Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Atiq Chaudhary
  4. E-Challan, Bhari Jurmane Aur Awami Mushkilat

E-Challan, Bhari Jurmane Aur Awami Mushkilat

ای چالان، بھاری جرمانے اور عوامی مشکلات

حکومت پنجاب کی جانب سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ای چالان کے سخت نظام اور بھاری جرمانے کے نفاذ نے جہاں ایک طرف سڑکوں پر نظم و ضبط قائم کرنے کی کوشش کی ہے وہیں دوسری طرف عام آدمی اور خاص طور پر سکول اور کالج جانے والے بچوں کے لیے روزمرہ کی زندگی میں نئی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ ہزاروں روپے کے غیر متوقع جرمانے ایک غریب یا متوسط طبقے کے شہری کے ماہانہ بجٹ کو بری طرح متاثر کرتے ہیں جس سے خاندانوں کو شدید مالی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی ٹریفک قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں پر فوری گرفتاریوں کی پالیسی نے سڑکوں پر خوف کی فضا پیدا کر دی ہے اور جب کوئی عام شہری یا نوجوان ڈرائیور معمولی غلطی پر بھی گرفتاری کا سامنا کرتا ہے تو اس کے اور اس کے خاندان کے لیے پریشانی، وقت کا ضیاع اور قانونی الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ نوجوانوں کا کرمنل ریکارڈ بن جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ نوکری بھی حاصل نہیں کر سکتا۔

سکول جانے والے بچوں کے والدین جو پہلے ہی محدود وسائل کے ساتھ بچوں کو وقت پر سکول چھوڑنے کی جلدی میں ہوتے ہیں اب مسلسل اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ ان کا والد یا ڈرائیور کسی معمولی غلطی پر چالان یا گرفتاری کی زد میں نہ آ جائے۔ یہ صورتحال ایک سماجی دباؤ کا باعث بنتی ہے جہاں ٹریفک قوانین کا نفاذ تحفظ کا احساس دلانے کے بجائے خوف اور اضطراب میں اضافہ کر رہا ہے اور یہ لازم ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی سختی کے ساتھ ساتھ انسانی پہلو اور عوامی سہولت کو بھی مدنظر رکھیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی قیادت میں ٹریفک کے نظام کو سدھارنے کے لیے ٹریفک پولیس کو دی گئی حتمی وارننگ اور 30 دن کی ڈیڈ لائن نے صوبے بھر میں سخت نفاذ کی ایک نئی لہر پیدا کر دی ہے۔ وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ اب کوئی امتیاز نہیں رکھا جائے گا اور ہر شہری کو خلاف ورزی پر جرمانہ کرنا اور دینا پڑے گا کیونکہ ٹریفک قوانین کی مسلسل خلاف ورزی اور بے ہنگم ٹریفک ریاست کی رٹ کمزور ہونے کے مترادف ہے۔

اسی ڈیڈ لائن کے نتیجے میں محض چار روز کے اندر لاہور شہر میں 2 لاکھ 47 ہزار سے زائد چالان ٹکٹ جاری کیے گئے اور 25 کروڑ 73 لاکھ روپے کے بھاری جرمانے عائد کیے گئے جبکہ کریک ڈاؤن کے دوران تقریباً 50 ہزار موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں مختلف تھانوں میں بند کی گئیں اور ون وے سمیت دیگر سنگین خلاف ورزیوں پر 9 ہزار 379 مقدمات درج کیے گئے، یہاں تک کہ کالے شیشوں کے استعمال پر بھی مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔ اس سخت نفاذ کا مقصد بلاشبہ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔

لاہور میں کئی ایسی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں جہاں معمولی غلطیوں پر نوجوانوں کو ساری ساری رات حوالات میں بند کیا جا رہا ہے اور ان پر ایف آئی آر بھی دی جارہی ہے، جس پر عوامی حلقے پہلے وارننگ اور بار بار خلاف ورزی پر ہی ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لاہور شہر میں ٹریفک اکثر جام رہتی ہے، سکول و کالج کی ٹائمنگ کے دوران ٹریفک کورواں رکھنا ایک چیلنج ہے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو اس پر بھی توجہ دینی چاہئے صرف چالان ٹریفک مسائل کا واحد حل نہیں ہے۔

ایک طرف جہاں یہ سخت اور بھاری جرمانے اور گرفتاریوں کی پالیسی کو قانون کی حکمرانی کی جانب ایک اہم قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے وہیں دوسری طرف یہ سختی اس بنیادی سوال کو جنم دیتی ہے کہ کیا ہمارا معاشرہ صرف عبرت کے ذریعے سدھر سکتا ہے یا اسے عملی تربیت کی ضرورت ہے؟

