Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asmatgul Khattak
  4. Corona Ki Talash (7)

Corona Ki Talash (7)

کورونا کی تلاش (7)

تھلوچڑ مچھروں کیساتھ پانی پت کی چوتھی اور شاید آخری جنگ جو ہم للیاں (LILYAN) کے کھلے میدان میں گزشتہ رات لڑ کر آئے تھے احمد پور سیال کی رات اس کے مقابلے میں بڑی پرسکون اور ہر طرح کے "کت مچھروں" سے یکسر پاک تھی سو، یہاں ہم سب کو اپنے اکلوتے اور ان دیکھے دشمن یعنی کرورنا کو تلاش کرنیکی کی اسٹرٹیجی پر پوری توجہ و یکسوئی کا بھرپور موقع ملا مگر شفاءاللہ خان اور عبدالقیوم خان کی "مارکا آرائی" کسی طور کوئی چین لیتی تو اپنے مطلوبہ ٹارگٹ پر ہم سوچ بچار بھی کرتے ایک لحاظ سے تو یہ اچھا بھی ہوا کیونکہ صبح جب حضرت گوگل کی آنکھ کھلی تو وہ اپنے ان "خفیہ ذرائع" پر بڑا برہم دکھائی دے رہا تھا جنہوں نے دریائے چناب کے کنارے آباد اسی شہر کے مضافات میں کورونا کی موجودگی کی خفیہ رپورٹ دی تھی اس کی اکتاہٹ اور جھنجھلاہٹ بتارہی تھی کہ غالباً اس کو اپنے کسی خواب میں مذکورہ رپورٹ کے غلط ہونے کا کوئی واضح اشارہ مل گیا تھا۔

میں نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہمارے امیر قافلہ کو کورونا کیخلاف، متعلقہ رپورٹ پر باقاعدہ آپریشن سے قبل ہی اس کے غلط ہونے کا اشارہ خواب میں مل گیا تھا ورنہ ہمارے پولیس جیسے کسی ادارے کا رنگ اگر خدانخواستہ حضرت گوگل پر بھی چڑھا ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ کورونا ملتا یا نہ ملتا مگر اب تک وہ دریائے چناب انسانی لہو سے سرخ ہوچکا ہوتا، جس کا پانی ہیر اور رانجھے کے عظیم عشق کے ملکوتی گیت آج بھی گارہا ہے۔

تاہم لطیفہ اس سانحہ پر حسب روایت (یعنی سانپ نکل جانے کے بعد لاٹھی پیٹنا) یہ ہوتا کہ عوامی غم و غصہ کی آگ پر پانی ڈالنے کی غرض سے ایک ڈنگ ٹپاؤ حکومتی "جے آئی ٹی" سر جوڑ کر یہی کھوج لگاتی پھرتی کہ اتنے سارے بندے پھڑکانے کے باوجود آخر کورونا شریف کس طرح اور کہاں فرار ہوگیا؟

ناشتے کے بعد امیرقافلہ شفاءاللہ خان کو خلاف توقع چپ کا دورہ پڑگیا اپنے سر کو اپنے دامن کی طرف اتنا جھکا لیا جیسے گریبان کے تنور میں اپنے من کو جھونک دینے کی کوشش کررہا ہو کچھ دیر کیلئے گویا وہ باقاعدہ مراقبے میں چلا گیا اچانک ہی کسی ڈراؤنے خواب سے جیسے کوئی ہڑابڑا کر اٹھ بیٹھے سر کو جھٹک کر با آواز بلند فرمان جاری کرتے ہوئے کہا

"چلو نکلو"

ہم سب ہکا بکا رہ گئے اور اگلا پڑاؤ پوچھا

"سلطان العارفین سلطان باہو کا دربار ہمارا اگلا پڑاؤ ھے " اتنا کہا اور ھم سب حضرت عیسٰی علیہ السلام کی بھیڑوں کی طرح اس کے پیچھے چل پڑے۔ راستے میں اس سے میں نے پوچھا بھی کہ کورونا کا کوئی کلیو (CLUE ) ملا ہے اس دربار پر؟ وہ چپ رہا پتہ نہیں کیوں؟

پتہ نہیں ناشتے سے پہلے تو وہ بالکل ہماری طرح کا ایک نارمل سا بندہ تھا یہ اچانک ناشتے میں قیوم خان نے بطور خاص اس کیلئے کیا "رلا ملا" دیا کہ وہ اچھاخاصا "صوفی" دکھائی دینے لگا؟

"شفاءﷲ بھائی شوگر نے کوئی گڑبڑ تو نہیں کردی؟" میں نے دوسرا سوال داغ دیا بڑی مشکل سے دونوں آنکھیں بیک وقت کھول دیں (حالانکہ عموماً وہ ایک ہی آنکھ سے کام چلا لیتا ہے) اورجواب دیا "دوچار ڈیہاڑاں توں میں تاں شوگر کچھی وی نی" (دوچار دنوں سے میں نے تو شوگر چیک ہی نہیں کرائی)۔ ہم سب کی پریشانی اس لئے بڑھ گئی کہ جب امیر کی اچانک یہ حالت ہوگئی ھے تو اب اس قافلے کا کیا بنے گا؟

تاہم میں نے دل ہی دل میں اپنے آپ کو یہ سوچ کر تسلی دی کہ گزشتہ تہتر سال سے جب ہمارا عظیم ملک اسی طرح کے "عظیم قائدین"کی قیادت میں اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے اپنی منزل مراد کیطرف بخیریت وعافیت رواں دواں ھے تو ان کے باوصف ہمارا امیر قافلہ تو ماشاءاللہ اب بھی یعنی اس حالت میں بھی قافلے والوں کے نہ صرف سوال سمجھ رہا ہے بلکہ "ٹو دی پوائنٹ " جواب بھی دینے کی پوزیشن میں ھے جبکہ عوام کے نام پر، عوام کے کندھوں پر بیٹھ کر عوام کیلئے جو بھی ہمارا لیڈر اقتدار کی نمک کان میں گیا وہ نمک ہی بن گیا اس کی آنکھیں کان سوجھ بوجھ اور حواسہ خمسہ غرض، سب کچھ ہوتا ہے مگر درحقیقت کچھ بھی نہیں ہوتا؟ (جاری ہے)

Check Also

Technology Bhagwan Hai Sahib

By Mubashir Ali Zaidi