Maaen Ni Main Kinnu Aakhan
مائیں نی میں کنوں آکھاں
ہم جو انسانوں کی تہذیب لئے پھرتے ہیں!
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں
مجھے ڈر ہے کہ ایک وقت آئے گا جب ان حالات سے تنگ آکر شاید ہم خود ہی اپنی بیٹیوں کی شادیاں نہیں کریں گے یا یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ لڑکیاں خود اس معاشی بے رحمی کا شکار ہونے سے معذرت کرلیں گی۔ خود مختار ہوں گی۔ اور اگر کسی مار پیٹ کا نشانہ بنیں تو پہلی فرصت میں چھوڑ دیں گی۔ ہماری جنریشن کے والدین اس میں بھر پور سپورٹ کریں گے۔ اور یاد رکھیے گا یہ وقت دور نہیں۔۔ اور یہ ہمارے لڑکھڑاتے معاشرے کو مزید توڑے گا۔۔ پھر روایات اور تہذیب کی بات مت کیجئے گا۔۔
اس تہذیب کا بیڑا غرق کرنے والے اسکے رکھوالے اور ٹھیکیدار خود ہیں۔۔ یہ مت کہیے کہ بس آجکل کا فتور ہے۔۔ آپ کا معاشرہ شروع سے ایسا ہی تھا۔۔ بد تہذیب اور ظالم۔۔ انا پرستی، جھوٹی عزت اور مرتبوں کا امین۔۔ اب تو بس آوازیں اٹھ رہیں۔۔ چیخیں نکل رہی ہیں۔۔ دم گھٹ رہا ہے۔۔ اور یہ مزید اٹھیں گی حتی کہ ہمارے کانوں سے خون نکلے گا۔۔ ہم ابھی بھی سدھرنا کہاں چاہتے ہیں۔۔ ہمیں جھوٹی انائیں اور جھوٹی عزتیں زیادہ پیاری ہیں۔۔ اسی وجہ سے بغاوت سر عام ہے۔
ان سب حالات کا حل نفرت نہیں ہے۔۔ نہ ہی آپ زبردستی چیزیں ٹھیک کر سکتے ہیں۔۔ معاشرے کو قانون کی ضرورت ہے۔۔ ایسا قانون جہاں ظلم کی سزا ملتی ہو۔۔ جہاں انسانیت بڑی ہو۔۔ جہاں ہر انسان کی عزت ہو۔۔ اس معاشرے کو تربیت اور شعور کی ضرورت ہے جو انتہا پسندی سے کسی صورت ممکن نہیں۔۔ وگرنہ انجام کسی کےلیے بھی اچھا نہیں ہو گا۔۔
آئے روز بہت سے واقعات سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں عورت گھریلو جسمانی تشدد اور ذہنی تشدد کا شکار ہے۔ ہم کب تک یہ سہتے رہیں گے؟ جب بھی خواتین کے حقوق کی بات ہوتی ہے۔ ہم اسے ہمیشہ عورت مارچ یا آزادی سے جوڑ دیتے ہیں۔۔ پتا نہیں کون سی آزادی ہمیں چین نہیں لینے دے رہی۔۔ ہم ہمیشہ ضروری بات دوسرے رخ پر موڑ دیتے۔۔ آزادی تو بہت بعد کی بات ہے فلحال اس وقت اس معاشرے میں انسانیت بنیادی حقوق سے محروم ہے۔۔ قانون کہیں نام کا نہیں ملتا۔۔ وحشت کا عالم ہے۔۔ ظالم دندناتے پھرتے ہیں۔۔
رہی بات گھریلو تشدد کی تو وہ شروع سے اس معاشرے میں ہو رہا ہے۔۔ ہماری دادیاں نانیاں اسکی شکار رہی ہیں اور یہ اب تک ہر سطح پر ہو رہا ہے۔۔ آج بھی ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جو اپنی اولاد کو یہی سکھاتے ہیں کہ اور اپنی بیویوں پہ رعب جمانے کا درس اور طریقے بتاتے ہیں۔ پھر وہ اپنے مظالم جو انھوں نے اپنی بیویوں پہ کیے ہوتے ہیں فخریہ انداز میں سناتے ہیں۔۔ اور پرانی عورتیں بھی اپنی جوانی کی سختیاں اور محرومیاں بڑے شوق سے سناتی ہیں اور نئی جنریشن کو اسی نقش قدم پہ چلنے کیلئے مجبور کیا جاتا ہے۔
