Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asma Tariq
  4. Khuda Ka Azab Ya Miss Management

Khuda Ka Azab Ya Miss Management

خدا کا عذاب یا مس مینجمنٹ

خدایا رحم فرما، میرا ملک ڈوب رہا ہے۔۔ پاکستان کے متعدد علاقے سیلاب کی نظر ہو چکے ہیں۔۔ کئی جانیں جاچکی ہیں۔ متاثرین بے یارو مددگار ہیں۔۔ یہ برِصغیر کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب بن گیا ہے جہاں رپورٹ کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں فصلیں، گھر، مال مویشی اور زمینیں برباد ہو چکی ہیں۔ بے سرو سامانی کا عالم ہے۔۔ خدایا رحم فرما۔۔

ابھی کرونا سے تھوڑی سی معافی ملی تھی کہ مہنگائی نے آن دبوچا اور اب یہ سیلاب۔۔ خدا جانے ابھی اس کے اثرات کب تک رہتے ہیں۔۔ مگر فلحال اس مشکل کی گھڑی میں جو چیز کرنے کی ہے ہمیں اس پر توجہ دینی ہے۔۔ اپنے بہن بھائیوں کی مدد کرنی ہے۔۔ اور ہم جانے کن الجھنوں میں الجھنیں ہیں۔۔ کہیں سیاسی اختلافات ہیں تو کہیں نظریاتی تفرقات۔۔ کہیں جلسے ہو رہے ہیں تو کہیں جلوس نکل رہے ہیں۔۔ کہیں لوگ مر رہے ہیں اور کہیں خیموں کے دام بڑھ رہے ہیں۔۔ کہیں ملک ڈوب رہا ہے اور کہیں میڈیا سو رہا ہے۔

جب بھی ایسی کوئی آفت آتی ہے تو ہم ہمیشہ اسے خدا پر ڈال دیتے ہیں۔۔ خدا کا عذاب ہے۔۔ ہاں ہو سکتا ہے خدا کا عذاب ہو مگر ہمیشہ غریبوں اور مسکینوں پر ہی کیوں۔۔ جنکے پاس مجبوری اور لاچاری کے سوا کچھ نہیں۔۔ سارے عذاب اسی کےلیے کیوں جسکے پاس دولت اور خزانے نہیں۔۔ یہ عذاب کبھی حکمرانوں اور لٹیروں کا رخ کیوں نہیں کرتے۔۔ کیونکہ ان کے پاس لاکھ طریقے ہیں خود کو بچانے کیلئے۔۔

ہم ایسے حالات دیکھ دیکھ کر شاید اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ اب ہمیں فرق ہی نہیں پڑھتا۔۔ ہماری مس مینجمنٹ کی انتہا ہے، ہم ہمیشہ پہلے سو رہتے ہیں۔۔ ہم نے ملک کے ہر سسٹم کا ستیاناس کر دیا ہے۔۔ حکمرانوں کو تو اللہ ہی ہدایت دے تو کچھ ہو سکتا ہے۔۔ وگرنہ انہوں نے صرف عوام کو آپس میں لڑانا ہے۔۔ خدا را اگر یہ عذاب بھی ہے تو متاثرین سے زیادہ آپ قصور وار ہیں اور آپ کےلیے آزمائش ہے کہ آپ کیسا رویہ اپنانے ہیں۔۔ اور ہم موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اشیاء کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔۔ ہم خیموں کی قیمتوں آسمانوں میں لے جاتے ہیں۔۔ جہاں اپنا کوئی قانون اور نظام نہ ہو وہاں جنگل کا قانون چلتا ہے۔۔ اور ہمارا حال تو جنگل سےبھی برا ہے۔۔

ہم جانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمیں بھی قبر میں جانا ہے۔۔ ہمیں بھی مرنا۔۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔۔ ایسے میں کیا جواب دیں گے خدا کو۔۔

