Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asma Zafar
  4. Aik Thi Aini (2)

Aik Thi Aini (2)

ایک تھی عینی (2)

ہنس کر کہتی ارے بھاگ جائیں گے پگلی، میں کہتی بھاگنے دو مجھے تو تسلی ہوگی اپنا فرض پورا کیا ۔تمھاری بیٹیاں ہیں کام چلا سکتی ہو، وہ بیاہ کر دوسرے گھر جائیں گی ان کی ذمہ داری شوہر پر ہوگی ،کم تعلیم بھی چلے گی مگر لڑکوں کے لیئے اچھی تعلیم بہت ضروری ہے ۔ناراض ہوکر بولی ہاں دے دو تم بھی چار بیٹیوں کا طعنہ، میں نے کہا تمھاری لاپرواہی پر کہہ رہی ہوں کہ میں نہیں افورڈ کرسکتی ایسی لاپرواہی۔ ہنسی اور ہنستی ہی رہی بولی تم تو میری ساس جیسی ہو، میں نےکہا خالہ کیوں نہیں کہتیں ؟

چٹخ کر بولی میری اور آصف کی شادی میں سب سے زیادہ روڑے انہوں نے ہی اٹکائے تھے، کہتی تھیں اس سے نہیں پھوڑوں گی اپنے اکلوتے بیٹے کا نصیب۔تب مجھے پتہ لگا کہ ان کی لو میرج تھی۔ آصف نے گھر والوں کی مخالفت مول لے کر عینی سے شادی کی تھی وہ بندہ سہی معنوں میں عینی کا عاشق تھا ۔ایک بار مجھے فوڈ پوائزننگ ہوگیا میں دو دن اسپتال میں ایڈمٹ رہی ،جن لوگوں نے کالا بورڈ کا الممتاز اسپتال دیکھا ہے انہیں معلوم ہوگا۔

وہ مین روڈ پر واقع ہے اور وہاں ساری رات ٹریفک چلتا ہے اور اکثر ٹھیلے والے بھی رات گئے تک رہتے ہیں۔ عینی اس اسپتال کے پیچھے والی گلی میں ہی رہتی تھی، رات ایک بجے ایک دوا لینے میرے ہزبینڈ نیچے گئے واپس آئے تو مسکرا رہے تھے ،میں نے پوچھا کیا ہوا؟ ہنس کر بولے نیچے سلیپنگ سوٹ پہنے آصف پریشان گھوم رہا تھا ،میں نے پوچھا تو بولا عینی کو اس وقت بن کباب کھانا ہے یار وہ ڈھونڈنے نکلا ہوں۔ ہم دونوں میاں بیوی دیر تک ان کی باتیں کرکے ہنستے رہے۔

میں نے اپنے میاں صاحب سے کہا آپ لائیں گے رات کے اس پہر میرے لیئے بن کباب ؟ وہ فورا ََبولے تم اتنی احمقانہ فرمائش کبھی کرو گی بھی نہیں۔ اس وقت مجھے پتہ نہیں کیوں عینی پر بے حد رشک ہوا وہ ایک آزاد روح تھی ،اسے شاید زندگی جینا آتی تھی۔ دل کی کرتی تھی دل کی مانتی تھی ،ہماری طرح دماغ سے سوچنا نہیں آتا تھا اسے شاید۔وہ مجھ سے کہتی تھی محبت میں ہر پل محبوب کا امتحان لیا جاتا ہے ۔ تم کیسی پاگل ہو؟ کبھی تو شفقت بھائی کو امتحان میں ڈالا کرو پتہ تو چلے حضرت کتنے پانی میں ہیں؟

مگر شاید میں اس کی طرح بہادر نہیں تھی مجھے یا تو اپنی محبت پر یقین نہیں تھا یا شفقت کی۔ میں نے کبھی انہیں کسی امتحان میں ڈالنے کا سوچا ہی نہیں نا اب سوچتی ہوں۔ اب یہ بے یقینی ہے یا میری محبت کہ میں کسی بھی مشکل صورت حال میں انہیں نہیں دھکیل سکتی۔ہماری اور عینی کا یہ عجیب سا ساتھ کل تین برس تک قائم رہا۔ ایک دن شفقت کے پاس عامر کا فون آیا شفقت میرے پاس آئے اور بولے اسماء ،عینی کی ڈیتھ ہوگئی۔

میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور میں نے چیخ کر کہا پاگل ہو کیا؟ایسا مذاق کرتا ہے کوئی۔ خدا کا خوف کرو چار چھوٹی بچیوں کی ماں ہے وہ اس طرح بولتے ہیں کیا؟مگر حقیقت تو یہی تھی وہ زندگی سے بھرپور لڑکی، زندگی اپنی شرائط پر جینے والی موت بھی خود ہی چنی اس نے۔پتہ یہ چلا کہ آصف کے باہر رہنے کی وجہ سے اس نے ڈرائیونگ سیکھنے کا سوچا اور محلے کے ایک لڑکے سے ڈرائیونگ سیکھنے لگی ۔آصف کو دبئی سے واپس آنا تھا تو اسے لینے ائیرپورٹ گئی۔

