Hangaam e Safar
ہنگامِ سفر
بارے عامر جعفری صاحب، ان سے میری چند ملاقاتیں ہیں اور میں نے انہیں انتہائی خوش مزاج، زندہ دل اور محبت کرنے والا پایا۔ بنیادی طور پر وہ ایک شاعر کا دل رکھتے ہیں۔ پھر کام بھی ایسا کرتے ہیں کہ جس میں درد و سوز و آرزومندی کی بڑی ضرورت پڑتی ہے چنانچہ جب کچھ دن پہلے مجھے یہ کتاب ملی تو میرے دل میں جو خدشات پیدا ہوئے وہ آج مطالعہ کے بعد بعین حقیقت ثابت ہو گئے کہ لو یہ وہی دوائے دل ہے جو ہر فطرت سے محبت کرنے والے انسان کیلئے اکسیر ہے اور ہر حساس ذی روح کی روح کا نغمہ ہے۔
عامر صاحب ساری دنیا گھوم چکے ہیں لیکن لکھنے بیٹھے تو انہوں نے چن چن کر وہی شہر منتخب کیے جن کے ساتھ ہمارا بلکہ ہر فطرت پرور آدمی کا ایک ناسٹیلجیا وابستہ ہے۔ اشبیلیہ، قرطبہ، سمر قند، قسطنطنیہ، فلورنس وغیرہ ایسے شہر ہیں کہ ان کا نام سنتے ہی دل ان کی طرف لپکتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب واشنگٹن ارونگ کی "الحمراء کی کہانیاں" پڑھی تھی تو کیسے کئی ہفتے اس کیفیت سے نکل نہیں پایا تھا۔ بچپن سے آج تک کہانیاں تو اور بھی پڑھیں لیکن ان کہانیوں کے پس منظر میں قرطبہ اور غرناطہ کے جو شہر تھے وہ ذہن میں مستقل بس گئے۔ وہ پرانے محلات، شکستہ حمام اور گرتے پڑتے ستون جو انیسویں صدی میں کسی حد تک باقی تھے، ذہن میں آج بھی کسی فلم کی طرح چلتے ہیں۔
چنانچہ یہ وہ شہر ہیں کہ جن کا نام ایک ایسی کیفیت کے ساتھ دل کو کھینچتا ہے جو بیان نہیں کی جا سکتی۔ ڈان کیہوٹی یا ارونگ کے بعد اس موضوع پر اگر کسی کتاب نے "دل گرفتہ" کیا ہے تو وہ یہی کتاب ہے کیونکہ اسے پڑھتے ہوئے میں لاشعوری طور پر ان کیفیات کو محسوس کرتا رہا ہوں جو میری دانست میں ان گلیوں سے گزرتے ہوئے مصنف پر طاری ہوئی ہوں گی۔ چونکہ میرا دل بھی انہی کیفیات کا اسیر ہے اس لیے میں نے اس کتاب کے ذریعے لکھنے والے کے دل کو دیکھ لیا ہے۔ آرٹ کا اس کے علاوہ مقصد بھی کیا ہے کہ ہم اس کے ذریعے اپنا سوز دل اوروں کو دکھائیں، اس امید میں کہ اگر کسی اور کے سینے میں بھی ایسے گھاؤ ہوں تو میرا احساس تنہائی ذرا کم ہو جائے۔
کہیں پڑھا تھا کہ ایک آرٹسٹ کسی جزیرے پر کھڑے اس آدمی کی مانند ہے جو کاغذ پر اپنا پیغام لکھتا ہے اورپھر اسے بوتل میں بند کرکے سمندر میں بہا دیتا ہے۔ اگر قسمت سے کسی اور ساحل پر کسی کے ہاتھ وہ بوتل آ جائے اور وہ اسے کھول کر پڑھ لے تو بات اس تک پہنچ جاتی ہے اور لکھنے والے کی محنت وصول ہو جاتی ہے۔
یہ مختصر تحریر عامر صاحب کیلئے رسید ہے کہ کہیں اور ایک گمنام آدمی نے آپ کی بات سن لی ہے اور وہ اس امید میں ہے کہ اگلی دفعہ جب اتنے بڑے سمندر سے کوئی شیشی بہتی ہوئی آئے تو اس میں ایک زیادہ بڑی کتاب ہو۔