Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asmatgul Khattak
  4. Corona Ki Talash (4)

Corona Ki Talash (4)

کورونا کی تلاش (4)

چچا غالب کی زبان میں ایک تو سارے دن کی بھوک سے میں اتنا خوگر ہوا کہ سرے سے بھوک ہی مٹ گئی رہی سہی کسر گزشتہ ایک گھنٹہ سے کتے کی اچانک پردہ پوشی نے پوری کردی تھی شک مٹانے کی غرض سے ایک دو بار حاجی صاحب سے میں نے بہانے بہانے سے کچھ دیر کیلئے چہل قدمی کی اجازت لیتے ہوئے پوچھا بھی کہ خدانخواستہ آپ کا "مودی صاحب" ( واضح رہے کہ حاجی حمید جذبہءحب الوطنی اور بغض دشمنی میں کتے کو مودی کہہ کر پکارتے رہے دوسرا، حاجی کے غصے بلکہ غیض وغضب کا اندازہ بھی ہمیں اچھی طرح ہے سو، ایک خدشہ یہ بھی تھا کہ ہماری صورت میں اتنے عظیم پاکستانیوں اور مومنین کو اکھٹا دیکھ کر جذبہ حب الوطنی کے ہاتھوں مجبور ہوکر خدانخواستہ انہوں نے ہمارے پیٹ کا جہنم بھرنے کیلئے اپنے مودی کو واصل جہنم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہو) ڈسٹرب تو نہیں کرے گا؟

حاجی صاحب نے ہربار مودی کی مردم شناسی اور سمجھ داری کے قصے تو سنائے مگر یہ نہ بتایا کہ اس وقت موصوف زندہ بھی ہے یا اسکی چتا کو آگ پر؟

واک کے بہانے میں نے عمران چٹ وٹیہ کو یہ سوچ کر ساتھ لیا کہ سبز چنے کی ہری بھری فصل سے چاند کی چودہویں رات میں آسمان سے اترتی ملکوتی چاندنی میں کہیں پیٹ پوجا کرلیں گے ابھی ہم چند قدم ہی چل کر ایک ٹیلے کی اوٹ لینے والے تھے کہ "مودی صاحب" ہمارے تعاقب میں ہانکتے پھانکتے اور اونچے سروں میں بھونکتے زندہ سلامت پہنچ گیا جس کے پیچھے حاجی صاحب بھی "نہ مودی نہ مودی ایہہ اپنڑے میزمانڑ ہن "( نہ مودی نہ، یہ ہمارے مہمان ہیں) چلاتے ہوئے ہمیں کھانا کھانے کیلئے بلانے پہنچ گئے مودی صاحب، حاجی صاحب کا نمک خوار ہونے کے ناطے انکی آواز سنتے ہی ہمارے پاؤں میں لوٹنے پوٹنے لگا جبکہ اس سے قبل اس کی غضبناک باڈی لینگونج (بدن بولی) اس کے خطرناک ارادوں کی واضح چغلی کھارہی تھی۔

چند سیکنڈز پر محیط اس منظر نے مجھے اپنی ہی نظروں میں زمین کی پاتال میں گرادیا شاید اس لئے کہ انسان کے روپ میں اللہ کے اس " نمک خوار" نے اپنےگریبان میں جھانک کر دیکھا تو اپنی نمک حرامی پر سوائے شرمندگی و ندامت کے اور کچھ نظر نہ آیا ۔۔

