Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asmatgul Khattak
  4. Welldone, DPO Mianwali

Welldone, DPO Mianwali

ویلڈن، ڈی پی او میانوالی

یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہمارا شمار بھی نامور لوک فنکار عطاءاللہ عیسٰی خیلوی کے "نورتنوں" میں ہواکرتا تھا ہم ڈسٹرکٹ بھکر کے ایک علاقہ میں شؤ کرنے گئے پروگرام سے پہلے کھانے میں جب ضرورت سے کچھ زیادہ دیر ہوئی تو میزبان و مہمانوں کے درمیان کھسر پھسر سے پتہ چلا کہ کھانا تو کب کا تیار ھے بس معززین و خواص کے اس "مشروب خاص" کی آمد میں کچھ دیر ھے جو اس طرح کی مست الست محافل کا لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔

ذاتی طور پر میرے لئے حیرت کی پہلی بات یہ تھی کہ اس کم بخت مشروب کی دستیابی سے لیکر دسترخوان کی زینت بنانے تک کی ذمہ داری پولیس کےایک حاضر سروس (اور سونے پہ سہاگہ) متعلقہ علاقہ کے ڈی ایس پی کے سپرد تھی خالی پیٹ میں اودھم مچاتے چوہوں سے تنگ آکر از راہ مذاق میں نے مذکورہ آفیسر سے کہا "مال بردار" پولیس کی گاڑی کہیں کسی صحافی کے ہتھے نہ چڑھ گئی ہو اور صبح کے اخبارات میں خدانخواستہ آپ وردی اور ہم کپڑوں کے بغیر الف ننگے اپنی غیور قوم کے سامنے پیش کئے جارہے ہوں؟

دوسری حیرت نے اس لمحہ سرگوشی کی جب انہوں نے زیرلب مسکراتے ہوئے فرمایا کہ فکر نہ کریں یہاں ہر صحافی کے خلاف ہم نے ہرتھانے میں ایک ایک ایف آئی آر درج کررکھی ہے سو، یہاں کسی جابر حکمران کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے والے کسی صحافی کی پیدائش کا فی الحال دور دور تک کوئی امکان نہیں اس لئے ہم انشاءاللہ آپ کو پورے کپڑوں سمیت اور عزت واحترام کیساتھ یہاں سے رخصت کریں گے الحمدللہ، آج ہم نئے پاکستان میں سانس لے رہے ہیں جس کے معماروں کا دعویٰ ہے کہ وہ ریاست مدینہ کی بنیادوں پر اس نئے پاکستان کی تعمیر کررہے ہیں سو، لمحہ موجود کے پاکستان میں پرانے پاکستان کی پرانی پولیس اور مذکورہ بالا قصے کہانیاں سب کچھ بھیانک ماضی اور تاریخ کا شرمناک حصہ بن چکی ہیں۔

نئے پاکستان میں ملک بھر میں کیا ہورہاھے ہم جیسے کنویں کے مینڈک کیا جانیں؟ مگر ہماری خوش بختی ہے کہ نئے پاکستان کے ہراول دستے کی کمان سنبھالنے والے جناب عمران خان کے آبائی ضلع میانوالی میں راوی ہرطرف چین ہی چین لکھ رہاھے چور اچکے توبہ تائب ہو کر حلال کی روزی کمارہے ہیں ڈاکوؤں و لٹیروں پر زمین اتنی تنگ کردی گئی ہے کہ بیچارے فاقوں کے ہاتھوں مجبور ہوکر نت نئے دھندوں کی تلاش میں سرجوڑ کر بیٹھ گئے ہیں مگر انکی امیدوں کے ایک اک چراغ بجھتے چلے جارہے ہیں زیور سے لدی نوجوان عورتیں سڑکوں پر رات گئے دندناتی پھرتی ہیں مگر مجال ہے کوئی میلی آنکھ سے ان کو نظر اٹھا کر دیکھنے کی جرات کرسکے ہردم لہو مانگتی میانوالی کی دھرتی خونی پیاس سے تڑپ رہی ہے مگر قاتل اور مقتول جانے کہاں چلے گئے ہیں؟

