Zindagi Aye Zindagi
زندگی اے زندگی

ہم تری دھن میں پریشاں، زندگی اے زندگی
اور تو ہم سے گریزاں، زندگی اے زندگی
زندگی، ایک ایسا لفظ جو سننے میں محض تین چار حرفوں پر مشتمل ہے، مگر اس کے اندر کائنات کی تمام گہرائیاں، تمام راز، تمام المیے اور تمام خوشیاں چھپی ہوئی ہیں۔ ہم سب اسے جیتے ہیں، بھاگتے ہیں، گراتے اور سنبھالتے ہیں، مگر کبھی لمحہ بھر کو رُک کر یہ نہیں سوچتے کہ ہم آخر جیتے کس کے لیے ہیں؟ اور کیا واقعی ہم زندگی جی رہے ہیں یا محض وقت کے ساتھ رینگتے جا رہے ہیں؟
شاعر نے جب کہا:
"ہم تری دھن میں پریشاں، زندگی اے زندگی"
تو یہ صرف ایک مصرع نہیں تھا، یہ صدیوں کی بھٹکتی روحوں کی فریاد تھی۔ ہم سب زندگی کو حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس کا مفہوم پانا چاہتے ہیں، اس کی گہرائیوں کو چھونا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ زندگی ہمیں ہمیشہ ایک قدم دور، ایک موڑ آگے، ایک خواب پیچھے دکھائی دیتی ہے۔ گویا کوئی سراب ہو، جو ہم سے صرف اتنا دور ہوتا ہے کہ ہماری تمام توانائیاں اسے پانے میں کھپ جاتی ہیں، مگر وہ ہاتھ کبھی نہیں آتی۔
ہم نے زندگی کو مادی کامیابی، شہرت، دولت، آسائش اور دوسروں سے جیتنے کا دوسرا نام بنا لیا ہے۔ ہم سمجھ بیٹھے ہیں کہ اگر ہمارے پاس نئی گاڑی، بڑا گھر، اونچی نوکری، مہنگا لباس اور سوشل میڈیا پر جھوٹی مسکراہٹوں کے نیچے ہزاروں لائکس ہیں تو ہم نے زندگی کو پا لیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے زندگی کا مطلب کھو دیا ہے۔
"اور تو ہم سے گریزاں، زندگی اے زندگی"
کیا یہ گریز زندگی کا شکوہ ہے یا ہماری اپنی روش کا نتیجہ؟ زندگی تو شاید ہم سے کبھی گریزاں نہیں تھی، ہم ہی اس سے آنکھیں چرا بیٹھے۔ ہم نے سکون کو شور میں بدل دیا، رشتوں کو مقابلے میں، محبت کو مشغلے میں، عبادت کو رسم میں، علم کو ڈگری میں اور انسان کو محض ایک "یوزر" میں تبدیل کر دیا۔
ایک وقت تھا جب انسان انسان کا ہمدرد تھا، ہمسایہ دروازہ کھٹکھٹاتا تو دل خوش ہو جاتا، مہمان آتا تو چولہے کی آنچ میں تیز تپش آ جاتی۔ مگر آج، آج ہم موبائل میں مصروف ہیں، سکرین پر جھکے ہوئے، دلوں سے خالی، نظروں سے اجنبی اور جذبات سے محروم۔
"تو کہیں ساقی گری میں کھو گئی ہے"
زندگی جیسے محض عیش و عشرت، رنگ و نور، پارٹیوں، سیر و تفریح اور وقتی خوشیوں کا نام بن گئی ہو۔ ہم نے اسے ایک تفریحی فلم سمجھ لیا ہے جس کا انجام ہمیں سوچنا ہی نہیں۔ وقت کی ہر رات کو جشن بنا کر گزارنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اگلی صبح ایک نئی خالی پن کے ساتھ جاگتے ہیں۔ ہم زندگی کو یادگار لمحات میں نہیں، یادگار چیزوں میں تلاش کر رہے ہیں۔ ہمیں یاد نہیں کہ آخری بار کسی کی آنکھ میں آنسو دیکھ کر ہم نے کیا محسوس کیا تھا۔ ہم بھول چکے ہیں کہ کسی غریب کے کپکپاتے ہاتھ کو تھام لینا، کسی ماں کے لرزتے دل کو سہارا دینا، کسی بچے کی آنکھ میں خواب جگا دینا، یہی زندگی تھی۔
اور جب شاعر کہتا ہے:
"اور یہاں ڈس گیا انساں کو انساں"
تو گویا یہ ایک جملہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کی لاش پر لکھا گیا کتبہ ہے۔ انسانیت اپنی قبر میں دفن ہو چکی ہے اور اس کا قاتل کوئی اور نہیں، خود انسان ہے۔ اب نہ دل صاف ہیں، نہ نیتیں، نہ لہجے، نہ باتیں۔ ہم دوسروں کو نیچا دکھانے، ہرانے، روندنے اور پیچھے چھوڑنے کے خبط میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ہم جیتنے کے لیے لڑتے ہیں، مرنے کے لیے جیتے ہیں اور پھر پچھتاوے میں ساری عمر گزارتے ہیں۔
