Xi Jinping Ke Khutoot, Shanghai Ke Asatza Ke Naam Khat (3)
شی جن پنگ کے خطوط، شنگھائی کے اساتذہ کے نام خط (3)

شنگھائی کے دریائے ہوانگ پو کے کنارے ایک دوپہر تھی جب سورج کی نرم کرنیں شیشے کے کمرے میں اتر رہی تھیں۔ چند بزرگ شہری ایک میز کے گرد بیٹھے تھے، آنکھوں میں چمک اور دلوں میں ایک خاص ولولہ۔ ان کے سامنے ایک خط رکھا تھا۔ ایک ایسا خط جس نے ان کی زندگیوں میں ایک نئی روشنی بھر دی۔ یہ خط چین کے صدر شی جن پِنگ کا تھا، جو انہوں نے شنگھائی کے ایک منفرد تعلیمی گروہ "لاو یانگ شو" یعنی "بوڑھے پاپلر" کے نام لکھا تھا۔
یہ گروہ عام اساتذہ کا نہیں ، بلکہ اُن بزرگ شہریوں کا ہے جنہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کو آرام کا وقت نہیں سمجھا بلکہ خدمتِ خلق کا نیا باب بنایا۔ ان میں ریٹائرڈ افسران، فوجی، اساتذہ، ماہرین اور وہ سب شامل ہیں جنہوں نے زندگی بھر کام کیا اور اب چاہتے ہیں کہ اپنی محنت، تجربے اور شعور سے نئی نسل کو کچھ واپس لوٹائیں۔ وہ شہر کے مختلف علاقوں میں مفت لیکچر دیتے ہیں ۔ کبھی کمیونٹی ہال میں ، کبھی اسکولوں میں ، کبھی فیکٹریوں یا کمپنیوں میں ۔ ان کے موضوعات زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہوتے ہیں : پارٹی کی نظریاتی تعلیمات سے لے کر شہروں کی ترقی، معیشت، ماحولیات اور روزمرہ کے مسائل تک۔
صدر شی جن پِنگ نے ان "بوڑھے درختوں" کے خط کا جواب نہایت محبت، احترام اور حوصلہ افزائی کے ساتھ دیا۔ اپنے خط میں انہوں نے کہا کہ یہ ایک نہایت بامعنی اقدام ہے جو تاریخ، نظریے اور تجربے کو عوام سے جوڑتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ شہر عوام کے لیے بنتے ہیں اور عوام کے ہی ذریعے پروان چڑھتے ہیں ، اس لیے ان اساتذہ کا کام صرف درس دینا نہیں بلکہ شہری شعور کو بیدار کرنا ہے۔ صدر شی نے ان بزرگ اساتذہ کو کہا کہ وہ مزید لوگوں کو اس تصور سے روشناس کرائیں کہ "شہر انسانوں کے لیے ہے، عمارتوں کے لیے نہیں"۔
ان میں ایک خاتون، ہوانگ باومئی، جن کی عمر 93 برس ہے، خوشی سے کہتی ہیں : "صدر شی کا خط ہمارے لیے توانائی اور حوصلے کا نیا سرچشمہ ہے۔ میں جوان نہیں رہی، مگر ہر لیکچر کے بعد خود کو تازہ دم محسوس کرتی ہوں۔ جب میں لوگوں کو شنگھائی اور چین میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں بتاتی ہوں تو لگتا ہے جیسے خود تاریخ کا حصہ بن رہی ہوں"۔
ہوانگ کی عمر کے باوجود ان کی چال سیدھی، آنکھوں میں چمک اور لہجے میں یقین ہے۔ وہ چین کی پہلی نسل کی "ماڈل ورکرز" میں سے ہیں جنہیں 1950 کی دہائی میں قومی سطح پر اعزاز ملا۔ صدر شی نے 2021 میں انہیں"یکم جولائی میڈل" دیا۔ وہ اعلیٰ ترین اعزاز جو چین ان لوگوں کو دیتا ہے جنہوں نے پوری زندگی ملک کے لیے وقف کر دی۔ وہ 42 برس تک ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں کام کرتی رہیں اور آج بھی اپنی کہانیوں کے ذریعے نئی نسل کو محنت، جدت اور عزم کا پیغام دیتی ہیں ۔
