Mianwali Ke Dehshat Gard
میانوالی کے "دہشت گرد"
پپلاں ضلع میانوالی کے معروف خاندان کلئیے خیل کے چشم و چراغ حاجی ذیشان خان اور سابق امیدوار صوبائی اسمبلی ملک شہزاد اقبال بھچر اگر اب تک کوالیفائیڈ "دہشت گرد" قرار نہیں پائے تو یہ خالصتاً انکی خوش قسمتی ہے یا پھر ہمارے وہ حکومتی ادارے یا انکے کارندے یقیناً اپنے وہ سارے گھوڑے بیچ کر خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں جن کے کان عموماً اس طرح کی ہر حرکت پر نہ صرف کھڑے ہوجاتے ہیں بلکہ اپنی زنبیل سے دہشت گردی کا بدنام زمانہ "ٹھپہ" نکالنے اور ہر ایرے غیرے اور نتھو خیرے پر لگاتے ہوئے دہشت گرد ڈیکلئیر کرنے میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگاتے۔
اخباری اطلاعات کیمطابق مذکورہ بالا دونوں "دہشت گرد" نوجوانوں نے مویشی منڈی پپلاں میں کیٹل فارم کمپنی کی طرف سے مجوزہ سہولیات کی عدم فراہمی کے باوجود ٹیکس وصولی کیخلاف نہ صرف احتجاج کیا بلکہ ٹیکس نہ دینے کا "اعلان بغاوت" کرتے ہوئے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں متنبہ کیا کہ جب تک مطلوبہ سہولیات مہیاء اور ایس اوپیز پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا وہ کسی کو اس ٹیکس کی صورت میں غنڈہ گردی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے پپلاں کے مویشی پال زمیندار وغیرہ اس لحاظ سے تو بڑے خوش قسمت ہیں کہ ان پر ڈھائے جانیوالے اس ظلم کیخلاف ایک نہیں پورے دو عدد "دہشت گرد" مدد کو پہنچے بلکہ "بغاوت" کے بہت سارے چھوٹے موٹے چراغ بھی لوگوں کے دلوں میں کسی حد تک روشن کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
ان چراغوں کی روشنی میں عوامی شعور کی بیداری یقیناً بادشاہت و آمریت اور اسٹیٹس کو، کیلئے کسی خطرے سے کم نہیں ہوتی اسی لئے ہمیشہ سے اس طرح کے گھٹن زدہ ماحول میں مذکورہ خطرہ پیدا کرنیوالے بڑے خطرناک قسم کے دہشت گرد ہی قرار پاتے آئے ہیں زیادہ دور جانےکی ضرورت نہیں اسی میانوالی میں کچھ عرصہ پہلے چشمہ کے مقام پر پیدا ہونیوالی بجلی کی مفت سپلائی اور رائلٹی کیلئے کچھ سرپھروں نے تحریک حقوق میانوالی کے نام سے ایک طوفان اٹھایا تھا مگر دہشت گردی کی زد میں آنے کے بعد آج وہ سارے بڑے ذمہ دار و پرامن اور محب الوطن شہری بن کر ملک وقوم کی خدمت میں گہری چپ کی چادر اوڑھے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔
اگر پپلاں کے متذکرہ "دہشت گردوں" کی منطق یا مؤقف کو تسلیم کیا جائے تو آنیوالے دنوں میں اس کے بڑے ہی خطرناک نتائج برآمد اورخوفناک اثرات مرتب ہونے کے اندیشوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اگر یہ سلسلہ اسی طرح چل نکلا تو انصاف کیلئے عدالتوں پر بھی سوال اٹھے گا پولیس تھانوں کے وجود کا جواز بھی ڈھونڈنا پڑے گا ہسپتالوں میں صحت کی مخدوش صورت حال پر بھی بات کرنا پڑے گی تعلیمی اداروں میں جو کچھ طلباء و طالبات اور تعلیم کیساتھ ہورہا ہے، اس کے سدباب کیلئے بھی ہاتھ پاؤں مارنا پڑیں گے مسجد و مدرسہ میں اسلام کے نام پر جو ظلم وزیادتی دین اسلام پر ہورہی ہے بازاروں میں جھوٹ، دھوکہ و فریب اور ملاوٹ کرنیوالوں کو بھی دیکھنا پڑے گا اور آخرکار یہ کھرا اقتدار کے ایوانوں تک جا پہنچے گا جہاں عوام کے نام پر عوام کو لوٹنے و برباد کرنیوالے جمہوری و غیر جمہوری حکمرانوں کے گریبانوں تک بات پہنچے گی جس کے نتیجے میں یقینی طور پر انتشار و افراتفری وانارکی پھیلی گی جس کے متحمل یہ ملک و قوم کبھی بھی اس لئے نہیں ہوسکتے کیونکہ بدقسمتی سے ہم پر ہمیشہ سے ہی نازک وقت کے بیانیہ کی تلوار لٹکتی چلی آرہی ہے سو، پپلاں کی مویشی منڈی میں "دہشت گردی" کی اس چنگاری کا بھانبڑ بننے سے پہلے ہی فوری طور پر نوٹس لیا جانا چاہئیے اور حاجی ذیشان خان اور ملک شہزاد اقبال بھچر کو " دہشت گرد" قرار دیکر مقدمہ دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں بھیج کر ان کو تحریک حقوق میانوالی کے ان "دہشت گردوں" اور عوام کو اسی طرح "ذمہ دار و پرامن" شہری بنانے کا بندوبست کرنا چاہئیے جو مبینہ طور پر آج ماڈل تھانہ سٹی کے تین ٹرینی تھانیداروں کا پیسہ بٹورنے کی غرض سے دو معصوم و بے گناہ نوجوانوں پر بہیمانہ ظلم و تشدد پر بھی خوف کی چادر اوڑھے زبانوں پر چپ کے تالے لگائے جیتے جاگتے "دہشت گرد" انسانوں کی بجائے بے زبان و معصوم بھیڑ بکریوں کا ریوڑھ بن کر رہ گئے ہیں۔