Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asma Tariq
  4. Mera Taluq Is Muashre Se Hai

Mera Taluq Is Muashre Se Hai

میرا تعلق اس معاشرے سے ہے

میرا تعلق اس معاشرے سے ہے، جس نے پچھتر سال پہلے ملک تو آزاد کر لیا تھا مگر خود آزاد ہونا سب بھول گئے۔ میرا تعلق اس معاشرے سے ہے جو جسموں سے تو شاید آزاد ہیں مگر ان کے دماغ اور روحیں آج بھی غلام ہیں۔ میرا تعلق اس معاشرے سے ہے جہاں حق اور انصاف کے لیے کوئی آواز بلند نہیں کرتا، کوئی باہر نہیں نکلتا مگر اپنے لیڈروں، آقاؤں اور مولاناؤں کی ایک آواز پر سڑکیں جام سبھی کرتے ہیں۔

میرا تعلق اس معاشرے سے ہے جہاں غریب روٹی چرانے پر جیل میں چکی ضرور پیستا ہے مگر ملک لوٹنے والے، ڈاکا ڈالنے والے حکمرانی کرتے ہیں۔ میرا تعلق اس معاشرے سے ہے جہاں زکوٰۃ تو سوچ سمجھ کر دی جاتی ہے مگر رشوت سر عام ہے۔ میرا تعلق اس معاشرے سے ہے جہاں نظریں سب کی گندی ہیں اور دماغوں میں میل ہے مگر ریپ کرنے والے کو سزا اس لیے نہیں ملتی کیونکہ باپ کی ریاست تھی اور عورت باہر نکلی تھی۔

میرا تعلق اس معاشرے سے ہے جہاں ظلم کرنے والے سے سوال کی کوئی اوقات نہیں رکھتا مگر مظلوم پر چڑھائی سبھی کرتے ہیں۔ میرا تعلق اس معاشرے سے ہے جہاں اگر تم کوئی الگ بات یا کوئی نیا نظریہ پیش کرو تو تختہ دار پر لٹکا دیئے جاؤ گے مگر بددیانتی اور خیانت کی کوئی سزا نہیں ملتی۔ میرا تعلق اس معاشرے سے ہے جہاں سیاست اور کاروبار میں جذبات ابھارنے کے لیے مذہب کا ٹچ لازم و ملزوم ہے مگر عام حالات میں انسانی احساسات اور جذبات کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔

میرا تعلق اس معاشرے سے ہے جہاں مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں بچوں کو تو حب الوطنی، بہادری اور بردباری کے بہت درس دیئے جاتے ہیں مگر بڑی پاور کے لیے ملک بھی بیچ دیا کرتے ہیں۔ میرا تعلق اس معاشرے سے ہے جہاں بیرونی سازشوں سے لوگوں کو تو ڈرایا جاتا ہے مگر خود انہی سے فنڈنگ لی جاتی ہے اور انہی کے ساتھ ڈنر منایا جاتا ہے۔ میرا تعلق اس معاشرے سے ہے جہاں گھسی پٹی روایات، وبالِ جان رسومات، توہمات، بدشگونیوں اور بدگمانیوں کا ڈھیرا ہے مگر قانون، شخصی آزادی، سوال و جواب، سوچ اور نظریے جیسی چیزیں گناہ سمجھی جاتی ہیں۔

میرا تعلق اس معاشرے سے ہے جہاں خود مذہب عورتوں کے لباس، ستر حوروں، چار شادیوں، جمعہ کی نماز تک ہی فالو کیا جاتا ہے مگر دوسروں کو خدا سے ڈرا کر، فتویٰ صادر کرنے اور جہنم بھیجنے میں فوری عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ میرا تعلق اس معاشرے سے ہے، جہاں دوسروں میں تو اخلاقیات اور کردار سازی کے سرٹیفکیٹ بانٹے جاتے ہیں مگر اپنے گریبان میں جھانکنے کی ذرا سی زحمت بھی نہیں کی جاتی۔ میرا تعلق اس معاشرے سے ہے، جہاں تم جھوٹ بول کر خوش رو خرم زندگی گزار سکتے ہو مگر اگر سچ بولو گے تو جینا دشوار ہے۔

