Thursday, 16 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asmatgul Khattak
  4. Corona Ki Talash (2)

Corona Ki Talash (2)

کورونا کی تلاش (2)

چیک پوسٹ پر دو گاڑیوں پر مشتمل اس قافلے کی پہلی گاڑی کو جانے کی فوراً اجازت اس لئے دے دی گئی کیونکہ اس میں صرف ایک ڈرائیور اور ایک ہی مسافر تھا جبکہ دوسری یعنی ہماری گاڑی (جس میں پورے تین عدد بندے اور ضلع میانوالی کا ایک عدد پورا گوگل سرچ انجن تھا) تک پولیس اہلکار کی آمد سے قبل یہی حضرت گوگل یعنی شفاءاللہ خان خود ہی گاڑی سے اتر کر پولیس والوں کے پاس جا پہنچا اور دومنٹ بعد ہی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا "چلو ایک آدھ فرلانگ واپس جاکر پولیس کے بتائے گئے "متبادل راستے" کے ذریعہ آگے جانا پڑے گا"

کورونا کیخلاف ہم سب سرفروشانہ جذبات سے لبریز، اس لمحہ پولیس کیساتھ دو دو ہاتھ کرنے (یعنی منت سماجت) کا ارادہ باندھے گاڑی سے اترنے لگے مگر قافلے کے امیر نے گاڑی کو واپس موڑنے کا فرمان جاری کیا اور یوں ہم اپنے عظیم قائد کی شاندار جنگی حکمت عملی پر سوچے سمجھے بغیر سردست کورونا کی بجائے مذکورہ بائی پاس کی تلاش میں اپنے دائیں بائیں بلکہ اوپر نیچے بھی نظریں دوڑانے لگے

پولیس کو اس" متبادلانہ تکلف" کی ضرورت بھی نہ پڑتی اگر اس بیچاری فورس کو کچھ فاصلے سے رینجرز والے واچ نہ کررہے ہوتے، سو ہم نے بھی اس جگاڑ کی آڑ میں اپنی محافظ پولیس کیساتھ پورا پورا تعاون کیا

گاڑی آہستہ آہستہ سعید اخترخان چلا رہے تھے میرے ذہن میں اچانک پتہ نہیں کہاں سے ایک سوال اڑتا ہوا آیا اور میں نے شفاءاللہ خان سے پوچھا پولیس والوں سے آپ نے کیا کہا جس کے جواب میں ہمیں کوئی مرغا وغیرہ بنانے یا کسی طرح کی کوئی اور سزا دینے کی بجائے روایتی پاکستانی جگاڑ لگاتے ہوئے پولیس نے خود ہی بائی پاس کی راہ دکھائی؟

پاکستان میں یہی تو موج مستیاں ہیں ایک پولیس ہی کیا اس ملک کا تقریباً ہر ادارہ "آپے ملاء، آپے قاضی، آپے شرع نبیڑے" کی جیتی جاگتی تصویر بن چکا ہے۔ جیسے کسی کی دل آذاری کی بجائے صرف اور صرف مثال کے طور پر یہی دیکھ لیں کہ ذہنی و مالی طور پر ہر غریب پاکستانی بخوبی جانتا ہے کہ واپڈا والے پہلے خود میٹر ٹمپرنگ + کنڈی و دیگر کرپشن کے ذرائع وغیرہ کی راہ دکھاتے ہیں اور پھر خود ہی چھاپہ ڈلوا کر رند کے رند رہ کر جنت بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے

خیر، کورونا کی تلاش کے اس سفر میں اس طرح کے غیر سنجیدہ خیالات سفر کو بوجھل بنانے کی احمقانہ کوشش کے سواء اور کچھ نہیں سو، قارئین محترم جو سوال میں نے جناب شفاءﷲ خان کی طرف اچھالا تھا اس کا جواب سننے (پڑھنے) کیلئے آپ کو انتہائی سنجیدگی اختیار کرنا پڑے گی ورنہ آپ کو اگر مزہ نہ آیا تو اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ آپ بذات خود ہی ہوں گے، یاد رہے کہ ہماری منزل مقصود پاک آرمی کی اڑھائی تین ہزار کنال لیز پر لی گئی وہ بے آب و گیاہ زمین تھی جس کو ہمارے مشترکہ دوست حاجی حمیدﷲ خان نے اپنے خون پسینہ سے سینچ کر گل و گلزار بنا دیا ہے۔

