Rescue 1122
ریسکیو 1122
گزشتہ سال میں شہر کے مضافات میں تھا۔ گرمی کے موسم نے تپتے تنور کا روپ دھار لیا اور چیل نے اپنا گھونسلہ چھوڑ دیا تھا۔ گھر سے اماں حضور کی طبعیت کی ناسازی کی اطلاع ملی۔ میں نے اللہ کا نام لیکر ریسکیو ڈبل ون ڈبل ٹو پر فون کیا اور بجائے گھر جانے کے سیدھا ہسپتال پہنچا۔ میری پریشانی اس وقت حیرت میں بدل گئی جب مجھ سے پہلے اماں کو انتہائی سرعت اور ایمرجنسی میں پورے طبی پروٹوکول کیساتھ ہسپتال پہنچادیا گیا تھا سچی بات ہے زندگی میں پہلی مرتبہ حکومت اور حکمرانوں کیلئے میرے دل میں محبت کا پہلا غنچہ کھلا، شائید اس لئے کہ ہمارا خون تو ہمیشہ نچوڑا جاتا رہا ہے جبکہ بدلے میں دیا کچھ بھی نہیں جاتا؟
گزشتہ دنوں ہمارے دوست نصیر شیراز خان کی والدہ ماجدہ کی شوگر رات گئے ڈاؤن ہوئی اور حالت غیر ہونے لگی تو دسمبر کی یخ بستہ رات میں نصیر شیراز کو بھی اس پریشان کن صورت حال میں جب ہسپتال تک پہنچنے کیلئے کوئی اور ذریعہ دکھائی نہ دیا تو بادل نخواستہ 1122 پر کال کردی میری طرح انکی پریشانی پر بھی خوشگوار حیرت غالب آنے لگی جب دس منٹ کے اندر ریسکیو 1122 کی ایمبولینس بمعہ مستعد و کوالیفائیڈ عملہ گھر پہنچ کر مریضہ کو ابتدائی طبی امداد دینے لگا۔ طبعیت سنبھلنے لگی تو روٹین کی کارروائی (یعنی ہسپتال شفٹ کرنے اور کاغذوں میں اندراج) ڈالنے کی بجائے وہ مسلسل ایک گھنٹہ تک۔ مریضہ کو اپنے ہی گھر پر زیر نگرانی رکھ کر بڑی دل جمعی کیساتھ اس وقت تک فرسٹ ایڈ دیتے رہے جب تک طبعیت مکمل بحال نہ ہوئی جس کے بعد انہوں نے پوچھا کہ تسلی کی خاطر مریضہ کو ہسپتال اگر اب لیکر جانا چاہتے ہیں تو ہم حاضر ہیں۔
بہت سے قارئین کو یہ سطور پڑھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ یقین نہیں آرہا ہوگا یا شاید وہ اس کو کسی ترقی یافتہ و مہذب ملک کا قصہ سمجھ رہے ہوں گے مگر الحمدللہ یہ ہمارے پیارے پاکستان اور پنجاب کے آخری سرے پر واقع پسماندہ و درماندہ آخری ضلع میانوالی کا سو فیصد سچا واقعہ ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا میں ہم بھی اپنی محنت و فرض شناسی میں ہرگز کسی سے کم نہیں۔ اگر کہیں کمی ہے تو ہمارے حکمرانوں کے وژن میں ہے جو "ون مین شو" پر مبنی پالیسیوں اور پھر سب سے بڑھ کر ان پر عمل درآمد کرنیوالے سرکاری کٹھ پتلی نما جوکرز جس طرح حکومت اور عوام کا تماشہ بناتے ہیں رہی سہی کسر اسی طرح نکال دیتے ہیں کہ کھاتے پیتے کچھ نہیں اور عوامی خزانے سے بارہ آنے کا گلاس توڑنے کی بجائے سارا خزانہ ہی اجاڑ دیتے ہیں؟
چودھری پرویز الہی کی وزارت اعلیٰ میں شروع کیا جانے والا ریسکیو 1122 کا یہ پراجیکٹ اتنا مؤثر اور عوام دوست ہے کہ آج تک کسی حکمران کو اس پر خط تنسیخ کھینچنے کی جرات نہیں ہوئی ورنہ ایک "ڈکٹیٹر کی نشانی" قرار دیکر ہمارے "بچہ جمہوری حکمرانوں" کیلئے اس کو ختم کردینا دائیں ہاتھ کا کھیل ہی ہوتا۔
نئے پاکستان میں جس طرح عوام کی حاکمیت کے خواب دکھائے گئے ہیں۔ اللہ کرے وہ سارے شرمندہ تعبیر ہوں مگر غریب و بے کس پاکستانیوں کو کم ازکم اچانک بیماری کی صورت میں فوری اور بروقت طبی امداد کیلئے ریسکیو 1122 جیسے ادارے کی مزید اپ ڈیٹ اور زیادہ فعالیت کیلئے مزید وسائل مختص کردینے میں کسی کنجوسی و بخل کا مظاہرہ ہرگز نہیں کرنا چاہئیے بالخصوص عملے میں شامل ان لوگوں کیلئے خصوصی ترقی و انعامات کا ایک فول پروف نظام تشکیل دینا چاہئیے جو اسکو کسی نوکری کی بجائے مشن اور انسانیت کی حقیقی خدمت سمجھ کر دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