صوبائی موٹر وہیکل آرڈیننس میں حالیہ ترامیم اور جرمانے کی شرح میں کئی گنا اضافہ بلاشبہ ایک طاقتور "روک تھام" (Deterrent) کے طور پر کام کرتا ہے مگر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی سب سے بڑی وجہ شعور، آگاہی اور عملی ڈرائیونگ تربیت کا شدید فقدان ہے۔ بہت سے نوجوان جو مناسب مہارت اور ذمہ داری کا احساس دلائے بغیر ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر لیتے ہیں انہیں نئے اور پرانے قوانین کی مکمل تفصیلات کا علم ہی نہیں ہوتا۔ اچانک سے ہزاروں روپے کے جرمانے یا گرفتاری کا سامنا کرنا انہیں قانون سے تعاون کے بجائے خوف اور بیزاری کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ اس لیے اس مسئلے کا پائیدار حل سختی اور سزاؤں کے ساتھ تعلیم اور رہنمائی کا توازن قائم کرنے میں مضمر ہے۔ یہ مسئلہ اب انتظامی حدود سے نکل کر صحتِ عامہ کے ایک سنگین بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

پاکستان میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات جو اوسطاً ہر چھ منٹ میں ایک شخص کو جاں بحق کر رہے ہیں، عالمی ادارہ صحت کی رپورٹس کی روشنی میں مزید تشویشناک صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ "گلوبل اسٹیٹس رپورٹ آن روڈ سیفٹی 2023" کے مطابق پاکستان میں ٹریفک حادثات سے ہونے والی اموات کا سالانہ تخمینہ 27 ہزار 500 سے زائد ہے جو دہشت گردی سے ہونے والی ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ اموات بالخصوص 15 سے 29 سال کی عمر کے نوجوانوں میں موت کی سب سے بڑی وجہ بن رہی ہیں جس سے ملک کو اپنی صحت مند اور پیداواری افرادی قوت سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔

پاکستان بھی اقوام متحدہ کے تحت پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) بالخصوص ہدف 3.6 کے تحت 2030 تک ٹریفک حادثات سے ہونے والی اموات اور زخمیوں کی تعداد کو نصف کرنے کا پابند ہے مگر روزانہ ٹریفک قوانین کی ہزاروں خلاف ورزیوں کے تناظر میں ان عالمی اہداف کا حصول ایک کٹھن چیلنج نظر آتا ہے۔ یہ حادثات صرف انسانی جانوں کا ہی نہیں بلکہ قومی معیشت کا بھی بڑا نقصان کر رہے ہیں۔

وزارت مواصلات کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ہر سال ٹریفک حادثات کی وجہ سے تقریباً 9 ارب ڈالر (تقریباً 1400 ارب روپے) کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے جو قومی دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ اس نقصان کو مزید بڑھانے والا ایک کلیدی عنصر قریبی طبی سہولیات اور ٹراما سنٹرز کا فقدان ہے۔ حادثے کی صورت میں زخمی کو "گولڈن آور" (Golden Hour) میں طبی امداد کا نہ ملنا عالمی معیار کے مطابق ایک سنگین کوتاہی ہے۔ شاہراہوں پر ایمرجنسی طبی مراکز کی دوری یا چھوٹے اسپتالوں میں مناسب ٹراما کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے معمولی زخمی بھی بروقت علاج نہ ملنے پر جان کی بازی ہار جاتے ہیں جو سالانہ اموات کی شرح میں اضافہ کا ایک بڑا سبب ہے۔

ٹریفک کے نظام میں حقیقی تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب قانون کے سخت نفاذ، بھاری جرمانوں اور مقدمات کے اندراج کو وسیع عوامی شعور، لازمی ڈرائیونگ تربیت اور شاہراہوں پر مربوط و مؤثر ہنگامی طبی نظام کی فراہمی کے ساتھ یکجا کیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ آگاہی مہمات میں تیزی لائے، ڈرائیونگ لائسنس کے اجراء سے قبل محفوظ ڈرائیونگ کی باقاعدہ اور لازمی تربیت کا پروگرام متعارف کرائےاور کم سنگین خلاف ورزیوں پر کمیونٹی سروس کی آپشن کو بھی زیر غور لائے۔

ٹریفک پولیس کا بنیادی مقصد صرف بھاری جرمانے عائد کرکے خوف پیدا کرنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کی توجہ روڈ سیفٹی کے اصولوں کی اہمیت کو عوام کے ذہنوں میں راسخ کرنے پر مرکوز ہونی چاہیےتاکہ لوگ جرمانے کے ڈر سے نہیں بلکہ اپنی اور دوسروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے قانون پر عمل کریں۔ نظم و ضبط صرف خوف سے نہیں، شعور اور تربیت سے قائم ہوتا ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan