Sunday, 28 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Atiq Chaudhary
  4. Bayanio Ki Jang Aur Sachai Ka Zawal

Bayanio Ki Jang Aur Sachai Ka Zawal

بیانیوں کی جنگ اور سچائی کا زوال

آج کا پاکستان ایک ایسے میدانِ جنگ میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں توپوں اور ٹینکوں کی جگہ بیانیوں نے لے لی ہے۔ اب کسی سیاسی جماعت کی کامیابی کا پیمانہ اس کی عملی کارکردگی نہیں بلکہ یہ صلاحیت بن چکی ہے کہ وہ اپنے حامیوں کے اذہان میں کتنا طاقتور، مؤثر اور سحر انگیز بیانیہ پیوست کر پاتی ہے۔

پاکستان میں جاری اس فکری رسہ کشی کو اگر عالمی نظریاتی تناظر میں دیکھا جائے تو ایڈورڈ برنیز کی کتاب "پروپیگنڈا" یاد آتی ہے جو واضح کرتی ہے کہ عوامی ذہن کو ایک خاص سمت میں ڈھالنا ایک فن جسے سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے تحفظ اور فروغ کیلئے استعمال کرتی ہیں۔

پاکستان کی سیاست میں بیانیہ سازی باقاعدہ صنعت بن چکی ہے۔ ہر سیاسی جماعت نے اپنے سوشل میڈیا سیل قائم کر رکھے ہیں جن کا بنیادی مقصد حقائق کو مسخ کرکے اپنے قائد کو مسیحا اور مخالف کو ابلیس بنا کر پیش کرنا ہے۔ جیسن اسٹینلے اپنی تصنیف "ہاؤ پروپیگنڈا ورکس" میں واضح کرتے ہیں کہ کس طرح زبان کے سیاسی استعمال کے ذریعے مخصوص الفاظ کو ہتھیار بنایا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں بھی چور، غدار، حقیقی آزادی، تبدیلی، ووٹ کو عزت دو، چہرے نہیں نظام بدلو، اسلامی انقلاب، سوشلسٹ انقلاب، روٹی کپڑا مکان اور سیکیورٹی رسک جیسے الفاظ اب محض اصطلاحات نہیں رہے بلکہ وہ سیاسی تیر بن چکے ہیں جو معاشرے میں تقسیم کی خلیج کو مزید گہرا کرتے جا رہے ہیں۔ بیانیوں کی اس جنگ میں شخصیت پرستی کا عنصر سب سے نمایاں ہے۔ سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنے قائد کے گرد ایسا طلسماتی حصار قائم کرتی ہیں کہ حامیوں کیلئے اس کی ہر خطا حکمتِ عملی اور ہر فیصلہ سیاسی مصلحت قرار پا تاہے۔

جیکول ایلول نے اپنی کتاب "پروپیگنڈا" میں لکھا کہ پروپیگنڈا کا مقصد سوچ کو بدلنا نہیں بلکہ انسان کو اس حد تک جذباتی کر نا ہے کہ وہ عقل کے بجائے جذبات کی بنیاد پر فیصلے کرنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی لیڈر کسی دوسرے پر الزام عائد کرتا ہے تو تحقیق کے بجائے اسے سچ بنا کر سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنا دیا جاتا ہے۔ فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن اس بیانیاتی جنگ کے خطرناک ہتھیار بن چکے ہیں۔

پیٹر پومرانیتسیو کی کتاب "دِس اِز ناٹ پروپیگنڈا: ایڈونچرز اِن دی وار اگینسٹ ریالٹی" آج کے ڈیجیٹل پاکستان پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ مصنف کے مطابق جدید انفارمیشن وارفیئر کا مقصد سچ کو چھپانا نہیں بلکہ متضاد معلومات اور جھوٹ کا ایسا سیلاب لانا ہے کہ عام آدمی حقیقت اور افسانے میں تمیز کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے۔ ڈیپ فیک ویڈیوز، جوڑ توڑ سے تیار کی گئی آڈیوز اور سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیے گئے بیانات کے ذریعے مخالفین کی منظم کردار کشی کی جا تی ہے۔ اس انفارمیشن وار فیئر کا نقصان یہ ہوا ہے کہ عام شہری اب حقائق پر مبنی خبر کے بجائے اسی خبر پر یقین کرتا ہے جو اس کے پسندیدہ لیڈر کے حق میں ہو۔

نوم چومسکی اپنی کتاب "مینوفیکچرنگ کانسینٹ: دی پولیٹیکل اکانومی آف دی ماس میڈیا" میں لکھتے ہیں کہ جب میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ایک ہی مؤقف کو بار بار دہرایا جائے تو وہ رفتہ رفتہ عوامی شعور کا حصہ بن جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی میڈیا کے مختلف دھڑے اب خبر دینے کے بجائے مخصوص سیاسی بیانیوں کے ایمپلی فائر بن چکے ہیں جس نے مکالمے کی گنجائش ختم کر دی ہے۔ اب بحث سچ کی تلاش پر نہیں بلکہ اس بات پر ہوتی ہے کہ کس کا ٹرینڈ زیادہ بڑا ہے اور کس کے پاس گالی دینے والے ٹرولز کی تعداد زیادہ ہے۔ بیانیوں کی اس اندھی جنگ میں سچائی کا قتلِ عام ہو رہا ہے۔

سیاسی جماعتوں کا اپنے لیڈرز کے گرد بُنا گیا یہ مقدس بیانیہ ریاست کے ستونوں کو کمزور کر رہا ہے۔ دلیل اور منطق پس منظر میں چلی گئی ہیں جس کا فائدہ اٹھا کر ملک دشمن عناصر معاشرے میں انتشار پھیلا رہے ہیں۔ اب ناگزیر ہو چکا ہے کہ ہم سیاسی وابستگیوں سے بلند ہو کر حقائق کو پرکھیں کیونکہ بیانیے بدلتے رہتے ہیں مگر ریاست کی بقا مستقل ہوتی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم پروپیگنڈا کے اس سحر کو توڑیں اور ہر بیانیے کے ترازو میں پاکستان کو سب سے پہلے رکھیں۔

Check Also

China Ki Raftar Aur Punjab Ki Had Bandiyan

By Asif Masood