Aik Thi Aini (1)
ایک تھی عینی (1)
میری زندگی میں بہت سے عجیب و غریب کردار بھرے پڑے ہیں۔ مجھے خود بھی کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ کیوں ایسے انوکھے لوگ مجھ سے ہی آن ٹکراتے ہیں؟ ان میں سے ایک عینی بھی تھی۔ عینی آصف کی بیوی تھی، نا میرا عینی سے کوئی رشتہ تھا نا ہی آصف سے۔ وہ دونوں ہماری زندگی میں جس قدر تیزی سے آئے اتنی ہی تیزی سے نکل بھی گئے۔ مجھے آج بھی اپنی عینی سے پہلی ملاقات یاد ہے۔ شاید یہ کوئی آج سے چودہ، پندرہ برس پہلے کی بات ہے۔ شفقت یعنی میرے ہزبینڈ کے ایک بہت قریبی دوست کی شادی تھی ہم شادی کے ہر فنکشن میں انوائیٹڈ تھے۔
عامر کے والدین کی وفات ہوچکی تھی۔ اس کی شادی کے سارے انتظامات اس کے بڑے بہن، بھائی کررہے تھے تو دوست ہونے کے ناطے ہم دونوں میاں بیوی بھی ہر کام میں پیش پیش تھے۔ جس دن شادی کا پہلا فنکشن تھا دلہن کے گھر مہندی کا، اس دن عامر کے ایک اور دوست آصف کی فیملی بھی وہاں موجود تھی۔ عینی یعنی آصف کی بیوی لہک لہک کر شادی کے گانے گا رہی تھی میں پیچھے کرسی پر بیٹھی اسے اشتیاق سے دیکھ اور سن رہی تھی۔ اس کے ارد گرد اس کی چار بیٹیاں بیٹھی تھیں جو بہت چھوٹی تھیں۔ شدید سردی کی رات تھی مگر عینی بچیوں سے لاتعلق بس گانوں میں لگی پڑی تھی۔
میں اپنے چھوٹے بیٹے کو خود سے لپٹائے بیٹھی تھی۔ اچانک رسم کا شور ہوا سب گانے والی لڑکیاں تتر بتر ہوگئیں۔ دلہن کی رسم کے وقت عینی کی چھوٹی بچی نیند میں جھوم رہی تھی۔ عینی کی ساس جوکہ اس کی سگی خالہ بھی تھیں، بار بار اس کی توجہ بچیوں کی طرف کررہی تھیں مگر وہ تو مست تھی۔ دلہن سے چھیڑ چھاڑ، بلند قہقہے دنیا جہاں سے بے پرواہ۔ سچی بات ہے مجھے وہ کچھ خاص پسند نہیں آئی۔ رسم ختم ہوتے ہی وہ بڑی محبت اور لگاوٹ سے مجھ سے باتیں کرنے لگی اور میرے برابر میں بیٹھ کر ہی کھانا کھانے لگی۔
میں اپنے چھوٹے بیٹے کو سینڈوچ کھلانے لگی تو حیران ہوکر بولی، یہ کہاں سے آئے؟ میں نے اسے بتایا کہ میں شادی کی تقریبات میں بچوں کے لیئے کچھ اسنیکس ساتھ لے آتی ہوں تاکہ بے وقت بھوک میں دے سکوں۔ وہ زور سے قہقہ لگا کر بولی اتنا نا مرو، بیٹے تو شادی کے بعد پرائے ہو جاتے ہیں کیوں خود کو گھلا رہی ہو؟ بھوک لگے گی تو سب کھا پی لیتے بچے، میں نے اس بات کا کوئی جواب اسے نہیں دیا بس مسکرا دی۔ کھانے کے بعد جب سب روانگی کے لیئے اٹھے تو اچانک شور مچ گیا عینی کی سب سے چھوٹی بیٹی غائب تھی۔
سارے میں بچی کی ڈھنڈیا مچ گئی۔ عینی ہونق بنی کرسی پر بیٹھی تھی اس کی ساس اسے ڈانٹ رہی تھیں کہ وہ اکیلی چار چار بچیاں کیسے سنبھالتیں؟ عینی کو بھی دھیان رکھنا چاہیئے تھا۔ ہر طرف لوگ دوڑ رہے تھے مگر بچی کا کوئی اتا پتہ نا تھا۔ اسی طرح پون گھنٹہ گزر گیا، میں نے اپنے بڑے بیٹے سے کہا آپ اس کے ساتھ کھیل رہے تھے نا وہ کہاں گئی کچھ پتہ ہے؟ وہ بولا ماما اسے تو نیند آرہی تھی پتہ نہیں کہاں چلی گئی؟ اچانک سب کو دلہن کا خیال آیا کہ اس بے چاری کو تو اسٹیج سے اتار کر گھر بھیج دیں۔
