Mein Aur Ana
میں اور اینا
یہ غالباََ دو ہزار اٹھارہ یا انیس کے سرما کی بات ہے۔ ہم ان دنوں یونیورسٹی میں تھے۔ پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہ تھی اس لیے ہاسٹل میں دل بھی نہ لگتا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ روزگار کے بھی مسائل تھے۔ چنانچہ مل ملا کر صورت یہ بنی کہ میں یونیورسٹی سے تقریباََ سو کلومیٹر دور رہنے لگا۔ روز کیلئے اتنا سفر آسان نہ تھا، صبح تین بجے اٹھنا پڑتا، تیار ہو کر چار بجے اڈے پر پہنچتا۔ بس کبھی جلدی مل جاتی اور کبھی انتظار کرنا پڑتا۔ بہر حال کر کرا کے آٹھ بجے یونیورسٹی پہنچ جاتا۔ وہاں حاضری لگا کر میں سب سے آخری نشست سنبھالتا اور اپنی کوئی کتاب پڑھنے لگا۔
اساتذہ یا دیگر طالب علموں سے میرا واسطہ حاضری تک رہتا اور اس کے بعد بس میرے تئیں شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور۔ ان دنوں مجھے ایک ناول کی بڑی چاٹ تھی۔ فکشن ہاؤس سے چھپا ہوا ٹالسٹائی کا اینا کریننا مجھے فرقان نے دیا تھا اور یہ ناول ان دنوں میرے سفر و حضر کا رفیق تھا۔ اس کا پلاٹ اور ٹالسٹائی کا بیان اس قدر دلچسپ ہے کہ چھوڑنے کو دل نہیں کرتا تھا۔ تاہم ہر چند سطور کے بعد کوئی نہ کوئی جملہ ایسا آ جاتا جس سے عبارت کا سارا مزہ کرکرا ہو جاتا۔ کئی جگہ جہاں مصنف نے پیچیدہ موضوعات پر بحث کی ہے وہاں معنی بالکل ہی گم ہو جاتے۔
یہ گویا وہی صورت حال تھی کہ خدا کسی کیلئے من و سلویٰ اتارے لیکن اس بیچارے کے دہن میں چھالہ نکل آئے۔ اب ایک طرف بندہ کھاتا جائے اور دوسری طرف خود کو کوستا جائے۔ خیر ایک دن یونہی میں جماعت کی آخری نشستوں پر بیٹھا اینا اور ورونسکی کے تعلقات کی گتھی سلجھا رہا تھا کہ استاد کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ اس نے بلاحجت وہ کتاب ضبط کرکے مجھے کلاس سے باہر نکال دیا۔ اب اندھا کیا مانگے دو آنکھیں، حاضری تو لگ چکی تھی، میں نے انٹرنیٹ سے اس ناول کا انگریزی متن نکالا اور وہ پڑھنے لگا۔ آغاز میں ہی مجھے حیرت کے کئی دورے پڑے۔
ایک تو ناول کی زبان اتنی صاف کہ مصنف کا مدعا آسانی سے سمجھ آنے لگا، دوسرا الفاظ کا چناؤ ایسا زبردست کہ مترجم کی فصاحت نے دل باندھ لیا۔ چنانچہ میں نے جو پہلے پڑھا تھا بیکار جانا اور پھر آغاز سے انگریزی میں قرآت شروع کی۔ ہفتے بھر میں ناول ختم ہوا تو میں وہ نہیں رہا تھا جو اسے پڑھنے سے پہلے تھا۔ اس سے پہلے میں دنیا سے ادھر اُدھر کا ادب پڑھ چکا تھا۔ روس سے بھی ٹالسٹائی، چیخوف، دوئستوفسکی، وغیرہ کو پڑھا تھا لیکن اگر مجھے اپنی زندگی کو دو ادوار میں تقسیم کرنا ہو تو اس ناول کا مطالعے کو حد قرار دوں گا، یعنی قبل از اینا کریننا اور بعد از اینا کریننا۔
