Tuesday, 30 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asmatgul Khattak/
  4. Imran Khan Ke Liye Akhri Moqa

Imran Khan Ke Liye Akhri Moqa

عمران خان کیلئےآخری موقع

وزیراعظم جناب عمران خان کی حب الوطنی دیانت امانت اخلاص محنت و کوشش اور پاکستانی قوم کو عالمی سطح پر عظمت و سطوت کا استعارہ بنانے کی لگن و جنون میں ہمیں ذاتی طور پر رتی برابر شک نہیں۔

تحریک انصاف کی دوسالہ کارکردگی سے مگر چند سوال ایسے ضرور پیدا ہوگئے ہیں جن کے جواب اگر بروقت تلاش نہ کئے گئے تو نہ صرف نئے پاکستان (ریاست مدینہ) کے خواب کو تعبیر سے ہمکنار کرنیکی کوششوں میں دن رات ایک کئے ہمارا ایک عظیم راہنما ضائع ہوجائے گا بلکہ سب سے بڑھ کر اس پاکستانی قوم کا مستقبل میں رائے دہندگی اور چناؤ جیسے جمہوری عمل پر بھی اعتبار و اعتماد ختم ہوجائے گا جو قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہر خواب فروش کو کندھے پر بیٹھاکر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتی رہی ہے۔ مگر بعد ازاں، ہر خواب کی کرچیوں سے اپنی ہی آنکھیں پھوڑ کر اور دل کی بھڑاس نکال کر کسی نئے خواب اور نئے خواب فروش کے نزول و امید میں ہرمرتبہ نئے سرے سے، آنکھیں بچھائے زخم پر زخم کھانے کی اب تو عادی ہوگئی ہے۔

جناب عمران خان اپنے خوابوں و خواہشوں کی جو پوٹلی لیکر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے آج دوسال ہوگئے ہیں ان کی تعبیر کے آثار مگر کہیں نظر نہیں آتے تو سوچنا چاہئیے کہ آخر وہ کونسی نادیدہ زنجیریں ہیں جنہوں نے عمران خان جیسے نڈر اور آزادی پسند لیڈر کو اقتدار کی بوتل میں جن بناکر قید کر دیا ہے؟

حکومتی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد کیا وہ اپنی مرضی کی ٹیم منتخب کرنے میں غلطی کرگئے یا "حصہ بقدر جثہ" کے ہاتھوں مارے جارہے ہیں؟

اس سوال کا جواب بہت اہم و ضروری ہے کیونکہ آج یہی بات زبان ذدعام ہے کہ لیڈر تو ٹھیک ہے مگر اسکی ٹیم ناکام و ناکارہ ہے سو، اس ٹیم کا انتخاب اگر لیڈر کا خالصتاً ذاتی فعل ہے تو پھر اسکی ناکامی و نامرادی سے حضرت لیڈر صاحب کو مبرا کیسے قرار دیاجاسکتا ہے؟

تاہم صورت حال برعکس ہے تو اتنی خوفناک بلکہ خطرناک "زباں بندی" اور وہ بھی عمران خان جیسے اسٹیٹ فارورڈ (منہ پھٹ) کھلاڑی کی؟ سچی بات ہے

اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا؟

عمران خان نے جن خوابوں دعؤوں اور نعروں کی بنیاد پر منزل اقتدار حاصل کی آخر ایسی کیا مجبوریاں پاؤں کی بیڑیاں بن گئیں ہیں جن کے نتیجے میں محض دوسال کے دوران ہی ہر خواب دعوی نعرہ قدم اور ہر موڑ "یوٹرن" بن کر ان کیلئے خجالت و شرمندگی کا طوق بنتا جارہا ہے؟

دوتہائی اکثریت والی البتہ واحد ایسی مجبوری اور کمزوری ہے جس کا ہر پاکستانی کو علم ہے تاہم ہر بڑے انسان بالخصوص عظیم راہنماؤں نے ہمیشہ سے اسی نوع کی کمزوریوں کو طاقت بناکر ملک اور قوموں کو بحرانوں سے نکالا ہے۔ میرا خیال ہے کہ تحریک انصاف کی دوسالہ مایوس کن کارکردگی کے بعد آج عمران خان کیلئے یہ سب سے بہترین وقت ہے کہ وہ اپنے پاؤں کی ساری زنجیریں توڑ دیں اور قوم کے سامنے وہ سچ بیان کردیں جس کی وجہ سے عوامی خواہشات و توقعات کے اس عظیم جن کو حکومتی بوتل میں اس طرح مقید کردیا گیا ھے کہ دم دم دیدم دم نہ کشیدم کی زندہ تصویر بن کر رہ گیا ہے۔

ظاہر ہے اتنے بڑے سچ کی قیمت بھی عمران خان کو چکانا پڑے گی جو زیادہ سے زیادہ حکومت کے خاتمہ کی صورت میں ہوسکتی ہے مگر جس کے بعد مجھے یقین ہے کہ یہ قوم ایک بار پھر اس عظیم کھلاڑی کی پشت پر کھڑی ہوگی اور ان مجبوریوں و کمزوریوں کی وہ ساری دیدہ ونادیدہ زنجیریں توڑ پھینک دے گی جن کی قید میں آج تک یہ قوم اور اس کے حقیقی راہنماء جمہوریت کے نام پر ایسا بھیانک کھیل کھیلتے چلے آرہے ہیں جس کی نشاندہی اب تو ہمارے شعراء حضرات بھی کرنے لگے ہیں

شہر کو برباد کر کے رکھ دیا اس نے منیر

شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا۔

اب یہ فیصلہ بہرحال عمران خان نے ہی کرنا ہے کہ وہ اس کھیل میں کہاں اور کس کے ساتھ کھڑے ہیں؟ ایک روایتی کٹھ پتلی کی طرح تاریخ کے کوڑے دان میں دیگر بہت سے حکمرانوں کی طرح "ڈسپوز آف" ہونا ہے یا پاکستانی قوم کا نجات دہندہ بن کر تاریخ میں ہمیشہ کیلئے زندہ رہنا ہے؟

Check Also

Melay Ki Kahani

By Rauf Klasra