جیسے ہی وہ اسٹیج سے اتری کسی کی نظر اسٹیج کے پیچھے رکھی چئیر پر گئی جس پر ایک بچی مزے سے سو رہی تھی، وہ عینی کی بیٹی تھی۔ سب نے شکر ادا کیا، عینی نے چٹاخ ایک چانٹا اس جھومتی بچی کے منہ پر لگا دیا، میں حیران اسے دیکھ رہی تھی بچی روئی تو ساتھ خود بھی رونے لگی۔ سب نے سمجھایا بچی کا کیا قصور؟ نیند آئی سو گئی تم دھیان رکھتی اس کا۔ خیر وہ ہماری پہلی ملاقات تھی جس کا تاثر مجھ پر اچھا نہیں پڑا۔ شادی کے تمام فنکشنز میں عینی مجھ سے بہت محبت سے بات کرتی رہی۔ میرے دل کی خفگی بھی کسی حد تک دور ہوگئی پھر اکثر ہماری ملاقاتیں عامر کے گھر ہوتی رہیں۔
آصف کو میرے ہزبینڈ پہلے سے جانتے تھے۔ ایک دن وہ لوگ عامر اور اس کی نئی دلہن کے ساتھ ہمارے گھر آگئے۔ عینی میرے سارے گھر میں گھومتی رہی اور کہتی رہی افف خدایا تم نے کسقدر سجا رکھا ہے گھر۔ دو دو لڑکے ہیں اس گھر میں اور اتنی ترتیب میری بہن زندگی میں کرنے کے اور بھی کام ہیں، کیا تم لگی پڑی ہو یہاں وہاں۔ اس کی باتوں کی اب میں عادی ہوگئی تھی اس لیئے ہنستی رہی۔ وہ اس کے بعد اکثر ہمارے گھر اچانک آدھمکتی تھی اور وہ بھی لیٹ نائٹ۔ ایک رات وہ ایک بجے آصف کے ساتھ ہمارے گھر آئی اور آتے ہی بولی میں نے آصف سے کہا کافی کا موڈ ہے چلو اسماء کے گھر چلتے ہیں۔
وہی ایک سگھڑ خاتون ہے جو مجھے رات کے اس پہر کافی پلا سکتی ہے وہ بھی بہت سارے جھاگ والی۔ میں نے اس سے کہا میرے اسکول گوئنگ بچے ہیں، ہم رات دس بجے سو جاتے ہیں خدارا اب اتنی رات گئے مت آنا۔ بجائے شرمندہ ہونے کے اچک کر صوفے پر بیٹھی سائڈ کے کشنز اٹھا کر گود میں رکھے اور بولی اچھا اگر پھر لیٹ نائٹ آئی تو کیا کروگی؟ میں نے کہا دروازہ نہیں کھلے گا قہقہ لگا کر بولی اتنا پیٹونگی دروازہ کہ سارا محلہ اکھٹا ہو جائے گا، بڑی آئی دروازہ نا کھولنے والی۔ آصف نے اسے کہنی ماری تو بولی تم چپ کرکے بیٹھو جی میں بول رہی ہوں نا۔ وہ بے چارا شرمندہ ہوکر شفقت سے بولا میں منع کررہا تھا مگر یہ تو اڑ جاتی ہے، بس بچیوں کو امی کے پاس سوتا چھوڑ کر نکلے ہیں۔
یہ ان دونوں کی روٹین تھی کیونکہ آصف امپورٹ ایکسپورٹ کے بزنس سے وابسطہ تھا۔ وہ چھ چھ ماہ ملک سے باہر ہوتا تھا، وہ جب آتا تو یہ اسے لیئے سارے کراچی کی سڑکیں ناپتی تھی۔ خالہ کی کسی بات کا اثر نہیں ہوتا تھا اس پر، عجیب لا ابالی اور لاپرواہ لڑکی تھی جیسے اس کے اندر پارہ بھرا تھا۔ مجھ سے کہتی تھی تم انتہائی بور لائف گزار رہی ہو، شفقت بھائی اتنے سیدھے ہیں تم ان سے کہو تو وہ تمھاری بات نہیں ٹالیں گے۔ گھوما پھرا کرو میں نے اسے کہا بچوں کی تعلیم کی وجہ سے میں نے خود پر بہت سی پابندیاں ازخود لگائی ہوئی ہیں۔