زندگی کے اصل مفہوم کو ہم نے کبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ زندگی وہ ہے جو دوسروں کو جینے دے۔ جو درد بانٹے، جو مسکراہٹ بکھیرے، جو سچ بولے، جو نرم روی رکھے۔ زندگی وہ ہے جو دعا بن جائے، جو سایہ بن جائے، جو ہاتھ تھام لے۔ لیکن افسوس کہ ہم نے زندگی کو مقابلہ، دوڑ، شور، دھوکہ، لالچ اور دکھاوا بنا دیا۔ ہم خود کو کامیاب سمجھتے ہیں لیکن اصل میں ایک ناکام معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں جہاں ہر شخص خالی ہے، تنہا ہے، بیزار ہے۔
ذرا رک کر سوچیے۔ کیا زندگی یہ تھی؟
کیا یہ دوڑ دھوپ، یہ تھکن، یہ کھوکھلے قہقہے، یہ دکھاوے، یہ مصنوعی تعلقات، یہ اندھی خواہشیں، یہ بے رحم کاروبار، یہ حسد، یہ بغض، یہ کینہ، یہ نفس پرستی، یہ خودغرضی، کیا یہی زندگی ہے؟ نہیں!
یہ تو موت کی جانب بڑھتا ہوا قافلہ ہے جس نے اپنے راستے میں جینے والے تمام انسانوں کو کچل دیا ہے۔
اصل زندگی وہ ہے جس میں کسی کی تکلیف پر دل کانپ جائے۔ جس میں وقت نکال کر کسی کو سنا جائے۔ جس میں معاف کیا جائے، شکریہ کہا جائے، راستہ دیا جائے، نرم بات کی جائے۔ وہ زندگی جو خدا کی بندگی میں گزرے، جو ماں باپ کی دعاؤں میں رچے، جو اولاد کے روشن چہروں میں جھلکے، جو رشتہ داروں کے ساتھ صبر، محبت اور عفو میں بسر ہو۔ جو بیکار باتوں میں نہیں، مفید کاموں میں صرف ہو۔ جو اپنی ذات سے آگے بھی کچھ دیکھے۔
ہم نے جینا تو سیکھا ہی نہیں۔ ہم نے صرف گزارا کیا۔ ہم صبح جاگتے ہیں، دفتر جاتے ہیں، تناؤ جھیلتے ہیں، پیسہ کماتے ہیں، واپسی پر ٹی وی دیکھتے ہیں، سوتے ہیں اور اگلا دن بھی ویسا ہی ہوتا ہے۔ گویا ایک مشین کی طرح زندگی۔ نہ خود کو جاننے کی فرصت، نہ خدا کو پہچاننے کی فرصت، نہ کسی اور کا درد سننے کی فراغت۔
زندگی کو معنی تب ملتے ہیں جب ہم اسے بانٹتے ہیں۔ جب ہم اپنے وقت میں سے کسی کو دیتے ہیں، جب ہم کسی کو بے لوث محبت دیتے ہیں، جب ہم کسی کا ہاتھ تھام کر کہتے ہیں: "میں تمہارے ساتھ ہوں"۔
زندگی جب تک صرف اپنی ذات کے گرد گھومتی ہے، ایک خالی دائرہ بن جاتی ہے۔ لیکن جب یہ دوسروں کے ساتھ جڑتی ہے تو ایک مکمل دائرہ بن جاتی ہے، جسے سکون کہتے ہیں، اطمینان کہتے ہیں، اصل زندگی کہتے ہیں۔
یہ زندگی ایک سفر ہے، مگر یہ سفر صرف قدموں سے طے نہیں ہوتا، دل سے طے ہوتا ہے اور دل وہی ہے جو نرم ہو، جو دوسروں کے لیے دھڑکے، جو صرف خود کی نہیں، دوسروں کی بھلائی بھی چاہے۔ اگر آپ نے آج کسی یتیم بچے کا سر سہلایا، کسی بوڑھے کو سڑک پار کرائی، کسی کو معاف کر دیا، کسی غریب کا بل ادا کر دیا، کسی طالبعلم کی فیس ادا کر دی، کسی کو عزت سے بلایا، کسی کے دکھ میں شرکت کی، تو آپ نے زندگی کو پا لیا۔
یہ زندگی بہت مختصر ہے۔ بہت نازک۔ بہت ناپائیدار۔ کل کس نے دیکھا ہے؟
کسی کی اچانک موت کی خبر ہمیں چونکا دیتی ہے، مگر ہم اگلے ہی لمحے پھر اسی لایعنی مصروفیت میں کھو جاتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ہم بھول جاتے ہیں کہ وہی لمحہ کل ہمارے لیے بھی آ سکتا ہے۔
خدارا، رک جائیے!