متذکرہ بالا واقع کو کچھ سال گزر گئے لیکن اس ناول کا جادو کم نہیں ہوا۔ پھر دوسال قبل بک کارنر جہلم نے عالمی ادب کے انتخاب میں اسے شائع کرنے کا سوچا تو انہیں بھی تقی حیدر صاحب کے ترجمہ میں وہی خامیاں نظر آئیں جن کا ذکر ہو چکا۔ امر بھائی نے ناطق صاحب سے اس کی تصحیح کا ذکر کیا تو انہوں نے اسے میرے حوالے کر دیا۔ میں بڑا خوش ہوا کہ چلو ایک دفعہ پھر اسے پڑھنے کا موقع ہاتھ آیا۔ دو چار ہفتے کا کام ہے، پڑھتا جاؤں گا اور جہاں کوئی مسئلہ ہوا بدلتا جاؤں گا۔ تاہم جب کام شروع کیا تو اپنی خوش فہمی کا بڑی شدت سے احساس ہونے لگا۔
جہاں کوئی کوئی لفظ بدلنے کا سوچا تھا وہاں پورا پورا جملہ قلم زد ہونے لگا۔ جملہ کاٹنا تو بڑا آسان تھا لیکن جب اس کی جگہ خود لکھنے بیٹھتا تو گویا دانتوں کو پسینہ آنے والی بات ہو جاتی۔ اس چکر میں جو کام دو چار ہفتے کا سمجھ کر شروع کیا تھا وہ سال بھر پر محیط ہوگیا اور میں باقی سب کام چھوڑ کر اسی پر لگا رہا۔ پہلے میں تقی حیدر صاحب سے جلا بیٹھا تھا، اب ان سے ہمدردی ہونے لگی کہ اتنے بڑے کام کو ہاتھ ڈالنا اور پھر پورا کر دینا ہی بڑی ہمت کی بات تھی۔ خیر خدا خدا کرکے اسے ختم کیا۔ پھر پروف کی باری آئی۔
اب ایک دفعہ اس نظر سے پڑھا تو مزید کئی غلطیاں نظر آئیں جو ٹھیک کیں۔ کچھ دن گزرے تو امر بھائی نے کہیں سے اس کے سکیچ ڈھونڈ لیے اور پھر میری ذمہ داری لگائی کہ ان کیلئے مناسب جگہ کی نشاندہی کروں۔ پھر ایک دفعہ پڑھا اور کچھ جگہ مزید تبدیلیاں کر دیں۔ اب مجھے لگا کہ یہ سلسلہ کبھی رکنے والا نہیں، چنانچہ مسودہ حتمی طور پر بک کارنر کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے اس پر مزید کئی ماہ لگائے، فارمیٹنگ وغیرہ درست کی اور آج شائع کر دیا ہے۔ قیمت میری توقع کے برعکس انتہائی مناسب ہے۔
بچپن میں پڑھی اکثر کہانیوں کا اختتام ایک ہی جملے پر ہوتا تھا: پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ یہ ناول اس کے بعد کی کہانی ہے۔ انسان کی داخلی کشمکش، طبقاتی تضاد، محبت اور نفرت کے درمیان پڑنے والے مرحلے، مذہب، سیاست، لبرل ازم اور قدامت پرستی غرض کون سی چیز ایسی ہے جو دنیا کے سب سے بڑے لکھاری کے قلم سے بچ گئی ہو۔ جنگ و امن لکھنے والے ٹالسٹائی نے ایک جگہ خود لکھا ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی اینا کریننا کے بعد بھی لوگ جنگ و امن کو ناول کیوں سمجھتے ہیں؟ جو لوگ جنگ و امن پڑھ چکے ہیں وہ اینا کریننا پڑھ کر ٹالسٹائی سے اتفاق کریں گے۔