شفاءﷲ خان نے میرے سوال پر حسب معمول اپنے چہرے پر مخصوص سنجیدگی کا خول چڑھاکر کنگھورا مارا اور کہا "پلس نوں اکھنڑا کیہ ہئی سچی گل ڈسی ام کہ اپنڑے سجنڑ حمیدﷲ دے منہ تے اپڑنا اے" (پولیس سے کہنا کیا تھا، سچی بات انکو بتادی ہے کہ دوست کے جنازے پر پہنچنا ہے)

چوک منڈا سے کوئی چودہ پندرہ کلومیٹر آگے ایم ایم روڈ سے بائیں جانب ہم مڑے تو ریت کے ٹیلے خود رو گھاس پوس جنگلی کیکر وجھاڑیاں و پودے اور اکا دکا اڑتے پرندوں کی موجودگی میں گویا زمیں وآسمان سمیت سارا منظر ہی بدل گیا گاڑی کے باہر فطرت، جس قدر اپنی اصلی و حقیقی روپ میں دھمال ڈال رہی تھی اندر ائیرکنڈیشنر کی مصنوعی ٹھنڈی ہوا + سگریٹ کا اذیت ناک دھواں اور جدید موسیقی کے نام پر نفسیاتی و روحانی تشدد ہم سب کو اتنا ہی محض "سماجی جانور" ثابت کرنے کیلئے کافی تھا

فطرت سے ہم آہنگ تو میں نہیں کہہ سکتا البتہ فطرت کا "پڑوسی" شفاءﷲ خان اس وقت دوسری گاڑی کی بجائے ہمارے درمیان موجود تھا عمران خان چٹ وٹیہ کا "چٹا دل" (سادہ دل) اور سعید اختر خان کی رفاقت و متانت اگرچہ فطرت اور میرے درمیان پل کا کام کررہی تھی مگر شفاءﷲ کی ہمرکابی گویا اس پل کے پلرز جیسا کردار ادا کرتی رہی وگرنہ اس بے آب وگیاہ ٹیلے ٹبوں کا یہ سفر مجھے یقیناً ہوا میں معلق پل پر کرنا پڑتا۔ پولیس چیک پوسٹ پر حاجی حمیدﷲ خان کے "منہ تے اپڑن" والی بات ایسا ہرگز نہیں کہ ہم سب "پی" گئے ہوں۔

ہوا یوں کہ متبادل راستے پر جب گاڑی نے دوڑنا شروع کیا اور حضرت گوگل صاحب کی اس "کوئیک رسپانس اسٹرٹیجی" پر ہمارے شیشہ توڑ قہقہے بھی کچھ ٹھنڈے پڑگئے تو ہم نے اجتماعی احتجاجی قرارداد پیش کرتے ہوئے جیتے جاگتے حاجی حمید کیساتھ اس زیادتی کے ازالے کا فوری مطالبہ کردیا شفاءﷲ خان نے خلاف عادت اس مرتبہ دو کنگھورے مارے اور فرمایا "اکاء جو کملے ہاؤ ہکا کوئی مرنڑ آلے دا منہ ہوندا اے؟

جیندا دے منہ تے اپڑن دا اپڑاں مزا اے جیڑا ہنڑے اساں گھنڑ آلے ہاں " ( بالکل ہی پاگل ہو تم چہرہ صرف مرنیوالے ہی کا ہوتا ہے؟ زندہ بندے کے چہرے تک رسائی کا الگ ہی مزہ ہے جو تھوڑی دیر بعد ہم حاصل کرنیوالے ہیں)

(جاری)

Check Also

Kuch Nayab Heeray

By Haris Masood