Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asma Tariq/
  4. Aao Dunya Sudharein

Aao Dunya Sudharein

آؤ دنیا سدھاریں

مجھے نہ شروع سے ہی دوسروں کو اچھا انسان بنانے کا شوق تھا۔ سب کو سدھار کر جنت کمانی تھی۔ آس پاس ایسا ہی دیکھا تھا۔ سب ایک دوسرے کو سکھا رہے ہوتے تھے۔ دادا بابا کو، بابا چاچا کو، چاچا پھوپھو کو، پھوپھو ماما کو، ماما خالہ کو اور اسی طرح چل سو۔۔ باہر بھی یہی عالم تھا بس والا گاڑی والے کو، گاڑی والا رکشے والے کو، رکشے والا موٹر سائیکل والے کو اور وہ پیدل چلنے والوں کو آداب سکھاتا ہے۔ اور یوں ہر جگہ یہ سرکل چل رہا ہے جہاں سب کو دوسروں کے نامہ اعمال کی فکر ہے اور اسے سدھارنے کےلیے وہ ہر لمحہ جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ عمر اور سٹیٹس کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ آپکا سدھارنے کا رینک بھی بدلتا رہتا ہے۔

اسی طرح ہمیں بھی شوق ہوا چلا کہ ہمیں بھی دنیا سدھارنی ہے۔ اب ہم نے جس سے ملنا اسے اچھائی کی تلقین کرنی۔ کوئی چھوٹا بچا کہیں مل جائے لیکچر شروع، خیر ہم نے تو بڑوں کو نہیں چھوڑا تھا۔ ایک زمانے میں ہمیں بھی بڑے لیکچر سننا پڑے تھے مگر پھر جب سے زبان کا استعمال سیکھا۔ کانوں کا کام کافی کم ہو گیا۔ اب وہ کام بھی زبان سے ہی لینا شروع کر دیا۔

ہم نے سیکھا تھا کہ آپ کو جہاں بھی کوئی اخلاقی سبق ملے۔ آپ نے نظر ڈالے بغیر فوراً اسے دوسروں میں بانٹ دینا ہے اور ثواب حاصل کرنا ہے۔ آپ کے سامنے کوئی کچھ بھی کیوں نہ کر رہا ہو۔ آپکو کبھی اسکی تعریف نہیں کرنی۔ اسے سراہنا نہیں۔ بلکے اسکا غور سے مشاہدہ کریں اور اس میں سے کوئی نہ کوئی غلطی نکالیں اور اگلے کو سکھائیں کہ صحیح طریقہ کیا ہے۔

یہ سمجھنا ہے کہ اگلا کبھی بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ اور آپ کبھی غلط نہیں ہو سکتے۔ اسے ثابت کرنے کےلیے آپ کو چاہیے کتنی ہی دلیلیں اور وضاحتیں کیوں نہ پیش کرنی پڑیں۔ ریفرنس کےلیے آپ بڑی بڑی کتابیں اور بڑے بڑے لوگوں سے مدد لے سکتے ہیں۔ بس آپ کو ان کے اقوال کو اپنے ساتھ منسلک کرنا آنا چاہیے۔

اور پھر آپ کو ہر موقع پر دوسروں کو جج کرنا ہے۔ ہائے یہ ایسے کر رہی۔ ہائے یہ ایسے کر رہا۔۔ یہ تو شروع سے ایسا تھا۔۔ یہ تو شروع سے ہی ایسی تھی۔۔ سکول میں ہی ہمارے ٹیچرز ہمیں حلیے کی بنا پہلے ہی بتا سمجھا دیتے تھے کہ فلاں اچھی لڑکی نہیں۔۔ جو لڑکی سوال کرتی ہے۔ اچھا تیار ہوتی ہے۔ اپنے لباس اور شکل کا خیال ہے وہ اچھی لڑکی نہیں ہو سکتی۔۔ پھر اسی طرح ہر جگہ ہم لوگوں کو جج کرنے لگے اور لوگ ہمیں جج کرنے لگے۔۔ ہم انہیں تہذیب سکھانے لگے اور وہ ہمیں زندگی جینے کے طور طریقے۔۔ اور سچ بتاؤں اسکا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا بس بیچ میں نظریات کی چند دیواریں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ جو ایک دوسرے سے الگ کر دیتی ہیں۔

یوں سبھی سکھا رہے ہیں۔۔ اب سیکھنے کےلیے کوئی بچا ہی نہیں۔

اور یہ جو ہم بھاشن بانٹنے ہیں نہ۔۔ یہ ہمیشہ مجمعے میں ہی بانٹنا جاتا ہے۔ شور مچا کر۔۔ سب کو دکھا کر۔۔ خود کو صحیح ثابت جو کرنا ہوتا اور اسی لیے شاید یہ کام بھی نہیں کرتا۔۔ جنہیں تمہیں صرف جج کرنا ہے۔ تمہارا مذاق اڑانا، وہ کبھی تمہیں اکیلے میں، زار سے حل نہیں بتائے گا۔ وہ کبھی کسی کا پردہ نہیں رکھے گا۔ اسے صرف بھلائی کا، اچھائی کا ڈھنڈورا پیٹنا ہے۔

