Teen Love Letters
تین لو لیٹرز
اردو ادب میں غالب کے خطوط کی بڑی شہرت ہے وہ تھے بھی شہکار۔ آج کل خط لکھنے کا سلسلہ تقریباََ تمام دنیا میں متروک ہی ہو گیا ہے شاید آفیشل لیٹرز لکھے جاتے ہیں مگر مجھے علم نہیں۔ ایک زمانہ تھا لوگوں کا عشق بنا محبوب کو خط لکھے پورا ہونے کا تصور کم تھا کیونکہ ہر کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ محبوب کے سامنے جا کر مدعا بیان کر پائے تو سہارا لیا جاتا تھا خطوط کا۔
ہم نے بھی لو لیٹرز لکھے ہیں مگر اپنے لیئے نہیں کسی اور کے لیئے۔
کل ایک بہت پرانا قصہ یاد آیا یہ شاید 16 یا 17 سال پہلے کی بات ہے۔ ہمارے گھر کی اوپری منز ل زیر ِتعمیر تھی۔ ماموں نے ایک ٹھیکے دار صاحب کو بھیجا ان سے ساری بات فائنل ہوگئی مگر وہ شدید بیمار ہوگئے اور اپنی جگہ اپنے صاحبزادے کو بھیج دیا ہمارے گھر۔ ہمارے شوہر صاحب کچھ جھجک رہے تھے کہ یہ تو خود کم عمر سا ہے کام کیا خاک لے گا مزدوروں سے؟ خیر ماموں کی سفارش پر اسے اوپری منز ل ٹھیکے پر دے دی۔
تعمیراتی کام کی وجہ سے میں نے اپنی ساری کتابیں کارٹن میں بھری ہوئی تھیں۔ اسے کہا کسی مزدور کو بھیج دے کارٹن محفوظ جگہ پر رکھنے ہیں۔ وہ صاحب خود چلے آئے بجائے مزدور کے، اکبر نام تھا اس لڑکے کا اور پنجابی تھا۔ میری کتابیں دیکھی تو بڑے اشتیاق سے بولا باجی یہ ساری کی ساری آپ نے پڑھ رکھی ہیں؟ میں نے کہا ہاں بھئی اور کیا سجانے کے لیئے لی ہیں۔ خیر الٹ پلٹ کر کتابیں دیکھتا رہا اور بولا باجی مجھے شعر بنانے سکھا دیں۔
اب مجھے اچھی خاصی ہنسی آئی اور اس سے کہا بھائی تم کیا کرو گے شعر بنا کر؟ تم ہمارا گھر بناو بس کافی ہے، مجھے لگا اس کا چہرہ اتر سا گیا ہے خیر کتابیں ڈبل چھتی پر رکھوا کر چلا گیا۔ ہماری امی کی عادت ہے کوئی بھی کام کرنے آتا ہے تو اسے کھانا گھر پر ہی کھلاتی ہیں۔ سارے مزدور دوپہر کا کھانا کھاتے تھے، اکبر کو ہمارے میاں صاحب نیچے لے آتے تھے کھانے کے لیئے اپنے ساتھ اور کھانے کے ساتھ ساتھ کنسٹرکشن سے متعلق باتیں کرتے رہتے تھے۔
میرا چھوٹا بیٹا اس وقت ڈیڑھ دو سال کا ہوگا عالیان، ایک بے حد صحت مند اور خوبصورت بچہ تھا۔ مزے کی بات دیکھیں اس نے نام سن سن کر ٹھیکے دار لڑکے کو اببر کہنا شروع کردیا۔ اکبر اس سے اور ہم سب سے گھل مل سا گیا، مجھ سے اکثر شاعری کے متعلق معلومات کرتا رہتا تھا۔ ایک دن میں نے اپنے میاں صاحب سے پوچھا اسے کیا ہر وقت شاعری کا دورہ پڑا رہتا؟ وہ ہنسنے لگے اور بولے عشق کا چکر ہے خود پنجابی ہے اور عشق اردو اسپیکنگ لڑکی سے کر بیٹھا ہے، وہ بھی ایسی لڑکی جو ہر وقت ڈائیجسٹ اور شاعری کی کتابیں پڑھتی رہتی ہے اس کی کرائے دار ہے۔ اوہ اب بات میری سمجھ میں آئی۔
ایک دن نیچے کھانے کے لیئے آیا مگر ہمیشہ کی طرح عالیان، یعنی میرے چھوٹے بیٹے سے مستی مذاق نہیں کر رہا تھا منہ لٹکائے چپ چاپ دو نوالے کھا کر بولا باجی چائے دے دیں بس، کھانے کا دل نہیں چاہ رہا۔ شفقت بولے طبعیت ٹھیک نہیں تو گھر چلے جاو، بولا گھر جاکر اور خراب ہوگی۔ ہم دونوں نے پوچھا ارے ہوا کیا؟ وہ بولا ثمینہ کو خط لکھا تھا مگر بات نہیں بنی۔ مجھے اس سے پوچھنا ہے کہ رشتہ بھیجوں یا نہیں ؟ مجھے شعر بنانے نہیں آتے کیا کروں؟