خدا را آئیں! اس مشکل کی گھڑی میں سارے اختلافات، سیاسی معاشرتی، مذہبی سب کو سائیڈ پر رکھ دیجئے اور بس مدد کیجئے۔۔ کیا کیجئے اب کچھ لوگوں نے اسے بھی دھندا بنا لیا تو ذرا دیکھ بھال کر قابل اعتماد اداروں کو اپنی امانت سونپیں۔۔ آپ کو تمام انفارمیشن انٹرنیٹ سے مل جائے گی پھر آپ کے بینک اور دیگر منی اکاؤنٹس کی ایپلیکیشنز پر ڈونیشنس کا ایک الگ باکس بنا ہوا ہے جس پر کلک کر کے کسی بھی رجسٹرڈ ادارے کو مدد فراہم کر سکتے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے خود انکی ٹیم کا حصہ بن کر بھی مدد کر سکتے ہیں۔۔

سیلاب متاثرین کی مدد کرنے والے تمام گروپس سے درخواست ہے جیسا کہ حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔۔ زیادہ سے زیادہ مدد کی ضرورت ہے۔۔ برائے مہربانی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔۔ آپ اکیلے جنگجو نہیں بن سکتے۔۔ بڑی تعداد میں متاثرین کو ریلیف دینے کے لیے آپ کو ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت ہے۔ دوسرے مدد کرنے والے گروپس، این جی اوز اور تنظیموں کے ساتھ جڑیں۔ اختلافات کو ختم کریں اور اپنی انا کو ایک طرف رکھیں۔۔ ایک سسٹم بنائیں۔۔ مدد کرنے والی تمام فورسز کا نیٹ ورک بنائیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔۔ ورنہ مزید گڑبڑ ہو جائے گی اور ہم مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پائیں گے۔۔

ہم جانتے ہیں کہ پاکستانی اور دنیا بھر سے بے شمار پاکستانی بڑی تعداد میں عطیہ کر رہے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب تمام مختلف علاقوں سے لوگوں کے چند گروہ صورت حال کو سمجھے بغیر خود ہی سب کچھ اپنی کنٹرول میں لینے لگتے ہیں۔ جہاں وہ کسی کو سننا نہیں چاہتے بس اکیلا ہیرو بننا چاہتے ہیں۔ جسکے نتیجے میں مس مینجمنٹ ہو رہی ہے۔۔ سب تک امداد نہیں پہنچ پا رہی۔۔

پیارے دوستوں، آپ کی مدد قابل ستائش مگر آپ اکیلے سب کچھ نہیں کر سکتے۔۔ یہاں کچھ اور چیزوں کو بھی دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے۔۔ جیسا کہ امداد کےلیے سامان مستحق لوگوں سے خریدیں تاکہ ان کا بھی بھلا ہو سکے۔۔ اپنے علاقوں سے سامان لے جانے کے علاوہ قریبی متاثرہ علاقوں سے بھی خریدیں تاکہ ان کی آمدن کا سلسلہ بھی چلتا رہے۔۔ ایسا سامان لے کر جائیں جسکی اشد ضرورت ہے۔۔ غیر ضروری سامان کا کوئی فائدہ نہیں۔۔

فوری ترجیحاتی اشیاء جنکی اشد ضرورت ہے، پینے کا صاف پانی، خشک دودھ، خشک خوراک(پکا ہوا کھانا اور اشیا ایک دن ہی نکالتا ہے)، چادریں، سلے ہوئے کپڑے جو فوری پہنے جا سکیں (خدارا کپڑے دیتے ہوئے انکی حالت کا ضرور خیال رکھیں وہاں کوئی انہیں ریپئیر نہیں کر سکتا)، خیمے، جانوروں کے لیے خشک چارہ، پلاسٹک کے جوتے(باقی کسی طرح کے جوتوں کی ضرورت نہیں)، سینیٹری پیڈز(خواتین کی بنیادی ہیں)، خشک ایندھن تاکہ وہ کھانے پینے کا انتظام کرسکیں۔۔ محفوظ علاقوں میں رہنے والے افراد کو بھی کچھ اقدامات کرنے ہوں گے، کھانے اور اناج کا خیال رکھیں، اسے ضائع مت ہو دیں۔۔

ضرورتیں آسان اور کم کر دیں کسی بھی اختلاف کے بغیر بس اپنا حصہ ڈالیں اور پروردگار سے رجوع کیجئے کہ وہ مشکلات آسان فرمائے۔

Check Also

Madrasa Registration Bill, Hukumat Ghalti Dohrane Ja Rahi Hai

By Amir Khakwani