امن وامان اور انصاف کی فراوانی کے نتیجے میں پولیس ملازمین تھانوں میں مکھیاں مارنے اور پب جی کھیل کر وقت گزارنے پر مجبور ہیں حرکت میں برکت کی خاطر اور خبروں میں "ان" رہنے کی غرض سے کسی انڈر پاس کے پانی میں ڈوبتی گاڑی میں پھنسی عورتوں کو بچانے والے کو پولیس کمانڈر اپنے دست مبارک سے جرات و بہادری کے سرٹیفیکیٹ عطاء کرتے ہوے ہیرو ڈیکلئیر کرتے ہیں (جبکہ انڈر پاس بنانے کے ذمہ داروں کی سنگین غلطی اور شہریوں کی زندگی سے یوں کھل کر کھیلنے والوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی ذمہ داری تو ظاہر ہے پولیس کا کام قطعاً نہیں) پولیس کمانڈر بھی ظاہر ہے ایک انسان ہے اور پیشہ ورانہ مجبوری کے پیش نظر پلٹ کر جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا اور خون کو بادل نخواستہ ہی سہی گرم رکھنے کی غرض سے کبھی کبھار کسی ایم این اے کیساتھ معرکہ آرائی اور پھر قبائلی طرز زندگی کی شاندار روایات کے عین مطابق "دشمنی کو دوستی میں بدلنے" کیلے سرکاری عہدے اور ادارے کی عزت و وقار کو مزید چار چاند لگانے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔

اس طرح کی شاندار صورت حال میں مبینہ طور پر ناصری والا میں کسی غریب خاندان کی چند گز زمین پر سڑک تعمیر کرانے کی غرض سے کسی ڈی ایس پی کی منت سماجت پر مذکورہ خاندان کو مقامی پولیس اگر چارپانچ دن تھانے میں بند رکھتی ہے تو روزنامہ" نوائے شرر" کے چیف ایڈیٹر رانا امجد اقبال کو پتہ نہیں اس میں "پولیس گردی" کہاں سے نظر آجاتی ہے؟ رانا صاحب آپ بیشک عصری صحافت کے سرخیل ہیں مگر یہ ظلم ہے زیادتی ہے کیونکہ جس پولیس نے جان پر کھیل کر آپ کو دن کے امن اور رات کے سکون جیسی نعمت سے نوازا ہے کیا آپ اس پر مبینہ طور پر محض سڑک کے ایک ٹکڑے کیلئے رکاوٹ بننے والے خاندان کو کچھ دن کیلئے تھانے میں بند رکھنے پر پولیس گردی کا "الزام" لگائیں گے؟

محترم پولیس کمانڈر آپ نے پولیس کے شاندار امیج کو نقصان اور شہداء کی روحوں کو ایذا پہنچانے پر رانا امجد اقبال کو صرف پانچ کروڑ روپے ہرجانے کا نوٹس دیکر بہت ہی نرم دلی و اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیا ہے آپ یقین کیجئے اگر آپ کی یہ وردی ہمارے جسم کی زینت ہوتی تو اب تک ہم رانا صاحب جیسے صحافی کو "پولیس گردی" سے "دہشت گردی" کا عملی مطلب خوب سمجھا چکے ہوتے مگر آپ کی نرم مزاجی و اعلیٰ ظرفی کے نتیجے میں صرف پانچ کروڑ کا نوٹس اگرچہ ایک مذاق ہے مگر ہم صحافی برادری اس کے باوجود آپ کو اس مذاق پر بھی بھرپور خراج تحسین پیش کرتے ہیں "ویلڈن ڈی پی او میانوالی"

Check Also

Ye Roshni Fareb Hai

By Farhat Abbas Shah