ہائے بے چارا مجھے بڑا ترس آیا مگر چپ رہی۔ دوسرے دن میرے پاس آکر بولا اپنی دو تین کتابیں دیں نا میں شعر ڈھونڈوں گا اس میں سے۔ میں نے اسے کہا بھائی یہ ایسا آسان کام نہیں، لاو تم کو ہم ایک خط لکھ کر دیتے ہیں۔ برسوں کی تمنا تھی کہ کوئی لو لیٹر لکھیں سوچا چلو اکبر میاں پر احسان بھی ہو جائے گا اور ہماری حسرت بھی پوری ہوگی۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، دراصل کہنا وہ یہی چاہتا تھا مگر بے چارے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی جھٹ تیار ہوگیا۔
میں نے کہا کل دے دوں گی لکھ کر، تم اسے اپنی مرضی سے بعد میں الفاظ دے لینا یعنی ایک اسٹرکچر بنانے کا وعدہ کر بیٹھے مگر ہم کیا جانیں وہ انجان لڑکی کیسی ہے؟ پوچھا کچھ بتا تو دو لڑکی کے بارے میں، اب وہ زمین میں گڑ گئے منہ ہی نا کھولے۔ میرا اور میاں صاحب کا ہنس ہنس کر برا حال وہ اور شرماۓ۔ خیر دو چار سوال کیئے اور رات کو بیٹھ گئی خط کا مضمون باندھنے۔ سب سے بڑی مصیبت اشعار کا مطالبہ تھا جو اکبر صاحب نے کیا تھا، سمجھ نہیں آرہا تھا شریفانہ عشقیہ اشعار کونسے ہوتے ہیں ؟
اپنے میاں جی سے کہا آپ ہی کچھ بتادیں، چڑ کر بولے میں تو خود اردو کے پیپر میں بڑی مشکل سے 40 نمبر لے کر پاس ہوا ہوں مجھ سے نہیں یاد ہوتے تھے یہ شاعر اور ان کے شعر، تم کو ایڈوینچر سوجھ رہا تھا خود ہی بھگتو۔ یہ ٹوٹل تین خط جو دو سے ڈھائی ماہ کے عرصے میں وقفے وقفے سے لکھے، مجھ پر کتنے بھاری پڑے اللہ جانتا ہے؟ مگر لڑکی نے ہاں کردی اور ہمارے گھر کی تعمیر کے دوران ہی اکبر کی بڑی بہن نے رشتہ پکا کردیا اس کا۔ اکبر کی والدہ حیات نہیں تھیں تین بھائی اور شاید دو یا تین بہنیں تھیں اب یاد نہیں ٹھیک سے، کرائے دار مالک مکان بن گئی ان تین لولیٹرز کی بدولت۔
ہمارا جب گھر مکمل ہوگیا تو اکبر نے مجھے ایک چھوٹا سا قرآن پاک گفٹ کیا تھا یہ کہہ کر کہ اس سے اچھا تحفہ مجھے آپ کے لیئے دکھائی نہیں دیا۔ اب بھی رکھا ہے میرے پاس سنہرے رنگ کے کنارے کا سفید کور والا قرآن پاک ہے۔ سال، ڈیڑھ سال بعد اس کی شادی ہوگئی مگر ہم اس وقت لاہور میں ہونے کی وجہ سے شریک نہیں ہو پائے تھے۔ کچھ عرصے بعد وہ فیملی سمیت پنجاب شفٹ ہوگیا اس کے بعد کوئی خبر نہیں ملی۔ مگر جب یاد آتا ہے تو اپنا بچپنا بھی یاد آتا ہے کون ایسے لو لیٹر کسی اجنبی کو لکھ کر دیتا ہے(سوائے کسی شدید سرپھرے یا سر پھری کے)؟
مگر اس کی بے چارگی اور شعر بنانا سکھا دیں کی تکرار مجھے بہت بھاتی تھی۔ وہ چھٹی، ساتویں پاس لڑکا اس انٹر پاس لڑکی کو متاثر کرنے کے لیئے کچھ کرنا چاہتا تھا مگر حدود میں رہ کر، آج کل کی جنریشن شاید یہ بات نا سمجھ پائے؟ آج کل تو لڑکے، لڑکیوں کے میل ملاپ میں زیادہ رکاوٹیں نہیں موبائل فون دسترس میں ہے۔ مگر وہ سادگی کا زمانہ تھا کسی سے محبت کا اظہار بہر حال اتنا آسان ہر گز نہیں تھا جتنا آج ہے۔
قصہ مختصر ہم نے لو لیٹرز تو لکھے مگر اپنے لیئے نہیں کسی اور کے لیئے۔

