Siasi Workers Ya Jokers?
سیاسی ورکرز یا جوکرز؟
سیاسی پارٹیوں کے ورکرز جیالے ہوں متوالے یا یوتھئیے؟ درحقیقت، کسی بھی پارٹی کی اگر جان اور بنیاد ہوتے ہیں تو دوسری طرف بدقسمتی سے اپنے راہنماؤں کو جہیز میں ملنے والے مفت کے یہ "مزارعین" اپنی مخلصانہ یا دوسرےالفاظ میں بیوقوفانہ جدوجہد سے یہ ثابت بھی کرتے ہیں کہ پارٹی یا پارٹی کے سربراہ کیلئے اگر انکی جانی قربانی کی ضرورت پڑے تو وہ بے خطر اس آتش نمرود میں کود جانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ اس انتہائی بچگانہ سوچ یا طرز عمل کے پس پردہ آخر کیا محرکات و عوامل ہوسکتے ہیں کہ کسی سیاسی پارٹی کا وہ سربراہ جس کو اپنے اکثر و بیشتر ورکرز کی شکلیں تو کیا نام تک کا بھی پتہ نہیں ہوتا مگر یہ آخر کیا جادو ہے کہ اس سیاسی بادشاہ کیلئے ایسے ہی کئی جانثار کارکن اپنے سر دھڑ کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے؟
پتہ نہیں یہ حضرت ورکر صاحب، خودنمائی یا شاید جگ ہنسائی کی آخر وہ کس منزل کا مسافر ہوتا ہے جو عموماً اپنے ہاتھوں سے جس بت کو خود ہی تراش کر پہلے خدا بناتا ہے اقتدار کی نمک کان میں جاکر جب وہ نمک بنتا ہے تو بعد ازاں، وہ دہائیاں دینا بھی شروع کردیتا ہے؟
جیسے آجکل بیچارے یوتھیوں کا رونا دھونا دیکھتا ہوں تو سچی بات ہے ذاتی طور پر مجھے انکی سادہ دلی پر جہاں رونا آتا ہے وہاں سیاست کی سنگدلی اور بے رحمی پر کراہت بھی محسوس ہوتی ہے۔
میرے ایک پڑوسی ہیں خالد خان تری خیل میانوالی کی جانی پہچانی سماجی و سیاسی شخصیت ہیں۔ غریب سے گھرانے سے اٹھ کر اوائل عمری ہی میں محنت و مزدوری کرنے گھر سے نکل پڑے اللہ نے ہاتھ پکڑا اور خوشحالی نے جب انکی کسمپرسی کے دروازے پر دستک دی تو ہر نودولتئے کی طرح خالد خان کو بھی سیاست کا کیڑا تنگ کرنے لگا معلوم نہیں کتنی سیاسی پارٹیوں کے کس کس گھاٹ کا پانی پیا مگر جب میرے پڑوسی بنے تو اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر تھے۔ ہمارے محلہ میں انکی آمد کے بعد پارٹی کی چھوٹی موٹی تقریبات کیوجہ سے چہل پہل شروع ہوگئی مگر اس ضمن میں ایک بڑی تقریب ہرسال بینظیر بھٹو کی برسی پر وہ منعقد کرنے لگے، جس میں ظاہر ہے کہ زردہ، پلاؤ سمیت دیگر لوازمات کو "پھڑکاتے" ہوئے بینظیر بھٹو کی روح کی شانتی کیلئے بڑا بھرپور مظاہرہ کیا جاتا اور میڈیا کی صورت میں حضرت زرداری صاحب کی اشک شوئی اور صبرجمیل کے سازو سامان کا اہتمام بھی کیا جاتا۔ دو تین سال تک تو یہ رونقیں عروج پر رہیں مگر پھر اچانک خبر نہیں کیا ہوا کہ خالد صاحب نے یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ دیا اور ہمارے محلے کی گہما گہمی بھی اپنی موت آپ مر گئی جس کے نتیجے میں حسب سابق، ہماری گلیاں سنجھی ہوگئیں اور مرزا یار ایک بار پھر سے تن تنہاء دندنانے لگا۔
ایک دن خالد سے سرراہ ملاقات ہوئی اور اس اچانک کایا کلپ کا راز جاننے کی کوشش کی تو ایسا حیرت انگیز جواب سننے کو ملا کہ میں نے ان کا ماتھا چومنے کی اپنے طور پر بڑی سنجیدگی کیساتھ پوری کوشش کی مگر افسوس کہ وہ اسکو مذاق سمجھ کر پتلی گلی میں سے نکل گئے۔
خالد خان نے میرا سوال سنا تو ادھر ادھر دیکھ کر بولے "یار کیا بتاؤں۔؟ گزشتہ سال جب بی بی شہید کی برسی منائی تو رات کو خواب میں ابا حضور نظر آئے جو بڑے ناراض تھے قریب گیا تو غصے میں بولے کہ دور ہی رہو مجھ سے میں تیرا سگا باپ ہوں جبکہ تمہاری سگی ماں بھی اپنی جگہ یعنی ہم دونوں ہی تجھ سے اسی لئے ناراض ہیں کہ ہمیں مرنے کے بعد بھول کر یہ بینظیر بھٹو آخر تیری کیا لگتی ہے، جسکی ہر سال اتنی شاندار برسی مناتے ہو کہ اب تو عالم برزخ میں فرشتوں جیسی معصوم مخلوق بھی ہمیں طعنے دینے پر اتر آئی ہے؟ بس عصمت بھائی، کیا بتاؤں کہ مجھ پر کیا بیتی مگر شکر ہے کہ یہ محض ایک ایسا خواب تھا جو سچ مچ میری آنکھیں کھول گیا اور میں واقعی اب تک بڑا شرمسار ہوں کہ یہ میں کس چکر میں ایک سیاسی پارٹی اور اسکی شہید قائد کا، جوائی، بن کر آخر کس کو دھوکہ دیتا رہا ہوں؟"
قارئین کرام میں اکثر سوچتا ہوں کہ خالد خان کی آنکھیں تو اللہ تعالیٰ نے ایک خواب کی صورت میں کھول دی ہیں (اگرچہ، اس میں سماجی و معدی نقصان ہمارے محلے کا بھی ہوا) مگر یہ جو ہزاروں بلکہ لاکھوں جیالوں متوالوں اور یوتھئیوں پر مشتمل مخلوق سیاسی ورکرز کےنام پر، اپنے اپنے ایسے سیاسی خداؤں کیلئے اپنی جانیں ہاتھ کی ہتھیلیوں پر رکھ کر خود کش بمبار کی صورت میں سیاسی جہاد کی راہوں میں بے نامی کی موت ماری جارہی ہے جو ان بیچاروں کو جاننا تو دور کی بات، انہیں انکے نام تک کا پتہ نہیں ہوتا انکی آنکھیں آخر کب اور کون کھولے گا؟