تعلیم میں ان کا کچھ نہیں بگاڑ پایا۔۔ تشدد ناقابل قبول ہے چاہے وہ کسی کے ساتھ بھی ہو۔۔ مگر اگر ہم کہیں کہ خواتین کو ایسے کسی مسائل کا یہاں سامنا نہیں۔۔ ان کے ساتھ تشدد نہیں ہوتا تو یا تو ہم اپنے گھروں میں سوئے ہوئے ہیں اور یا ہماری آنکھیں بند ہیں۔۔ ہم لوگ آنکھوں دیکھی حقیقتیں جھٹلا رہے ہیں۔۔ عورتوں کو مارو وہ اسی لیے تو پیدا کی گئی ہیں مگر انکے منہ سے اف نہ نکلے شکایت تو دور کی بات ہے۔۔
اس معاشرے کے ان سب مردوں کو سنبھلنے کی ضرورت ہے جو عورت کو اپنی پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ ہاتھ ان کی تربیت کا ہے۔ مردوں کو مردانگی کے نام پہ عورت کی تذلیل سکھائی جاتی ہے اور ہمارے معاشرے میں بے شمار پڑھے لکھے مرد ایسا ہی زہر لیے پھرتے ہیں۔ اگر کہیں کوئی شوہر اپنی بیوی کا جائز بات پہ ساتھ دے دے یا اسے کسی ایسے معاملے میں سپورٹ کرے تو اسے پورے خاندان اور معاشرے کی خفگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ معاشرہ تباہی کی طرف جا رہا ہے۔ آج کی عورت بہترین تعلیم رکھتی ہے بلکہ بہت سی خواتین مردوں سے زیادہ قابلیت اور تعلیم رکھنے کے باوجود اپنا گھر بسانے اور بچوں کو ایک بھر پور ماحول دینے کی خاطر ہر چیز سہنے کے لیے تیار ہیں۔ مگر اس کے باوجود اسے بے شمار ذلالت کا سامنا ہر روز رہتا ہے اور اس کی سالمیت کو آئے دن خطرہ رہتا ہے۔ بےشک اس سب میں بےشمار سماجی خرابیاں ہیں، مردوں کے معاشرے کا قصور بھی ہے، مگر اس سب کے پیچھے وہ غلط سوچ ہے وہ پچپن سے گھروں اور اردگرد سے ہمیں ملتی ہے۔
جہاں ایک ماں جب اپنے بیٹے اور بیٹی میں فرق کرتی ہے۔ جہاں ایک ماں خود عورت ہونے کے باوجود صرف بیٹے کی پیدائش چاہتی ہے۔ جہاں ایک ماں بیٹا ہونے پر فخر کرتی ہے اور بیٹی ہونے پر برا مانتی ہے۔ جہاں عورت اپنے حق اس لیے چھوڑتی ہے کہ کوئی بدمزگی نہ ہو اور یہی ترغیب دیتی ہے۔ حالانکہ یہ زمانہ جاہلیت کے کام ہیں۔ جہاں ایک ماں اپنی بیٹی کو تو دنیا کی سب خوشیاں دینا چاہتی ہے مگر دوسروں کی بیٹی کو ایک خوشی بھی نصیب نہیں ہونے دیتی۔
ایاز امیر کا خاندان پڑھا لکھا خاندان ہی ہوگا۔ پھر کہاں بھول چوک ہوئی کہ ڈمبیل سے بیوی کو مار دیا۔ اگر نشے میں بھی تھا تو بیوی پر ہی ہاتھ کیوں اٹھا۔ اتنا بے ہوش تھا تو کسی اور کو کیوں نہیں نشانہ بنایا؟ کیونکہ اس معاشرے میں عورت خاص طور پہ بیوی ہی سب سے آسان ہدف سمجھی جاتی ہے۔