اور اگر کوئی تمہیں تنہائی میں راز سے کچھ کہہ رہا ہے، کچھ سمجھا رہا ہے تو ایک بار سوچ لینا۔۔ وہ کہیں نہ کہیں تمہارا بھلا چاہتا ہے مگر ہاں ضروری نہیں کہ اس کا کہا بالکل ہی ٹھیک ہو اور وہ تمہارے لیے کام کرے مگر ایک بار سوچنے میں کیا حرج ہے۔

ایک وقت مجھے لگتا تھا کہ صرف دو ہی لائنیں ہوتی ہیں۔ ایک اچھا اور ایک برا مگر دھیرے دھیرے یہ سمجھ آئی کہ یہ اتنا بھی آسان نہیں۔۔ اور شاید سفید اور کالا تو بہت کم ہے۔ زیادہ تر تو گرے ہے۔۔ جسے پہچانا اتنا آسان نہیں کہ آپ ایک سیکنڈ میں کوئی فیصلہ سنا سکو۔ اور پھر ہم نے انسانوں کو ان لسٹوں میں ڈالنا شروع کر دیا حالانکہ مسئلہ نظریات، عقائد اور طور طریقوں کا ہے۔ جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔۔ مگر ہم ان کی وجہ سے ہم انسانوں کو ہی مٹا ڈالتے ہیں، ختم کر دیتے ہیں۔

خیر بات ہو رہی تھی دوسروں کو سدھارنے کی جو مجھے بھی کرنا ہے مگر جب بھی میں بھاشن بانٹنے لگتی ہوں یا بانٹ چکی ہوتی ہوں۔ اب جو بھی ہو، ہم باز تھوڑی آتے ہیں۔ ہمیشہ اندر سے کوئی سوال اٹھانا شروع کر دیتا ہے۔ وہ کم بخت مجھے ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیتا ہے۔ ہاں بھئی تم نے بھی تو ایسا کیا تھا۔ دوسروں کو کیا سکھا رہی ہو؟ پہلے خود تو سیکھ لو۔۔ اور یہ آسان نہیں ہے۔۔

دوسروں کو سکھانا پھر زرا آسان ہے۔۔ مگر اس اندر والے کی وجہ سے میری استادی ہمیشہ ادھوری رہ جاتی ہے۔ اور ایسے تھوڑی چینج آئے گا جب سبھی دوسروں کو بدلنا چاہیں گے۔

کہتے ہیں کہ ایک آدمی بستر مرگ پر تھا۔ چہرے پر ملال آیاں تھا۔ ساتھیوں نے وجہ طلب کی تو کہنے لگا۔ میں جوان تھا تو اس جستجو میں رہا کہ دنیا بدلوں گا۔ دنیا کیا بدلنا تھی، میں تو ایک شخص کو بھی قائل نہ کر پایا۔ پھر شادی ہوئی تو طے کیا گھر والی کو بدلوں گا۔ اچھا انسان بناؤں گا مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔ الٹا اس نے مجھے بدل دیا۔ پھر بچے ہوئے تو ٹھان لیا کہ اب انہیں انقلابی بناؤں گا مگر ادھر بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ اب سوچتا ہوں تو پچھتاتا ہوں۔۔ میں نے ساری زندگی ضائع کر دی۔۔ دوسروں کو بدلنے میں۔ اور جسے بدلنا میرے ہاتھ میں تھا۔ اس پر میں نے کبھی کوئی محنت نہیں کی۔

اب سمجھ آئی کہ میں کسی کو بدل نہیں سکتا سوائے اپنے آپ کے اور یہ تبدیلی جب رونما ہو گی تو دنیا بھی بدل جائے گی۔

ہمارے بس میں صرف ہمارا اپنا آپ ہے، جس پر ہم نے روز تھوڑا کام کرنا ہے۔ اسے روز تھوڑا بہتر بنانے کی کوشش کرنی ہے۔ اور ایک دن تھوڑی سب ہو گا۔۔ روز محنت کرنی پڑے گی۔۔ کبھی کامیابی ملے گی تو کبھی نہیں۔۔ کبھی سب بہت اچھا ہونے لگے گا تو کبھی بھٹکنے لگے گا مگر آنکھیں کھلی رکھنی ہیں۔۔ کوشش کرنا نہیں چھوڑنا۔۔ اور اللہ سے مدد مانگنی ہے۔۔ اس کی توفیق ملے گی تو سب ہو جائے گا۔۔

ہاں اچھائی اور بھلائی کا پیغام شئیر کرو، اسے پھیلاؤ۔۔ اس میں کوئی برائی نہیں۔۔ بس خود کو بھول نہ جانا۔۔

Check Also

Aik Aur Yakum May

By Sajid Ali Shmmas