Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asma Zafar
  4. Kelay Wale Nana

Kelay Wale Nana

کیلے والے نانا

اگر میں یہ جملہ دوبارہ لکھوں کہ میری زندگی میں کئی عجیب اور پیارے کردار بھرے ہوئے ہیں تو یقین مانیں یہ بات بار بار دہرا کر بھی میں بے مزا نہیں ہوتی۔ ایسا ہی ایک کردار کیلے والے نانا کا بھی ہے جو رشتے میں ہمارے نانا لگتے تھے۔ وہ میری اماں کے سب سے چھوٹے ماموں تھے، نام تھا ان کا سید فیض الحسن۔

یہ نام اس لیئے یاد ہے کہ ہماری نانی جان ہمیشہ سب چھوٹوں کو پورے نام سے پکارا کرتی تھیں۔ بقول نانی کے نام بگاڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ جب اماں باوا نے ایک نام دے دیا تو اسی سے پکارو۔ مگر ہم نے تو نام بگاڑ ہی دیاہماری امی اور سب ماموں، خالہ انہیں چھوٹے ماموں جان کہہ کر پکارتے تھےمگر ہم دو بہنیں کیلے والے نانا کہتے تھے۔

وجہ تھی ان کا ہر بار اپنے تھیلے میں ہم دونوں کے لیئے کیلے بھر کر لانا۔ مجھے یاد ہے ہم اپنے ایف سی ایریاء کے فلیٹ سے اگر کبھی بالکونی سے جھانک کر انہیں دور سے آتا دیکھ لیتے تھے تو زور زور سے چیختے تھے، آپا کیلے والے نانا آرہے ہیں۔ وہ ہمیں چیختا دیکھ کر ہاتھ ہلاتے تھے اور ہم اور جوش سے چیختے تھے۔ ہماری امی کے چھوٹے ماموں جان اپنے بھانجہ بھانجیوں میں تو مقبول تھے ہی مگر ان کی اولادوں کے بھی محبوب نانا، دادا تھے۔ انہوں نے ساری زندگی شادی نہیں کی۔ وہ ہماری امی کی چھوٹی خالہ جنہیں ہم خالہ بی بی کہتے تھے ان کے ساتھ رہائش پزیر رہے۔ خالہ بی بی بیوہ تھیں اور لاولد بھی۔ وہ بھی ایک انوکھا کردار تھیں کبھی موقع ملا تو ان کے بارے میں بھی کچھ لکھوں گی۔

تو ذکر تھا کیلے والے نانا کا، چھوٹے سے قد کے سانولے سے میرے پیارے نانا ہمیشہ سفید کرتا پاجامہ اور سر پر ہاتھ کی سلی سفید ٹوپی پہنتے تھے۔ آج سوچتی ہوں تو یاد آتا ہے کہ میں نے انہیں کبھی ننگے سر تو دیکھا ہی نہیں۔ ان کے سر پر بال تھے یا نہیں؟ مجھے پتہ ہی نہیں سانولے ماتھے پر طویل سجدوں کی نشانی دور سے چمکتی تھی، چہرے پر نرم مسکراہٹ جو ہم دونوں بہنوں کو دیکھ کر گہری ہوجاتی تھی۔ مجھے یاد نہیں وہ کام کیا کرتے تھے؟ مگر میں نے انہیں ہمیشہ مصروف دیکھا۔ وہ بہترین صابن بناتے تھے، جامن کی گٹھلیوں سے شوگر کی دوا بناتے تھے، ہڈیوں کو جلا کر منجن بناتے تھے۔

