Mobile Phone Ki Dastak
موبائل فون کی دستک
یہ میری زندگی کی ایک ایسی عجیب و غریب اور بے نام سی دوپہر تھی جو میرے ذہن اور یادوں سے ہمیشہ کیلئے چپک کر رہ گئی ہے چھ سال پہلے، یہی سردی کا موسم تھا۔ کھانے سے فراغت کے بعد سنہری دھوپ میں اپنے گھر کی چھت پر نماز ظہر کی غرض سے اللہ کے حضور سربسجود تھا کہ موبائل فون بجنے لگا کسی بے نامی (Unknown) نمبر سے کال تھی سو، حسب روٹین موبائل کو سائلینٹ پر کیا اور بقیہ نماز کیلئے رجوع کیا۔ فری ہوا تو اسی نمبر سمیت دیگر ایک دو نمبرز سے بھی آٹھ دس کالیں دیکھ کر کال بیک کی اور یہ سن کر میرے پاؤں کے نیچے سے زمین سرکنے لگی جب مجھے بتایا گیا کہ اسکول سے واپسی پر میرے بچوں بیٹا + بیٹی اور بیوی (ٹیچر) کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے اور فوری طور پر ایمرجنسی پہنچنے کی تاکید کی گئی۔
میں اکیلا ہی بھاگم بھاگ ایمرجنسی پہنچا مگر میرے ساتھ عجب طرح کے ہزاروں خوف و خدشات اور منتشر سے خیالات کا ایک ہجوم بیکراں بھی تھا۔ ایمرجنسی میں اپنوں کو نہ پاکر میں نے دوبارہ اسی بےنامی فون نمبر پر کال کی تو پتہ چلا کہ بس پہنچنے ہی والے ہونگے تم انتظار کرو۔
کچھ دیر بعد تو میری آنکھوں میں جیسے قیامت سی برپا ہونے لگی جب ایک گاڑی سے تین چارپائیوں پر چادروں میں لپٹے تین بے حس و بغیر حرکت کے جسم اتارے جانے لگے ایک ایک چہرے (ڈیڈ باڈی) سے چادر ہٹانا اس قیامت خیز لمحے میں، میرے لئے گویا ~
ڈھا پئے نی غم دے پہاڑ وؤ۔ ( مجھ پہ غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے)۔
انسانی جبلت میں خون کی گردش کیطرح دوڑتی پھرتی خود غرضی میں پنہاں وہ طمانیت، میرے اندر بھی پھیلنے لگی جب تینوں چارپائیوں پر دھرے آخری چہرہ بھی اجنبی نکلا۔ اسی دوران اسی مذکورہ اجنبی فون نمبر پر کال کرنے ہی والا تھا کہ گھر سے کال آگئی دوسری طرف زوجہ کی آواز تھی جو (کچھ معمولی سی چوٹوں اور ریسکیو 1122 کی فرسٹ ایڈ کے بعد) بخیریت گھر پہنچنے کا بتانے لگی۔
یہ بپتا آپ کیلئے لکھنے کا مقصد اپنے ذاتی دکھوں کی تشہیر ہرگز نہیں بلکہ ہماری زندگی کے لازمی جزو بننے والے موبائل فون کے صحیح استعمال کے بارے میں یہ عاجزانہ مشورہ بلکہ منت وسماجت ہے کہ آپ کے فون پر جب بھی کوئی کال کرے خواہ معلوم ہو یا نہ معلوم، اللہ اسکی بات سن لیا کریں کیا خبر کوئی آپ ہی کا اپنا کسی ایسی مصیبت میں مبتلا ہو جس کو آپ کی بروقت مدد کی اشد ضرورت ہو؟
یوں بھی بظاہر یہ کفران نعمت اور کسی حد تک تکبر وغرور کا اظہار ہے کہ کوئی آپ کے دروازے پر دستک دے اور آپ اسکی بات سننے کی بجائے سرے سے دروازہ ہی نہ کھولیں اس لمحہ ذرا اپنے آپ کو دستک دینے والے کی جگہ پر رکھ کر سوچیں تو میرا خیال ہے کہ اگر انسانیت کی کوئی رمق بھی آپ کے اندر کہیں باقی ہے تو آج کے بعد یقیناً، آپ کا ردعمل مختلف اور مثبت ہونا چاہئے۔