اس معاشرے میں آپ کو صحیح کام کرنے کی بہت بڑی قیمت عطا کرنی پڑتی ہے۔ ہم نے اپنے بچپن سے صرف یہی دیکھا ہے۔ آپ اپنی زندگی میں مست رہو، جھوٹ سچ سب فکروں سے آزاد ہو جاؤ۔ نہ کچھ سنو نہ کچھ دیکھو۔ نہ سوچو اور نہ سوال اٹھاؤ۔ اچھی زندگی گزارو گے۔ اب تو شرم آتی ہے لوگوں سے کہتے ہوئے کہ سوال کرو، آواز اٹھاؤ۔ بولو۔ کیونکر کسی کی زندگی کو مشکل میں ڈالا جائے۔ جنہوں نے قیمتں عطا کی ہیں وہی کافی ہیں۔ حادثے بہت برے ہوتے ہیں۔ سالوں دماغوں میں نقش رہتے ہیں۔ بالکل تازہ۔

آج صبح اٹھتے ہی ارشد شریف سر کی شہادت کی خبر ملی تو وقت پھر کہیں پیچھے لے گیا۔ جانے والا اپنے ضمیر کی قید سے رہا ہو جاتا ہے مگر باقی بچے ہوئے لوگ ایک کشمکش کا ہمیشہ شکار رہتے ہیں۔ جو انہیں نہ زندگی میں آگے بڑھنے دیتا اور نہ رکنے کا کوئی سوال ہے۔ وہ کہانیاں، وہ قربانیاں، وہ داستانیں پھر سے گونجنے لگیں۔ دوسروں کو سنانے میں شاید اچھی لگتی ہوں مگر انہیں گزارنا قطاََ آسان نہیں ہوتا۔

جنہیں ہم ہر دن کسی پرانے تکیے میں دفن کر کے سوتے ہیں مگر صبح ہوتے ہی پھر سے ان کی گونج سنائی دیتی ہے۔ جتنی ان سے جان چھڑائی جائے مگر چھوٹتی ہی نہیں۔ جھوٹ کہتے ہیں لوگ وقت کے ساتھ ساتھ زخم بھر جاتے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ زخم مزید گہرے ہوتے جاتے اور وہ آپ کی ذات کو تا عمر effect کرتے۔ دنیا کا کیا ہے۔ کچھ دن بعد سب اپنی اپنی زندگی میں پھر سے مگن ہو جاتے اور کوئی حال بھی پوچھنے نہیں آتا۔ پھر ساری تکلیف خاندان اور بچوں کو تا عمر اکیلے برداشت کرنی پڑتی ہے۔

شاید یہی دنیا کا دستور ہے۔ اب بھی کچھ دنوں بعد پھر سب خاموش ہو جائیں گے یہاں تک کہ پھر کوئی حادثہ پیش آئے۔ اب تو یہ ایک pattern سا لگتا ہے۔ احساسات اور جذبات بھی کہیں سو چکے ہیں۔ شاید۔ جن معاشروں میں ناانصافی اور ظلم راج کرتا ہے وہاں ویسے بھی آپ تہذیب، ثقافت، اخلاقیات اور روایات کی بات نہیں کر سکتے۔ وہاں صرف بےحسی پروان چڑھتی ہے جو دھیرے دھیرے سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔

اور ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ خاموشی اور فرار وقتی حل تو ہو سکتے ہیں مگر دائمی نہیں۔ آپ آج تو بچ سکتے ہیں مگر کل کی کوئی گارنٹی بھی نہیں۔ اس ناانصافی اور ظلم کی قیمت تو چکانی ہو گی۔ اور یہ قیمت چکانے سے اگر آپ بچ گئے تو شاید آپ کی نسلیں چکائیں گی۔ اب یہ سبھی کو طے کرنا ہے۔ روز کوئی داستان لکھی جائے گی۔ اور اگر کچھ بدلنا ہے تو سبھی کو جاگنا پڑے گا۔ مگر کیا سبھی جاگنے کو تیار ہیں۔ یہ سب سے بڑا سوال ہے۔ اور کیا انہیں جاگنے دیا جائے گا؟

Check Also

Baat Kahan Se Kahan Pohanch Gayi, Toba

By Farnood Alam