Corona Ki Talash (1)
کورونا کی تلاش (1)
جناب شفاء اللہ خان (گوگل) اک عجیب سیماب صفت شخصیت کا مالک ایسا یار طرح دار ہے جو خود کسی ایک جگہ ٹک کر بیٹھتا ہے اور نہ ہی دوستوں کو یکسانیت اور بوریت کے نمک غار میں نمک بننے دیتا ہے اس کے ساتھ تعلق کو ایک زمانہ بیت گیا مگر حیرت ہے کہ بہت بعد میں ہم دونوں کی زندگی میں آنیوالے اکثر دوست جب پہلی بار کسی محفل وغیرہ میں ہمیں (یعنی شفاء اللہ خان اور راقم الحروف، دونوں کی موجودگی میں) ملتے ہیں تو عموماً ہمارا ہی ایکدوسرے سے تعارف کراتے ہیں جس کے نتیجے میں حضرت گوگل اپنی جگہ اور میں اپنی جگہ ایک دوسرے کو خودساختہ اجنبیت سے لبریز کن انکھیوں سے دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔
جناب شفاءاللہ خان پر لمحہ موجود میں اللہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی مہربان ہے کیونکہ محنت میں عظمت سمجھنے والی اولاد کی موجودگی میں ماشاءاللہ وہ اپنے آپ کو کرائے کی وہ سائیکل قرار دیتا ہے جس پر ہر وقت تازہ دم ٹاکی شاکی لگی ہوتی ہے جو ہمہ وقت سواری کیلئے تیارکھڑی ملتی ہے۔
گزشتہ دنوں جب کورونا شریف نے ہم سب کی ناک میں دم کیا ہوا تھا تو شفاءاللہ خان نے اس کے خوف کو ملیامیٹ کرنے کی غرض سے پورے چھ عدد دوستوں کی معیت میں چوک منڈا کے ریگستانوں میں کورونا کا پیچھا کرنے کا اعلان کیا میں نے احتیاطاً پوچھا "کتنے دنوں تک کورونا کا پیچھا کرنے کا ارادہ ہے؟ "
وہ فوراً سوال کی تہہ تک پہنچ گیا اور کہنے لگا گھر والوں کو یہی بتا دو کہ کورونا جب تک ہاتھ نہیں لگتا وہ ہمارا چنتہ نہ کریں۔
کورونا کی تلاش میں ہم پانچ دوست عمران فاروق خان چٹ وٹیہ ٹھیکیدار سعیداخترخان بیخان خیل فاروق خان زادے خیل اقبال مجوکہ اور خاکسار، جناب گوگل کی قیادت میں میانوالی سے تو نکل پڑے مگر ہمارے کسی دوست کے ہاتھ میں کسی طرح کا کوئی اسلحہ + پنجرہ+ چاقو و چھری اور رسی و زنجیر وغیرہ نہیں تھی حتیٰ کہ "امیرقافلہ" نے کورونا جیسے بے چہرے دشمن کے مقابلے کیلئے کسی ماسک، سینیٹائزر یا شیلڈ وغیرہ کا تکلف کرنا بھی گوارا نہیں کیا تھا شاید وہ اکیسویں صدی میں بھی پرانے وقتوں کے جنگجو بادشاہوں کی طرح اپنے آپ کوبیوقوفانہ حد تک بہادر و طاقتور ثابت کرنے کی کوشش کررہا تھا اسکی اس "بہادرانہ اداکاری" سے میرے اندر مدافعاتی قوت کا ایک ان دیکھا سمندر اس لئے بھی ٹھاٹے مارنے لگا کیونکہ اس سے کچھ دیر پہلے ہی سوشل میڈیا پر میں اپنے جری وزیراعظم کو آسمانوں سے اترنی والی اس عظیم آفت کے دوران ایک نڈر قوم کے دکھ میں آنسو بہاتے دیکھ چکا تھا
دو گاڑیوں پر مشتمل ہمارا قافلہ ایم ایم روڈ پر رواں دواں رہا اور ہم بڑے حیران ہوئے کہ راستے میں چوک منڈا سے پہلے کسی جگہ پولیس نے ہمیں روکا ٹوکا اور نہ ہی کورونا کہیں نظر آیا؟
اللہ اللہ کر کے چوک منڈا کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے پولیس اور رینجرز نے قافلے کو جونہی روکنے کا اشارہ کیا تو ہم سب کے دلوں میں "جذبہ ایمانی" ضرورت سے کچھ زیادہ ہی جوش مارنے لگا کیونکہ ہمارے کمانڈر نے اپنی شاندار جنگی حکمت عملی اور پرجوش چرب زبانی سے گویا ہم سب کو اس شعر کی جیتی جاگتی اور بارود بھری تصویر بنا دیا تھا کہ
مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے
میں سربکف ہوں لڑادے کسی بلا سے مجھے
(جاری ہے)