وہ بتاتی ہیں کہ جب وہ فیکٹری میں تھیں تو پیداوار بڑھانے کے لیے انہوں نے کئی تجربے کیے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ وہ اکیلی 800 مشینوں کو ایک ساتھ چلاتی تھیں، جس سے پیداوار دگنی ہوگئی۔ ان کے اس تجربے نے پورے ملک میں کپڑے کی صنعت کو نئی سمت دی۔ ہوانگ کہتی ہیں ، "مجھے ایک فلم میں کام کرنے کی پیشکش بھی ہوئی، مگر میں نے انکار کر دیا۔ میں نے کہا میرا فن فلم نہیں ، بُنائی ہے"۔
یہ الفاظ اس نسل کی روح کی عکاسی کرتے ہیں ۔ وہ نسل جو خاموشی سے تعمیر کرتی ہے اور کبھی اپنی خدمت کا دعویٰ نہیں کرتی۔ وہ کہتی ہیں : "جب تک سانس ہے، میں بولتی رہوں گی۔ چاہے بچے ہوں یا نوجوان، میں چاہتی ہوں کہ وہ اپنے شہر، اپنی سرزمین اور اپنی تہذیب پر فخر کریں"۔
ہوانگ کی طرح، 75 سالہ ہو جن بھی اس پروگرام کے سرگرم رکن ہیں ۔ وہ کہتے ہیں : "ہماری کوشش یہ ہے کہ بڑے موضوعات کو سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تاکہ عام لوگ سمجھ سکیں کہ چین کی ترقی ان کی اپنی زندگیوں سے کیسے جڑی ہوئی ہے۔ "
ہو جن کبھی یانگ پُو ضلع کی حکومت میں افسر تھے۔ وہ اپنی تقریروں میں بتاتے ہیں کہ کس طرح شنگھائی کے یہ علاقے صنعتی انقلاب کے زمانے میں "گولڈن بیلٹ" کہلاتے تھے، پھر وقت کے ساتھ زوال آیا اور یہ "رسٹ بیلٹ" بن گئے، لیکن آج جدید ترقی اور ماحول دوستی کی بدولت یہی علاقے "خوبصورت پٹی" بن چکے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں : "ہم ریٹائر ہو گئے ہیں مگر ہمارا فرض ختم نہیں ہوا۔ ہم اب بھی لوگوں کے درمیان جا کر شہر کو انسانوں کے لیے بہتر بنانے کا پیغام دیتے ہیں"۔
"بوڑھے پاپلر" گروہ نے صرف پانچ برس میں 2600 سے زائد مفت لیکچر دیے ہیں ۔ ان کے سامعین میں بچے، نوجوان، مزدور، خواتین، اساتذہ اور بزرگ سب شامل ہیں ۔ 75 سالہ لی پے رونگ اب اپنے لیکچر صرف بزرگ شہریوں کے لیے ترتیب دیتی ہیں ۔ وہ انہیں موبائل فون استعمال کرنا سکھاتی ہیں ، ایپلی کیشنز سمجھاتی ہیں اور ساتھ ہی الیکٹرانک فراڈ سے بچاؤ کے طریقے بتاتی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں : "ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بزرگ لوگ بھی جدید ٹیکنالوجی کے مزے لے سکیں۔ جب صدر شی نے ہمیں جواب دیا تو دل میں فخر کا ایک نیا احساس پیدا ہوا۔ ہم عمر رسیدہ ضرور ہیں ، مگر بیکار نہیں ۔ ہماری، سلور جنریشن اب بھی چمک سکتی ہے"۔
64 سالہ شن پی ہوا، جو پہلے ایک ٹیکنالوجی کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر تھیں، اب نوجوانوں کے ساتھ انٹرنیٹ کمپنیوں میں لیکچر دیتی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ نوجوان نسل مصروف ہے، اس لیے وہ آدھے گھنٹے کی گفتگو میں کام، دباؤ اور بے روزگاری کے خدشات پر کھل کر بات کرتی ہیں ۔ اکثر نوجوان انہیں"آفیس کی دادی" کہہ کر بلاتے ہیں ۔ کچھ نوجوان تو اب اپنی پریشانیاں ان سے شیئر کرتے ہیں ۔ شن پی ہوا کہتی ہیں : "ہم نہ صرف لیکچر دیتے ہیں بلکہ سننے اور سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔ صدر شی کا خط میرے لیے عزت کا سب سے بڑا نشان ہے۔ اب میرا مقصد یہ ہے کہ میں ایک ہرے بھرے درخت کی طرح اپنی توانائی شہر کے حسن میں شامل کروں"۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ "بوڑھے پاپلر" پروگرام صدر شی جن پِنگ کے ایک سابقہ بیان سے متاثر ہو کر 2020 میں شروع ہوا۔ 2019 میں شنگھائی کے ایک دورے کے دوران صدر شی نے کہا تھا کہ "شہر عوام کے ذریعے بنتے ہیں اور عوام کے لیے وجود رکھتے ہیں"۔ اسی تصور نے یانگ پُو ضلع کی انتظامیہ کو یہ پروگرام شروع کرنے پر آمادہ کیا۔
آج اس میں 300 سے زائد ریٹائرڈ شہری شامل ہیں جنہیں بولنے کا فن آتا ہے، سوچنے کی صلاحیت ہے اور خدمت کا جذبہ ہے۔ اب تک اس پروگرام کے لیکچر سننے والے افراد کی تعداد دو لاکھ اسی ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔
نئی نسل کو اس پیغام سے جوڑنے کے لیے ان اساتذہ نے ڈیجیٹل میدان میں بھی قدم رکھا۔ اب "بوڑھے پاپلر" گروہ کے اکاؤنٹس مقبول ویڈیو پلیٹ فارمز جیسے بیلی بیلی پر موجود ہیں ، جہاں ان کے لیکچرز براہِ راست نشر ہوتے ہیں ۔ ایک ہوانگ باومئی کے لیکچر نے صرف ایک دن میں پچاس ہزار سے زائد ناظرین کو متوجہ کیا۔
ایک نوجوان ملازم شو یی فان کہتا ہے: "میں نے ان کے لیکچر دیکھے ہیں ، یہ صرف تعلیم نہیں دیتے بلکہ توانائی دیتے ہیں ۔ ان کے جذبے سے ہمیں یہ یقین ملتا ہے کہ ہم بھی اپنے شہر کو بہتر بنانے میں حصہ لے سکتے ہیں"۔
یہی جذبہ اسکول کے بچوں تک بھی پہنچ رہا ہے۔ پانچویں جماعت کی طالبہ چنگ یونُو کہتی ہے: "ان بزرگوں کی کہانیاں سن کر احساس ہوتا ہے کہ ہم پر بھی ذمہ داری ہے۔ ہمیں پڑھنا ہے، بڑھنا ہے اور اپنے ملک کو مزید خوبصورت بنانا ہے"۔
شاید یہی وہ لمحہ ہے جسے صدر شی جن پِنگ نے محسوس کیا کہ ایک شہر صرف عمارتوں سے نہیں بنتا، بلکہ ان دلوں سے بنتا ہے جو اس میں دھڑکتے ہیں ۔ ان کے خط نے ان بوڑھے درختوں کو پھر سے ہرا کر دیا ہے۔ وہ اب سایہ بھی دے رہے ہیں ، خوشبو بھی۔
یہ وہ بزرگ ہیں جو اپنی زندگی کے خزاں میں بھی بہار بانٹ رہے ہیں ۔ ان کے چہروں پر جھریاں ضرور ہیں ، مگر ان کے خواب آج کے نوجوانوں سے زیادہ تازہ ہیں ۔ صدر شی کا خط ان کے لیے صرف الفاظ نہیں ، بلکہ اعتماد کی ایک مہر ہے کہ وہ اب بھی قوم کے معمار ہیں ۔
یہی "بوڑھے پاپلر" دراصل چین کے نئے عہد کی علامت ہیں ۔ جڑوں سے جڑے، آسمان کی طرف بڑھتے اور آنے والی نسلوں کے لیے سایہ بننے والے۔ ان کی مثال بتاتی ہے کہ عمر بڑھنے سے انسان چھوٹا نہیں ہوتا، بلکہ درخت کی طرح اونچا ہو جاتا ہے۔ اگر اس کے اندر خدمت، محبت اور ایمان باقی ہو۔
یوں لگتا ہے جیسے صدر شی کے الفاظ نے ایک بار پھر ان بزرگوں کے دلوں میں زندگی کی ندی دوڑا دی ہو۔ وہ اب بھی اپنے شہر کے لیے سانس لے رہے ہیں ، اپنے لوگوں کے لیے بول رہے ہیں اور اپنی اگلی نسل کے لیے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ یہی خواب، یہی خدمت اور یہی محبت ایک قوم کو زندہ رکھتی ہے۔
بوڑھے درخت، مگر زندہ خواب۔

