Thursday, 18 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asmatgul Khattak/
  4. Corona Ki Talash (6)

Corona Ki Talash (6)

کورونا کی تلاش (6)

شفاءاللہ خان نے ایک زیرک لیڈر (سیاستدان) کی طرح مذکورہ " کورونا" پر جب ہماری طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات اور نقطہ چینی میں اجتماعی گرماہٹ دیکھی تو اکیسویں صدی میں پاکستان کو مدینہ کی جدید ریاست بنانے والے ہمارے عظیم لیڈر جناب عمران خان کی طرح حالات کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے فوراً یوٹرن لیکر کہا "میں تاں ایہاء ڈیکھنڑا چاہنداں ہم کہ تساں کتنے پانڑی اچ ہاؤ؟" (میں صرف یہی دیکھنا چاہتا تھا کہ تم لوگ کتنے پانی میں ہو؟) تاہم ایک طویل گفت و شنید کے بعد یہ طے پایا کہ یہ کورونا نہیں بلکہ "خرگین" شریف ہے اس بیہودہ سے نام کی وجہ تسمیہ اسکے تاریخی پس منظر اور مزید بحث و مباحثہ میں ھم زیادہ دور تک نہیں گئے کیونکہ اس میں چند اعلیٰ حکومتی پردہ نشینوں کے نام بھی آنے کے بڑے واضح خدشات و امکانات پیدا ہوگئے تھے جس سے حالات بگڑنے کا اندیشہ تھا سو، کورونائی وباء جیسی مخدوش صورت حال میں مزید کسی افراتفری کے پیش نظر "خرگین شریف" پر مٹی ڈالتے ہوئے ہم نے اگلے پڑاؤ کی تیاری شروع کردی۔

چوک منڈا کے اس ریگزار پر الوداعی نظر ڈالتے ہوئے ہم نے احمدپور سیال کیلئے اڑان بھری کیونکہ انتہائی "کانفیڈینشل سیکرٹ رپورٹ" میں ہمارے امیرقافلہ شفاءاللہ خان کو اطلاع ملی تھی کہ دریائے چناب کے کنارے اسی بستی کے ارد گرد کہیں کورونا کو بکل مارے رات کے پچھلے پہر، گائے اور بھینسوں کے کسی باڑے میں دیکھا گیا ہے سو، ہم، عصر تک اپنے ھم سفر فاروق خان کے لنگوٹئیے دوستوں جیسے بھائی قیوم خان نیازی زادے خیل کے گھر لینڈ کرگئے جہاں زادے خیل قبیلہ کی روایتی کمزوری یعنی حلوہ شریف اپنی تمام تر حشر سامانیوں کیساتھ اسقبال کیلئے غضبناک خوشبو بکھیرے ہمارے غیض و غصب کو دعوت مبارزت دے رہا تھا ہمارے لیڈر نے شوگر کا مریض ہونے کے باوجود اپنے قبیلے کا کفارہ ادا کیا اور اس سوغات کیساتھ پورا پورا انصاف کرتے ہوئے اپنی "زادے خیلی" کا حق ادا کردیا البتہ چائے کیلئے اس نے "پھکی" ہونے کی فرمائش کرتے ہوئے میرا خیال ہے کہیں نہ کہیں اس میں ڈنڈی ضرور ماری۔

دریائے چناب کے کنارے شام اترنے والی تھی جب ہم نے کورونا کا کھرا ڈھونڈ نکالنے کی غرض سے، عرصہ دراز سے میانوالی سے ہجرت کرنے اور احمد پورسیال کو "منی میانوالی" بنانیوالے عبدالقیوم نیازی زادے خیل اور اس کی نوجوان نسل کو بھی اپنی مدد کیلئے ساتھ لے لیا اور گائے و بھینسوں کے لاتعداد باڑے ھم نے اس دوران چھان مارے اسی طرح کے ایک "ڈیرے پلس باڑے" میں جب نماز مغرب کیلئے میں نیت کا ارادہ کرنے لگا تو قیوم نیازی نے قصر کی بجائے پوری نماز ادا کرنے کی تاکید کی میں بڑا کنفیوژڈ ہوا کہ دنیا بھر میں جس طرح ہر جگہ آج اپنے اپنے اسلام کی الگ الگ ڈیڑھ اینٹ کی مساجد بنائی جارہی ہیں خدانخواستہ یہ وباء یہاں اس شدت کیساتھ تو نہیں پہنچ گئی ہے کہ ایک میزبان اب اپنے مہمان پر زور ذبردستی اپنا "اسلام " نافذ کرنا چاہتا ہے؟

اسی شش و پنج میں غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں نے اسکی وجہ پوچھی تو میرے چودہ طبق روشن ہوگئے جب عبدالقیوم خان نے کہا کہ میں تم لوگوں کو چودہ دن کے بعد ہی کہیں جانے دونگا اس لئے اپنی قصر نمازوں کی ذمہ داری بعد ازاں، مجھ پر نہ ڈال دینا۔۔

اس وضاحت کے بعد پہلے تو میں یہی سمجھا کہ وہ کسی شک کی بناء پر ہمیں پورے چودہ دن کیلئے قرنطینہ کرنے کے چکر میں ھے مگر رات گئے جب اسکا بے تکلفانہ اور " گپوڑی" مزاج ہم پر کھلا تو ماجرا یہ نکلا کہ وہ "گپ شڑپ" کی دنیا میں ھمارے شفاءاللہ خان گوگل کا بھی استاد ہے سرائیکی زبان میں "مارکا مارنے" کے جو عادی ہیں اگر ان "مارکی" لوگوں کو کچھ دن کیلئے اس ٹھرک کا کوئی موقع کہیں نہ ملے تو وہ "پوڈریوں" کی طرح سڑکوں پر مارے مارے پھرتے ہیں اور میری لئے یہ بڑی تشویشناک بات ہے کہ جب سے حضرت گوگل کی "مارکا آرائی" کا میں شکار (ایڈکٹ) ہواہوں کبھی کبھار تو واقعی کچھ دن تک اس کا موقع نہ ملے تو میرابھی سڑکوں پر "جہاز" کی طرح اڑنے اور لینڈ کرنے کو دل مچلنے لگتا ہے۔۔ (جاری ہے)

Check Also

Sarmaya Minton Se Nahi Aata

By Javed Chaudhry