اور بھی نا جانے کیا کیا کام کرتے تھے؟ مگر یہ سب چیزیں وہ بیچنے کے لیئے نہیں بناتے تھے بلکہ وہ یہ سب بانٹ دیا کرتے تھے۔ وہ ہماری نانی کے پاس باورچی خانے کی چوکھٹ پر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ نانی کا ایک بہت بھرا پرا کنبہ تھا ان کی آدھی زندگی باورچی خانے میں کھانے پکاتے ہوئے گزر گئی۔ چھوٹے بھائی کو ادراک تھا اس لیئے بات کرنے کے لیئے باورچی خانے کی چوکھٹ منتخب کی جہاں وہ دونوں بھائی، بہن جانے کیا کیا باتیں کرتے رہتے تھے؟ کبھی ہنستے تھے، کبھی مسکراتے تھے شدید گرمی میں بھی وہ بہن کے پاس چولھے کی گرمی نظرانداز کیئے بیٹھے رہتے تھے۔

نانی جانتی بھی تھیں بھائی نہیں ہٹے گا پھر بھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد تیز آواز آتی فیض الحسن جاو اندر کمرے میں پنکھے کے نیچے بیٹھ جاو، پھر خالہ کو آواز لگاتی نسیم جہاں اپنے چھوٹے ماموں جان کو تھرماس سے برف نکال کر شربت بنا دو۔ ہائے کیسا پیار تھا دونوں بہن بھائی میں۔ ہماری نانی جس محلے میں رہتی تھیں اس میں برابر والے گھر میں ان کی بڑی بہن اور سامنے والے گھر میں ان کے دوسرے بھائی سید شبیر الحسن کی رہائش تھی۔ چھوٹے ماموں جان زیادہ تر ہماری نانی کے پاس وقت گزارتے تھے۔ وہ پاپوش میں رہائش رکھتے تھے جہاں میری نانی جان کی دو اور بہنوں کے بھی گھر تھے۔

میں بہت چھوٹی تھی مگر مجھے کیلے والے نانا کا ساتھ بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ جو چیزیں بناتے رہتے تھے میری ان میں دلچسپی تھی، وہ مجھ سے کہتے تھے ننھی بس کسی چیز کو ہاتھ نا لگانا چپکی("چپ کی" یہ لفظ بھی اب کوئی نہیں بولتا) بیٹھی رہنا اور میں یہی کرتی تھی۔ ایک منی سی پیڑھی پر بیٹھ کر انہیں کام کرتا دیکھتی رہتی تھی ان کے لیئے ایک کمرہ مختص تھا۔ نانی کے گھر میں وہ مہینوں وہاں رہتے پھر چلے جاتے واپس خالہ بی بی کے پاس مگر جب تک وہ نانی کے گھر رہتے خالی نہیں بیٹھتے تھے۔ جاتے وقت وہ ڈھیروں چیزیں بنا کر اپنے بھانجہ بھانجیوں کو بانٹ کر جاتے۔

مجھے ان کے بنائے صابن بڑے دلکش لگتے تھے۔ ان کے پاس ڈائیاں، سانچے، اوزار سب کچھ ہوتا تھا۔ میں اب سوچتی ہوں کہ وہ اگر اس زمانے میں ہوتے تو یقیناََ ایک کامیاب انجینئر ہوتے۔ وہ بنا ڈگری کے ہر مشین ٹھیک کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، ہر بگڑی چیز چھوٹے ماموں جان کا ہاتھ لگتے ہی ٹھیک ہو جاتی تھی۔ نانی بڑے فخر سے اپنے بھائی کے ہاتھ کی بنی چیزیں سب کو دکھاتی تھیں۔ میرا بچپن کیونکہ گزرا ہی نانی کے گھر ہے تو مجھے وہاں سے پیار بھی سب سے زیادہ ملا۔ اپنے بھانجے بھانجیوں کی سب سے پہلی اولاد ہونے کی وجہ سے کیلے والے نانا نے مجھے بھی بہت لاڈ کیا۔