ﺟﺲ ﺗﻦ ﺍﻧﺪﺭ ﻋﺸﻖ ﻧﮧ ﺭﭼﯿﺎ

ﮐُﺘﮯ ﺍﺱ ﺗﻮﮞ ﭼﻨﮕﮯ

ﻣﺎﻟﮏ ﺩﮮ ﮔﮭﺮ ﺭﺍﮐﮭﯽ ﮐﺮﺩﮮ

ﺻﺎﺑﺮ ﺑُﮭﮑﮯ ننگے

حد نظر تک ٹیلوں اور سنہری گندم وچنے کی لہلاتی فصل کو اپنے حسن و نور میں نہلاتی نقرئی چاندنی اور تھل کی قیامت خیز خاموشی میں فطرت کی سرگوشیاں جو روح کی پاتال تک مجھے جھنجھوڑ رہی تھیں اف کیا زبردست رات تھی اہل دل اور تخلیق کاروں کیلئے ایسی راتوں میں تو چکور بھی مست الست اڑانیں بھر کر اپنے محبوب کی آرزو میں دور کہیں آسمانوں کا ہمیشہ کیلئے رزق بن جاتے ہیں اور سمندر جو ہیبت و عظمت کے باوجود وقار ومتانت کا عظیم استعارہ ہیں وہ بھی اس حسن کی تاب نہیں لاتے اور ان کا سینہ اندر کے بھانبڑ سے شق ہو جاتا ہے شاید اسی لئے میرا خیال تھا یہ رات ہم سب دوستوں کیلئے اپنے کئی سربستہ آسمانی راز اگل دے گی مگر عجیب بات یہ ہوئی کہ خلاف توقع، جلد ہی مٹی کے مادھو جیسے میرے سارے دوست ایک ایک کر کے یوں سو گئے جیسے وہ اپنے گھروں میں صدیوں سے جاگتے آ رہے ہوں۔

میں نے کئی بار ارادہ کیا کہ اٹھ کر اکیلا ہی اس تھل + صحرا میں دھمال ڈالتی ننگی چاندنی کیساتھ رقص کروں اور وہ تمام باتیں جو آج تک میں اپنے آپ کیساتھ بھی کبھی شئیر نہیں کر سکا دنیا سے بے نیاز ہوکر سرگوشیوں کی صورت میں اسکی جھولی میں اپنا سر رکھ کر سب کچھ بلاجھجک کہہ دوں کچھ اسکی بھی سنوں اور یوں آخری پہر جب وہ رخصت ہونے لگے تو اسی کیساتھ ہی ان کیھتوں اور کھلیانوں میں کہیں ہمیشہ کیلئے گم ہوکر کبھی واپس نہ آؤں۔

حفظ ماتقدم کے طور پر سرشام ہی حاجی حمیداللہ سے میں نے یہاں سانپوں کی موجودگی کے بارے میں استفسار کیا حاجی صاحب کا جواب نفی میں سن کر مجھے پتہ نہیں کیوں اعتبار نہیں آیا شاید اس لئے کہ حضرت انسان کے قدم مبارک جہاں بھی پڑے حسد و لالچ طمع و مفاد تجاوز و قبضہ اور معلوم نہیں کتنی اقسام کے سانپ اور سنپولئے خود رؤ گھاس اور جھاڑ جھنکار کی طرح اگنے لگے۔

حاجی حمیدﷲ اس لحاظ سے سردست تو بڑا خوش نصیب ہے کہ دور دور تک ابھی تک اس کا کوئی ایسا "ہم سایہ، ماں جایا" نہیں جو ان ریگزاروں اور ٹیلوں میں کہیں کسی جگہ زمین پر لکیر کھینچ کر تفریق و تقسیم جیسی وباء کا سبب بن سکے بیشک، کورونا لمحہ موجود کی سب سے خطرناک وباء ھے مگر انسانوں کے درمیان تفریق و تقسیم کی وہ وبائیں بھی انسانیت کیلئے کسی زہرقاتل سے کم تو نہیں ہیں جن کے متعلق مامائے تھل فاروق روکھڑی نے کہا تھا ~

سنڑو میں سنڑانواں تہانوں واقعہ اے اج دا

بھائی کولوں بھائی اتھے روٹی پیا کج دا

اس کولوں وڈا قہر ویکھنڑا کی ہور اے؟

(سنو میں سناؤں تمہیں یہ آج کا معمول ہے بھائی، بھائی سے روٹی چھپا رہا ہے اس سے بھی بڑا کوئی اور قہر دیکھنا ہے؟)

(جاری ہے)

Check Also

Heera Mandi Se Cafe Khano Tak Ka Safar

By Anjum Kazmi