Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Zameer Ka Imtihan, Medical Taleem, Doulat Ya Khidmat

Zameer Ka Imtihan, Medical Taleem, Doulat Ya Khidmat

ضمیر کا امتحان، میڈیکل تعلیم، دولت یا خدمت

پاکستان کے اخبارات میں آج کل ایک عجیب دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ایک طرف نجی میڈیکل کالجز اپنے اشتہارات کے ذریعے اپنے مؤقف کو "آوازِ حق" بنا کر پیش کر رہے ہیں، دوسری جانب پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) اپنے عزم و اختیار کا اعلان کرتے ہوئے اس نظام کو قانون کے دائرے میں رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ دو متضاد آوازیں دراصل ہمارے تعلیمی نظام کی اس بنیادی کشمکش کی علامت ہیں جہاں علم اور دولت، خدمت اور منافع آمنے سامنے کھڑے ہیں۔

چند روز پہلے انہی نجی میڈیکل کالجز کے ایک اشتہار پر ہم نے تعمیری تنقید کی تھی۔ اس میں ہم نے نشاندہی کی کہ کس طرح یہ ادارے اپنے مالی مفادات کے تحفظ کے لیے ایسے تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں جیسے وہ قوم کی خدمت کر رہے ہوں، حالانکہ وہ در حقیقت اپنے منافع کے تحفظ کے لیے قانون سے اوپر اٹھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ جب بھی کوئی ادارہ ان کی من مانیوں پر روک لگانے کی بات کرتا ہے تو یہ "تعلیمی خدمت" کے نام پر بلیک میلنگ شروع کر دیتے ہیں۔ کبھی کالجز بند کرنے کی دھمکی، کبھی طلبہ کے مستقبل کو ہتھیار بنا کر دباؤ ڈالنے کی کوشش۔

اس پس منظر میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا حالیہ اشتہار ایک تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوتا ہے۔ اس میں واضح عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ کسی دباؤ یا دھمکی کو خاطر میں لائے بغیر قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے گا۔ یہی وہ اصول ہے جس پر کسی بھی ریاست کا وقار قائم ہوتا ہے۔ اداروں کو اگر بلیک میل کیا جا سکے تو انصاف دم توڑ دیتا ہے اور اگر قانون بے اثر ہو جائے تو علم بھی سودا بن جاتا ہے۔

ہم، والدین اور شہری، پی ایم ڈی سی کے ساتھ ہیں۔ لیکن اندھی حمایت کے ساتھ نہیں۔ ہم ان کے اچھے اقدامات کی تحسین کرتے ہیں مگر ان کی کمزوریوں کو بھی اجاگر کرتے رہیں گے۔ ایک درد مند والد کے طور پر، میں ایک ایسے مسئلے کی جانب توجہ دلانا چاہتا ہوں جو برسوں سے نظرانداز ہے: بغیر خاندان اوورسیز رہائش پذیر پاکستانیوں کے بچوں کے لیے مخصوص میڈیکل کوٹہ۔

یہ کوٹہ اب صرف اُن خاندانوں کے لیے محدود کر دیا گیا ہے جو بیرونِ ملک اپنے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ فیصلہ اُن ہزاروں پاکستانیوں کے لیے زیادتی کے مترادف ہے جو روزی کے لیے پردیس میں ہیں مگر اُن کے بچے وطن میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ کیا ان کے والدین کم محنت کرتے ہیں؟ کیا اُن کی کمائی میں کم قربانی شامل ہے؟ اُنہیں اس حق سے محروم کرنا انصاف نہیں بلکہ احساسِ بےگانگی کو بڑھانا ہے۔

دوسرا بڑا مسئلہ نجی میڈیکل کالجز کی سالانہ فیس ہے جو اب اٹھارہ لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔ بظاہر یہ حد طے کی گئی ہے مگر عملی طور پر اکثر ادارے اس سے زیادہ رقم مختلف حیلوں سے وصول کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ فیس کہاں جا رہی ہے؟ کیا اس کا کوئی شفاف آڈٹ موجود ہے؟ کیا یہ رقم واقعی تدریسی معیار کی بہتری پر خرچ ہو رہی ہے یا صرف منافع کے حساب میں ضم ہو جاتی ہے؟

یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ ایک انجینئرنگ یا آئی ٹی کے طالب علم سے اس کا دسواں حصہ فیس لی جاتی ہے، مگر میڈیکل تعلیم گویا ایک کاروبار بن چکی ہے جہاں داخلہ امیر کے لیے محفوظ ہے اور غریب کے لیے خواب۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فیس کا مکمل آڈٹ ہو۔ یہ دیکھا جائے کہ ادارے تعلیم پر کتنا خرچ کرتے ہیں، اساتذہ کو کتنا معاوضہ دیتے ہیں، طلبہ کو کون سی سہولیات فراہم کرتے ہیں اور منافع کتنا رکھتے ہیں۔ اگر یہ فیس دوسری تعلیمی فیلڈز سے غیر متوازن ہے، تو اسے کم کیا جائے۔ میڈیکل تعلیم قوم کی خدمت کے لیے ہے، سرمایہ کاری کے لیے نہیں۔

یہ ملک اُن ڈاکٹروں کو نہیں چاہتا جو فیسوں کے بوجھ تلے دب کر اپنی انسانیت کھو دیں۔ ہمیں وہ ڈاکٹر چاہییں جو درد بانٹنا سیکھیں، نہ کہ دولت کمانا۔ لیکن اگر نظام ہی ایسا ہو جو ایک نوجوان کو علم کے حصول سے پہلے قرض میں مبتلا کر دے، تو پھر ہم اخلاقی طور پر کیسا معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں؟

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی ذمے داری صرف کالجز کو رجسٹر کرنا نہیں، بلکہ یہ بھی دیکھنا ہے کہ ان اداروں میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر صرف ڈگری یافتہ نہیں بلکہ کردار یافتہ بھی ہوں۔ اگر ادارے دولت کے غلام بن گئے تو طلبہ بھی دولت کے پجاری بن جائیں گے اور یہ وہ لمحہ ہوگا جب انسانیت علم سے محروم ہو جائے گی۔

آخر میں میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ پی ایم ڈی سی کی نیت اور سمت درست ہے، مگر اسے مستقل مزاجی اور شفافیت کے ساتھ اپنے قوانین پر عمل درآمد کرانا ہوگا۔ اداروں کے دباؤ میں آنا قومی مفاد سے غداری کے مترادف ہے۔ قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہے، مگر آپ بھی اس قوم کے بچوں کے ساتھ کھڑے رہیں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan