کے برعکس درآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں جولائی سے اکتوبر تک کا تجارتی خسارہ 37 فیصد اضافے کے ساتھ 15.5 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔

آئی ایم ایف پروگرام کے تحت حکومت نے درآمدی ٹیکسوں میں 52 فیصد کمی کرنے کا وعدہ کیا تھا، مگر کمزور صنعتی ڈھانچے اور پیداواری سست روی کی وجہ سے یہ لبرلائزیشن تجارتی توازن پیدا کرنے میں ناکام رہی۔ ملک کی برآمداتی صنعت کو مہنگی توانائی، بے جا ٹیکس، امن و امان کی صورتحال اور علاقائی و عالمی سیاست کے عوامل جیسی کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی پروجیکشنز آنے والے وقتوں کے لیے سنگین معاشی چیلنجز کی نشاندہی کر رہی ہیں۔

آئی ایم ایف کے مطابق رواں مالی سال معاشی ترقی کی شرح 3.2 فیصد رہنے کا امکان ہے جبکہ بیروزگاری کی شرح 8 فیصد سے کم ہو کر 7.5 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ سب سے بڑا چیلنج مہنگائی کا ہے جس میں اضافے کا امکان ہے اور یہ جون 2026ء میں 8.9 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ آئی ایم ایف کا یہ بھی کہنا ہے کہ مالی سال 2026ء میں معیشت پر قرضوں کا بوجھ 70.6 فیصد سے کم ہو کر 69.6 فیصد ہونے کی توقع ہےجبکہ مالیاتی خسارہ مالی سال 2025ء کے 5.4 فیصد کے مقابلے میں مالی سال 2026ء میں 4 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔ اس کے باوجود زرمبادلہ ذخائر مالی سال 2026ء میں 17.8 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ ملک کے قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی دستاویزات کے مطابق موجودہ حکومت کے ابتدائی بیس مہینوں (مارچ 2024ء سے اکتوبر 2025ء) کے دوران قرضوں میں 12 ہزار 169 ارب روپے کا ہوشربا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جس سے وفاقی حکومت کا کل قرضہ اکتوبر 2025ء تک 76 ہزار 979 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ اس کے علاوہ گیس سیکٹر میں 3180 ارب روپے کا گردشی قرضہ نہ صرف ایک بڑا معاشی بوجھ ہے (جو جی ڈی پی کے تین فیصد کے برابر ہے) بلکہ یہ کئی دہائیوں پرانی نااہلی اور ناقص کارکردگی کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ اس خسارے کی نمایاں وجوہات میں گیس بلوں کی عدم ادائیگی، لائن لاسز (گیس چوری) اور درآمدی ایل این جی اور مقامی گیس کی قیمتوں کا فرق شامل ہیں۔ حکومت کی جانب سے اس خسارے کو ختم کرنے کے لیے پٹرولیم لیوی میں پانچ روپے مزید اضافہ کرنے کا ارادہ صارفین پر مزید ناروا بوجھ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ اس سے قبل بھی قیمتوں میں اضافہ خسارہ کم کرنے میں ناکام رہا ہے۔

عالمی سطح پر تعلقات میں بہتری اور امریکہ میں پاکستانی مصنوعات پر محصول کی کم شرح جیسے مواقع کے باوجود عملی پیشرفت کا فقدان ہے جس کے باعث غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم رو بہ زوال ہے، صنعتی سرگرمیاں ساکت ہیں اور برآمدات میں تیزی نہیں۔ یہ صورتحال براہِ راست عوامی معیشت اور روزگار کی حالت کو قابل رحم بنا رہی ہے۔ بحران کی اصل جڑیں نظر انداز کی جا رہی ہیں مثال کے طور پرگیس سیکٹر کے ایل این جی معاہدوں کی شفاف تحقیقات، اربوں روپے کے نادہندگان کے خلاف کارروائی اور گیس چوری کی روک تھام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ملکی معیشت کو اس بندش سے نکالنے کے لیے زبانی دعوؤں کے بجائے مؤثر، نتیجہ خیز اور بنیادی اصلاحات پر مبنی عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔

پاکستان میں موجودہ سیاسی جنگ کی جڑیں طویل عرصے سے جاری معاشی جمود میں پیوست ہیں۔ معیشت کی "اوور ہیٹنگ" اور زرمبادلہ ذخائر کے ڈیفالٹ کے قریب پہنچنے کا عمل 2022ء کی گرمیوں میں واضح ہو چکا تھا۔ اگرچہ جولائی 2023ء میں ہنگامی آئی ایم ایف پروگرام نے ملک کو دو بار بڑے بحران سے بچایا مگر اس کا خمیازہ ترقی اور روزگار کے مواقع کو روک کر ادا کیا گیا ہے۔ جمود پر مبنی یہ استحکام سرمایہ کاروں میں مایوسی بڑھاتا ہے، متوسط طبقہ اپنی قوتِ خرید کھو دیتا ہے اور ریاست کی وسائل کی طلب میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے تحت ٹیکس بڑھتے ہیں اور اسٹیٹ بینک ڈالر کو ذخائر بڑھانے کے لیے سمیٹ لیتا ہےجس کا براہِ راست بوجھ سرمایہ داروں پر پڑتا ہے۔ وسائل کی کمی کا دباؤ سیاسی نظام میں ہلچل پیدا کرتا ہے جس سے سول اور ملٹری اداروں کے درمیان دراڑیں بڑھتی ہیں۔

ایک طرف سول حکومتیں عوام کو راضی رکھنے کے لیے وسائل مانگتی ہیں تو دوسری طرف ادارے اخراجات میں اضافے کے پیش نظر مزید فنڈز مانگتے ہیں۔ جب تک سیاسی استحکام سے معاشی ترقی کی طرف جانے کا کوئی ٹھوس منصوبہ سامنے نہیں آتا نظام اندرونی کشمکش کا شکار رہے گا اور یہ دباؤ کسی بڑے تصادم یا حساب کتاب کے بغیر نہیں ٹلے گا۔ بظاہر یہ لگ رہا ہے سیاسی عدم استحکام کی شدت مزید بڑھتی جائے گی اور اس کا براہ راست اثر معاشی بحران پر بھی پڑے گا۔ جبکہ تک ملک میں سیاسی استحکام کے لئے کوششیں نہیں کی جاتیں معاشی استحکام کا خواب پورا نہیں ہوگا۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ارباب اختیار اور ارباب عقل و دانش، اقتدار کی غلام گردشوں میں رہنے والے سیاستدان سر جوڑ کر بیٹھیں اور ملک کو بحرانوں سے نکالنے کےلئے کوئی گرینڈ ڈائیلاگ کا راستہ نکالیں، ڈائیلاگ سے ملک میں سیاسی استحکام کا راستہ نکلے گا۔ سیاسی استحکام آئے گا تو معاشی استحکام آئے گا۔

Check Also

Poonam, Sarhad Aur Aik Adhoora Safar

By Muhammad Idrees Abbasi