وقت نے انہیں زیادہ مہلت نہیں دی وہ ہم دو بہنوں کے علاوہ صرف بڑے ماموں کے بڑے بیٹے کو ہی دیکھ پائے پھر بقیہ پود ان کی وفات کے بعد دنیا میں آئی۔ مجھے ان کی نمازیں بھی یاد ہیں ویسے تو میری نانی جان کے سارے بہن بھائی نماز روزے کے پابند تھے۔ شبیر الحسن ماموں کی جائے نماز تو گھس کر ہاتھوں کے نشان بن گئے تھے مگر وہ انتہائی سخت گیر تھے۔ گو کہ وہ ہم بہنوں سے کبھی سختی سے پیش نہیں آئے مگر ان کے چہرے کی کرختگی مجھے کبھی ان کے اتنے قریب نہیں لے گئی جتنی فیض الحسن عرف کیلے والے نانا کے قریب لے گئی۔

جیسا کہ میں نے بتایا ان کے ذرائع آمدن کیا تھے مجھے نہیں پتہ؟ مگر وہ اس محدود آمدن پر بھی اس وقت اور شاید آج بھی سب سے سستا پھل کیلا لے کر ضرور آتے تھے۔ ہم دونوں کے لیئے وہ سادہ وقت تھا ہم بچوں کو بھی قیمتی چیزوں سے زیادہ بے لوث محبت ہی بھاتی تھی۔ آج کل کے بچے شاید محبت کو قیمتی تحفوں سے تولتے ہوں مگر ہمارے لیئے تو وہ درجن بھر کیلے ہی خوشی کا باعث ہوتے تھے کیونکہ ان کے لانے والے ہمارے مہربان کیلے والے نانا ہوتے تھے، ہماری نانی کے پیارے بھائی۔

ان کی وفات بھی مجھے تھوڑی تھوڑی یاد ہے۔ ان کی وفات اپنے ایک بھتیجے کے گھر نئی کراچی میں ہوئی تھی۔ اس وقت وہ علاقہ ریت، مٹی سے اٹا ہوا تھا دور دور گھر بنے ہوئے تھے۔ میں پہلی بار اس علاقے میں کیلے والے نانا کی وفات پر ہی گئی تھی۔ ایک تو ان کی وفات کا دکھ دوسرا اس علاقے کی وحشت دونوں نے مل کر مجھ پر اتنا اثر کیا کہ میں برسوں اس منظر کو بھول نہیں پائی۔ آج نئی کراچی نیو کراچی بن گیا ہے۔ وہ ریت، مٹی منوں کنکریٹ اور سیمنٹ کی عمارتوں کے نیچے کہیں گم ہو چکی ہے مگر کبھی گزر ہو تو وہ سارا منظر دماغ میں تازہ ہو جاتا ہے۔

شاید وہ چھوٹے نانا کی محبت تھی، ان سے بچھڑنے کا غم تھا جو مجھ جیسی چھوٹی بچی کے لیئے ناقابل بیان تھا۔ میں اپنی اس کیفیت کو کوئی اظہار نہیں دے پائی تو اس علاقے کی ویرانی کو دل میں اتار لیا۔ اب بھی مجھے وہ علاقہ پسند نہیں، وہاں میری نانی کے وہ بھتیجے عرصے تک مقیم رہے مگر وہاں پہنچتے ہی عجیب سی بے چینی مجھے گھیر لیتی تھی شاید مجھے دکھ نانا کے بچھڑنے کا تھا مگر الزام دیتی رہی نیو کراچی کو۔ آج سامنے میز پر دھرے کیلے دیکھ کر پتہ نہیں کیوں کیلے والے نانا کی بے حد یاد آئی میرے بھولے بسرے پیارے لوگ۔

اس جہاں میں بھی شاید ایک بڑا سا باورچی خانہ ہو جہاں نانی بیٹھی ہنڈیا روٹی کرتی ہوں اور ان کے پیارے فیض الحسن چوکھٹ پر بیٹھ کر اپنی بہن سے گپیں لڑاتے ہوں۔ جنت کے سارے مکینوں کو نت نئی چیزیں بنا بنا کر بانٹتے ہوں اور جنتی بچوں کو بھی کیلے بانٹتے ہوں، کون جانے کون جانے؟

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail