Saturday, 27 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aslam Nadaar Sulehri
  4. Dukhtar e Mashriq Ki Barsi

Dukhtar e Mashriq Ki Barsi

دخترِ مشرق کی برسی

دسمبر کا مہینہ پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی و جمہوری حلقوں کے لیے ہرسال ایک نہ ختم ہونے والا دکھ، سوالوں کا طوفان اور پرانے زخموں کی نئی یادیں لےکر آتا ہے، ایسا زخم وقت جس کی مرہم نہ بن سکا۔ وقت اور موسم بدلتے رہے لیکن دسمبر کا یہ زخم آج بھی تروتازہ ہے اور یہ بھرنے کانام نہیں لے رہا کیونکہ یہ ایک فرد کے نہیں بلکہ ایک نظریہ ایک خواب اور ایک عہد کا زخم ہے۔ ایک عہد اور نظریہ زخمی نہیں بلکہ لہولہان ہوا تھا۔

شہادتِ محترمہ بےنظیر بھٹو پاکستان کی تاریخ کا وہ المناک باب ہے جس کے ہر حرف پر خون آنسو اور سوال رقم ہیں۔ یہ سانحہ محض ایک سیاسی قائد کے قتل تک محدود نہیں بلکہ یہ عوام کے حقِ حکمرانی، آئین کی بالادستی اور جمہوری تسلسل پر کاری ضرب تھی۔ 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں گولی ایک انسان پر نہیں ایک نظریے پر چلائی گئی اس نظریے پر جو آمریت کے اندھیروں میں بھی عوام کے چراغ جلائے رکھتا تھا۔

بے نظیر بھٹو کی زندگی ابتدا ہی سے سیاست اور قربانیوں کے حصار میں رہی۔ ایک منتخب وزیر اعظم، قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی فیصلے کی آڑ میں تختۂ دار پر لٹکا دینا دراصل جمہوریت کے دل پر پہلا بڑا وار تھا۔ اس لمحے ایک بیٹی نے باپ کھویا اور ایک قوم نے اپنی امید۔ مگر یہی صدمہ بےنظیرکے لیے شکست نہیں بنا بلکہ عزم کی بنیاد بن گیا۔ انہوں نے طے کرلیا کہ وہ اپنے والد کے نظریے کو زندہ رکھیں گی، چاہے اس کی قیمت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔

جنرل ضیاء الحق کے دورِ آمریت میں بے نظیر بھٹو نے وہ صعوبتیں برداشت کیں جو مضبوط ترین اعصاب کے حامل انسان کو بھی توڑ سکتی تھیں۔ بار بار گرفتاریاں، قیدِتنہائی، شدیدگرمی میں جیل کی کوٹھڑیاں، علاج اور بنیادی سہولتوں سے محرومی یہ سب ان کے روزمرہ کا حصہ تھا۔ مگر انہوں نے قید کو کمزوری کے بجائے طاقت بنایا۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی ان کا یقین پختہ رہا کہ آمریت عارضی اور جمہوریت دائمی ہوتی ہے۔

قید و بند کے بعد جلاوطنی کا کرب آیا۔ وطن سے دوری، ماں دھرتی کی خوشبو سے محرومی اور کارکنوں سے فاصلے کے باوجود بے نظیربھٹو کی آواز خاموش نہ ہوئی۔ جلاوطنی میں بھی وہ پاکستان کے مظلوم عوام کا مقدمہ عالمی فورمز پر لڑتی رہیں۔ انہوں نے دنیا کو بتایا کہ یہ قوم آمریت کے سائے میں سانس نہیں لے سکتی اور بالآخر تاریخ نے ثابت کیا کہ ان کی آواز بے اثر نہیں گئی۔

1986ء میں وطن واپسی نے آمریت کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دیا۔ لاہور کی سڑکوں پر امڈ آنے والا انسانی سمندر اس بات کی گواہی تھا کہ عوام اپنی قائد کو سینے سے لگانے کے لیے بے تاب ہیں۔ دوسال بعد 1988ء میں بے نظیر بھٹو عالمِ اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ یہ کامیابی صرف ان کی نہیں تھی بلکہ ہر اس عورت ہر اس مظلوم اور ہر اس جمہوریت پسند کی تھی جو بند دروازوں کے پیچھے انصاف کا منتظر تھا۔

اقتدار میں آکر بھی ان کے لیے راستے ہموار نہ ہوئے۔ منتخب حکومتوں کی برطرفی، کردار کشی کی منظم مہمات، سیاسی سازشیں اور طاقتور حلقوں کی مزاحمت مسلسل ان کا تعاقب کرتی رہی۔ اس سیاسی کشمکش کے ساتھ خاندانی سانحات نے ان کے دل کو مزید زخمی کیا۔ شاہنواز بھٹو کی پراسرار موت اور مرتضیٰ بھٹو کی سرِعام شہادت ایسے زخم تھے جو شاید کبھی مندمل نہ ہو سکے مگر بے نظیر بھٹو نے ذاتی دکھ کو قومی مفاد پرقربان کردیا۔

2007ء میں وطن واپسی ان کی سیاسی زندگی کا سب سے نازک اور خطرناک مرحلہ تھا۔ انہیں واضح طور پر بتایا گیا کہ ان کی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں مگر انہوں نے خوف کے آگے سر جھکانے سے انکار کردیا۔ سانحہ کارساز انہیں ڈرانے اور انتخابی میدان سے باہر دھکیلنے کی ایک کوشش تھی۔ سینکڑوں کارکنوں کی شہادت کے باوجود وہ پیچھے نہ ہٹیں۔ زخمیوں کی عیادت، شہداءکے لواحقین سے ملاقات اور عوام کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونا ان کے حوصلے کی روشن مثال تھا۔

کارساز کے بعدان کی عوامی مقبولیت ایک نئی بلندی کو چھونے لگی۔ عوام انہیں محض ایک سیاست دان نہیں، جمہوریت کی علامت سمجھنے لگے۔ یہی بڑھتی ہوئی مقبولیت جمہوریت دشمن قوتوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگئی۔ جب ہر حربہ ناکام ہوگیا تو 27 دسمبر 2007ء کا خونی دن رقم کیا گیا۔ لیاقت باغ میں ہونے والا سانحہ آج بھی سوالات سے گھرا ہوا ہے۔ سکیورٹی کی سنگین ناکامیاں، شواہد کا ضائع ہونا اور حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوششیں اس سانحے کو مزید پراسرار اور دل خراش بنا دیتی ہیں۔

بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ عوام سڑکوں پر نکل آئے، آنسوؤں اور نعروں کے ساتھ اپنی قائد کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس نازک موقع پر صبر، برداشت اور جمہوری راستے کا انتخاب کیا وہی راستہ جو بے نظیر بھٹو کی سیاست کا محور تھا۔ انتقام کے بجائے آئین اور پارلیمان کی بالادستی کو ترجیح دی گئی، تاکہ شہید کا خواب زندہ رہ سکے۔

آج جب ہم شہادتِ بے نظیر کو یاد کرتے ہیں تو یہ صرف ایک ماضی کا حوالہ نہیں بلکہ حال اور مستقبل کے لیے ایک پیغام ہے۔ یہ پیغام کہ جمہوریت آسانی سے نہیں ملتی اس کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی جان دے کر یہ ثابت کردیاکہ نظریے کو گولیوں سے خاموش نہیں کرایا جاسکتا۔

وہ آج بھی گڑھی خدابخش میں آسودۂ خاک ضرور ہیں، مگر قوم کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ہر دسمبر ان کی یاد تازہ کرتا ہے ہر آنسو ان کے مشن کی گواہی دیتا ہےاور ہر جمہوریت پسنددل یہ عہد دہراتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت رائیگاں نہیں جائے گی۔ ان کا خون جمہوریت کی شمع بن چکا ہے ایسی شمع جس کو وقت کی آندھیاں بھی اسکو بجھا نہیں سکتیں۔

Check Also

Sohail Afridi Ko Lahore Mein Khushamdeed

By Najam Wali Khan