ساتھ وہ لڑکا بھی تھا ،گاڑی اس لڑکے نے ہی ڈرائیو کی۔ جب وہ لوگ آصف کو لے کر واپس آرہے تھے تو نا جانے عینی کو کیا سوجھی ؟کہ گاڑی رکوا کر ضد پکڑ لی کہ ڈرائیونگ خود کرے گی ،آصف اور اس لڑکے نے سمجھایا کہ ابھی اس کی ڈرائیونگ اتنی پختہ نہیں مگر وہ عینی ہی کیا جو مان جاتی ؟خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی اور آصف کو پیچھے بھیج کر اپنے استاد یعنی اس لڑکے کو ساتھ بٹھا لیا ۔تھوڑی دور ڈرائیو کی ہوگی کہ گاڑی اس سے بے قابو ہوگئی اور بجلی کے پول سے پوری طاقت سے ٹکرائی۔

عینی کی عین موقع پر ڈیتھ ہوگئی۔ لڑکا شدید زخمی ہوا ،آصف کے چند خراشیں آئیں وہ بچ گیا مگر کیا زندہ بچا ؟وہ تو عینی کا دامن پکڑ کر چلتا تھا کیسے زندگی گزارتا ؟کچھ عرصے بعد سنا وہ اپنا گھر جو کہ اوپری منزل پر تھا نیچے والدہ مقیم تھیں بند کرکے بچیوں کو نانی کے گھر ،جوکہ اس ہی گلی میں تھا چھوڑ کر خود دبئی چلا گیا۔ کئی سالوں وہ اوپری منزل بند رہی۔ آصف سال، چھ ماہ بعد بچیوں سے ملنے آتا تھا جو نانی ،ماموں اور خالاؤں کے ساتھ رہتی تھیں۔ پھر سنا وہ لوگ وہاں سے کہیں اور شفٹ ہوگئے۔

میں نے کئی بار چاہا کہ اسے فون کرکے کہوں بچیوں کو کس بات کی سزا دے رہے ہو؟ مگر کبھی ہمت ہی نہیں پڑی ۔اب تو کئی سالوں سے ہمارا ان کی فیملی سے رابطہ بھی ختم ہوگیا ہے ۔ جانے کس حال میں ہونگے اور کہاں ہونگے؟ عامر سے بھی ملاقاتیں محدود ہوگئیں کہ اس کی وائف اسکول جاب کرتی ہے، وہ بھی مصروف ہم بھی اپنے دھندوں میں لگے۔

کل رات اچانک ہمارے گھر کے دروازے پر رات ایک بجے کھڑکھڑاہٹ ہوئی کسی نے دروازہ بجایا میں جاگ رہی تھی، بے اختیار بیٹے کو آواز دے کر بولی دیکھو دروازے پر عینی آنٹی تو نہیں؟ہائے اب وہ کہاں سے آئے گی ؟میں نے ہی تو اسے منع کیا تھا نا مگر عینی اب میں فارغ ہوں، مجھے صبح کسی بچے کو اسکول نہیں بھیجنا۔ آجاو مل کر کافی پیتے ہیں تم کشنز کی ترتیب بھی بگاڑ سکتی ہو میں ناک نہیں سکیڑوں گی ۔میرا گھر بھی اب بے ترتیب رہتا ہے ہمت ہی نہیں ہوتی سجانے سنوارنے کی، اب تم مجھے سگھڑ ہونے کے طعنے بھی نہیں دے پاوگی۔

کیسی عجیب بات ہے نا وہ رشتہ جو ناگواری سے قائم ہوا وقت کے ساتھ ساتھ عجیب سے خوشگوار بندھن میں بدل گیا۔ شاید ہم سب اپنی مخالف طبعیت کے لوگوں کی طرف اٹریکٹ ہوتے ہیں جیسے میں عینی کی طرف اور عینی میری طرف۔ ہم دو مخالف سمتیں تھے مگر ہمارا سرا کہیں نا کہیں تو ملتا تھا جو ہم ایک دوسرے کے قریب آگئے۔

اللہ تمھاری مغفرت فرمائے تمھاری بچیوں کا نصیب بلند کرے، سب سے بڑھ کر آصف کو سکون عطا کرے ۔جانتی ہوں وہ ساری زندگی کرب میں رہے گا اسے تمھاری عادت تھی اور عادتیں کب جلد بدلتی ہیں؟

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan