Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asmatgul Khattak/
  4. Beemar Muashra?

Beemar Muashra?

بیمار معاشرہ؟

"ہمارا ہیڈ ماسٹر نہ صرف مالی بلکہ اخلاقی کرپٹ بھی ہے۔۔۔ تم کیوں نہیں لکھتے اسکے خلاف۔؟" میرے ٹیچر دوست نے احتجاج کیا"کوئی ثبوت ہے تمہارے پاس؟ "میں نے صحافیانہ انداز اپناتے ھوئے پوچھا"انکوائری ہوگی تو وہ بھی دے دونگا"اسکے جوش میں کچھ کمی آ گئی۔ میں نے اگلا آپشن دیا "تمہاری طرف سےلکھ دوں؟ "

اس پر جیسے برف پڑ گئی فوراً بولا "نہیں۔۔ نہیں میرا نام نہیں آنا چاہئیے۔۔ نوکری بھی تو کرنی ہے"

"ڈپٹی کمشنر پورا ضلع "ہڑپ" کرنیکے چکر میں ھے اور تمہارا قلم گھوڑے بیچ کر سو رہا ہے؟ "ایک این۔ جی۔ او کے دوست نے میرے قلم کو جگانے کی کوشش کی"کوئی ثبوت ہے تمہاے پاس۔؟ "

"ثبوت بڑےپہلے تم اپنے قلم کو غسل تو دو"

"بائی نیم لکھ دوں تمہارا یہ دکھڑا؟ " اسکا جھاگ اڑاتا دریا اتر گیا" ابھی نہیں۔۔ میرا ایک پروجیکٹ مکمل ہونے دو۔۔۔ سوچتے ھیں اس کے بعد۔"

"حاجی صاحب نے شہر کا ستیاناس کر دیا ھے جواء۔۔ منشیات۔۔ سود۔۔ زنا اور۔۔ مگر حیرت ہے تمہاری صحافت پر؟ جسکو جہاد کہتے ہوئے ذرا بھی نہیں شر ماتے؟عجیب مجاہد ہو؟ " نماز کی ادئیگی کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے نمازی بھائی نے جوش ایمانی کا مظاہرہ کرتے ھوئے میری صحافیانہ غیرت کو للکارا۔

"کو ئی شہادت۔۔ ثبوت ہے؟ "میں نے سوال اچھال دیا۔"سارا شہر کہہ رہا ہے۔۔ اس سے بڑا۔۔"وہ چلایا۔

"ٹھیک ہے تمارے نام سے کل خبر چھپ جائیگی" میں نے جان چھڑانے کیلئے آخری تیر چھوڑا۔۔

شام کو وہ میرے گھر آیا۔۔ اسکا جوش ایمانی۔۔ ہوش ایمانی میں بدلا ہوا نظر آیا "تمہاری بھابی کو بتایا تو تو اسی وقت سے رو رہی ہے اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کا واسطہ دے رہی ہے۔۔ کسی نے اسکو یہ بھی بتادیا ہے کہ حاجی صاحب کے"کن ٹٹے" ہر محلے اور ہر گلی میں رہتے ھیں۔"

قارئین کرام، اس طرح کے بیشمار کرداروں کے ساتھ تقریباٌ ہر ہفتہ میرا " ٹاکرہ" ہوتا رہتا ہے اور ہر کردار جس جوش وجذبہ بلکہ غیض و غضب کیساتھ نازل ہوتا ہے جب میں خبر یا کالم کی اشاعت میں سورس یا ذریعہ کیلئے اسی کے ذکر خیر کے حوالے کچھ لکھنے اور چھاپنے کی اجازت طلب کرتا ہوں تو وہ "حضرت جذبات" کی بجائے فوراً ہی "حضرت درخواست" بن کر منت ترلے پر اتر کر بھیگی بلی بن جاتا ہے یہ سب کیا ہے؟

میرا خیال ہے یہ اخلاقی اعتبار سے کمزور اور ایک بیمار معاشرے کا وہ رویہ یا نشانی ہے جو ایکدوسرے پر خواہ مخواہ کیچڑ اچھال کر نیم حکیم کی طرح اپنا اعلاج خود ہی کرنے کی کوشش میں مزید امراض کو دعوٰت عام دینے کے خبط میں ہر وقت مبتلا رہتا ہے۔

"82 ارب روپے میانوالی کیلئے" کے عنوان سے گزشتہ دنوں میں نے ایک کالم لکھا تھا جو سوشل میڈیا کے علاوہ میانوالی کے سب سے مؤثر مقامی اخبار "نوائے شرر" میں بھی چھپا جس کی اشاعت کے چوتھے پانچویں روز کسی "محب میانوالی" نے اسکی فوٹو کاپیاں کرائیں اور بازاروں و مارکیٹوں میں تقسیم کرانے کیساتھ ساتھ بذریعہ ڈاک بھی ضلع بھر میں کالم میں اٹھائے گئے میرے سوال کو ہر مؤثر شخص تک پہنچانے کی کوشش کی گئی جس کیلئے ظاہر ہے اخلاقی و ذاتی طور پر مجھے مذکورہ "محب میانوالی" کا شکریہ ادا کرنا چاہئیے مگر بدقسمتی سے ہمارے بیمار معاشرہ کے اس عظیم فرزند نے میرے کالم کی فوٹو کاپی پر اپنی طرف سے ایک الگ تحریر میں مقامی ایم این اے امجدعلی خان کے خلاف ذاتی غم وغصہ اور دل کی بھڑاس کچھ اس انداز میں نکالی ہے کہ کالم کا حقیقی مقصد و مدعا تقریباً فوت ہوگیا ہے ذاتی رنجش اور غم و غصہ کے اس طریقہ واردات پر بھی مجھے کوئی اعتراض قطعاً نہیں تھا مگر اس طرح کی بے پر کی اڑاتے وقت اگر وہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا نام اور اپنا حدود اربعہ بھی ساتھ لکھ دیتا تو شاید اسکی بات میں وزن بھی کچھ دکھائی دیتا اور مجھے خوشی بھی ہوتی مگر افسوس کہ اخلاقی اعتبار سے میرے اس کمزور سے دوست نے اپنے دل کی بھڑاس تو خوب نکال لی ہے بدقسمتی سے میرے کالم کا جنازہ بھی نکال دیا ہے۔

Check Also

Wazir e Aala Punjab Aur Police Uniform

By Prof. Riffat Mazhar