سوچ لیجیے!
جاگ جائیے!
زندگی کوئی فلم نہیں جس کے آخر میں سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ یہاں ہر لمحہ فیصلہ کن ہوتا ہے۔ آج جو بول دیا، وہ واپس نہیں آئے گا۔ آج جو چوٹ دی، وہ رہ جائے گی۔ آج جو معافی نہیں مانگی، کل دیر ہو جائے گی۔ آج جو اچھا کر سکتے تھے، کل شاید وقت نہ ملے۔
زندگی اے زندگی، ہم نے تجھے ضائع کر دیا۔
ہم نے تیری اصل کو، تیرا نور، تیرا سکون، تیری بندگی، تیری محبت، تیری انسانیت، سب کچھ بیچ دیا۔
لیکن شاید ابھی وقت ہے۔ شاید ابھی کچھ لمحے باقی ہیں۔
آیئے، انہی لمحوں کو زندگی بنا لیں۔
آیئے، ایک بار پھر انسان بن جائیں۔
آیئے، اپنے بچوں کو اصل زندگی دینا سکھائیں – وہ زندگی جو اخلاق، کردار، محبت، قربانی، علم اور خدا کی رضا پر مشتمل ہو۔
کیونکہ جب آخری سانس آئے گی۔
تو گاڑی، بنگلہ، نوکری، لباس، موبائل، بینک بیلنس، سب پیچھے رہ جائے گا۔
بس رہ جائے گی ایک چیز۔
آپ نے زندگی میں کتنے دل جیتے؟
کتنے دکھ کم کیے؟
کتنے آنسو پونچھے؟
کتنے چہروں پر مسکراہٹ لائی؟
اور کیا آپ نے خود کو پا لیا؟
خدا کو پا لیا؟
اگر ہاں۔
تو آپ نے واقعی زندگی جی لی۔
ورنہ۔
"ہم تری دھن میں پریشاں، زندگی اے زندگی"
ہی رہ جائے گا۔
اس کالم کا سرچشمہ سید جعفر شیرازی کی دل سے نکلی نظم ہے۔ تو آئیے، دلوں کی گہرائی سے، روح کی نرمی سے، سب مل کر اسے گنگناتے ہیں:
ہم تیری دُھن میں پریشاں، زندگی اے زندگی
اور تُو ہم سے گریزاں، زندگی اے زندگی
محوِ حیرت ہیں، کہ تجھ کو ڈھونڈنے جائیں کہاں
منزلیں ہیں خاک ساماں، زندگی اے زندگی
انجمن آرا ہے تُو غیروں میں کب سے اور ہم
پِھر رھے ھیں چاک داماں، زندگی اے زندگی
تجھ سے کٹ کر مثلِ گرد و باد، آوارہ منش
ہم ہیں اور آلامِ دَوراں، زندگی اے زندگی
تُو کہیں ساقی گری میں کھو گئی ہے اور یہاں
ڈس گیا انساں کو انساں، زندگی اے زندگی
تجھ کو پاکر بھی نہ تھا، ہم کو سکونِ دل نصیب
تجھ کو کھو کر بھی پشیماں، زندگی اے زندگی

