Police Gardi Aur Ashk Shoi
پولیس گردی اور اشک شوئی
میں نہیں جانتا کہ میانوالی پولیس نے کس بنیاد پر پیر شمس اقبال شاہ جیسے شریف النفس بندے کے گھر پر دھاوا بولا مگر میرا خیال ہے کہ شہریوں کی حفاظت پر مامور جو پولیس اہلکار پیر شمس اقبال شاہ جیسے شہری کی شرافت و متانت سے بے خبر اور لاعلم ہوں اور محض کسی بدطینت مخبر کی مخبری کے نتیجے میں اتنے بڑے بلنڈر کی مرتکب ہوجائیں ان کو کم ازکم پولیس کی وردی میں مزید چھپنے اور اس طرح کی مزید کارروائیوں کی سرکاری اجازت دینا جہاں پولیس جیسے ادارے کیساتھ ایک سنگین مذاق ہے وہاں عوام کے خون پسینے پر پلنے والوں کے ہاتھوں، عوام کا اپنی ہی توہین و ذلالت کو دعوٰت دینے کے مترادف ہے۔
مجھے یاد ہے گزشتہ سال مکڑوال میں میرا ایک رشتہ دار جو مقامی پولیس کے کچھ اہلکاروں کی مٹھی گرم کرنے کے بعد جوئے کا ایک چھوٹا سا اڈہ چلاتا تھا کسی وجہ اس کا ضمیر جاگا اور اس نے توبہ تائب ہونے کا ارادہ کرتے کرلیا۔
قارئین کرام اس معاشرے میں پیر شمس اقبال شاہ کی شرافت و متانت اور میرے باریش رشتہ دار کی زندگی میں آنیوالے "ٹرننگ پوانئٹ" کو اچار ڈالا جائے، جس کی پولیس کی وردی میں چھپی کالی بھیڑوں نے توبہ تائب ہونے والے ایک ذمہ دار شہری بننے کے راستے کے مسافر کو سلاخوں کے پیچھے محض اس لئے بند کردیا کہ اس کا "حصہ بقدر جثہ" بند کردیاگیا تھا؟
پیرشمس اقبال شاہ تو بڑے خوش نصیب ہیں کہ سماجی و سیاسی قوتوں کے علاوہ روحانی قوتیں بھی ہمیشہ کی طرح ان پر مہربان رہیں اور ایس ایچ او کی معطلی نے انکی عزت سادات کا بھرم رکھ لیا ورنہ ہمارے ہاں پولیس کے ہاتھوں شریف شہریوں کی آئے روز کیا درگت بنتی ہے؟ یہ کوئی ایسا گہرا راز قطعاً نہیں جس سے پورا پاکستان بے خبر ہو تاہم اس سے بڑا راز یہ ہے کہ ہماری حکومت اور حکمرانوں کو اپنی ناک کے نیچے یہ پولیس گردی کبھی نظر نہیں آتی جو واقعتاً تشویشناک امر ہے۔ جناب عمران خان نے وزیراعظم بننے سے پہلے جو بڑے بڑے خواب دکھائے تھے اور دعوے کئے تھے ان میں پولیس میں اصلاحات اور اسکو عوام کا حقیقی خادم و محافظ ادارہ بنانے کا نعرہ بھی تھا وزارت اعظمیٰ سنبھالنے کے بعد "ریاست مدینہ" بنانے کا دعوی گویا سونے پہ سہاگہ، اب یوں ثابت ہورہا ہے کہ تقریباً دوسال کے عرصے میں ان کے آبائی حلقہ میں پولیس اتنی بے لگام ہوگئی ہے کہ لوگوں کے درمیان پیار و محبت صلح و آشتی اور درس و تبلیغ کی روشنی بانٹنے والے پیرخانوں کی صدیوں پر محیط انسانیت کی خدمات کو کسی نامعتبر کی مخبری پر پل بھر میں اندھوں کی طرح روند دیا جاتا ہے اور پھر اس ظلم کی حکمت کم ازکم مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ کسی شریف و معزز شہری کی پگڑی یوں سربازار اچھال دینے کے بعد متعلقہ پولیس اہلکاروں کی معطلی اور لائن حاضری محض متاثرہ شہری کی اشک شوئی کے سواء اور کیا ہے کیونکہ ایک ادارے کے جواز اور وقار واعتبار کی بنیاد بننے والا جزا و سزا کا تصور ہماری پولیس میں آخر کہاں پایا جاتا ہے؟
اس بنیادی سوال کا جواب جب تک ہمیں عملی صورت میں نہیں مل جاتا میرا خیال ہے کہ ہمارے معاشرے کے پیر شمس اقبال شاہوں کی پگڑیاں اسی طرح اچھالی جاتی رہیں گی اور لائن حاضری ومعطلی کے ناٹک سے عوام کو اسی طرح بیوقوف بنایا جاتا رہے گا سیاست کے بازار میں کبھی "خادم پنجاب" تو کبھی "ریاست مدینہ" کے خوابوں کا چورن اسی طرح بھولے بھالے اور کم نظر عوام کو بیچا جاتا رہے گا۔