Xi Jinping Ke Khutoot, Aik Super Power Ke Sadar Ka Insan Dost Dil (2)
شی جن پنگ کے خطوط، ایک سپر پاور کے صدر کا انسان دوست دل (2)

دنیا میں کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جنہیں وقت کمزور نہیں کرتا بلکہ اور مضبوط بناتا ہے۔ یہ رشتے مادی نہیں، جذباتی ہوتے ہیں۔ خلوص، اعتماد اور باہمی احترام کے بندھن پر قائم۔ چین اور برازیل کے درمیان ایسا ہی ایک تعلق ہے جو بحرِ اوقیانوس کی وسعتوں اور پہاڑوں کے فاصلے کو پار کرکے دو قوموں کے دلوں کو جوڑتا ہے۔ اسی دوستی کی ایک خوبصورت جھلک اس وقت سامنے آئی جب چین کے صدر شی جن پِنگ نے برازیل کے دوستوں کو ایک ایسا خط لکھا جس میں جذبات، تہذیب اور مستقبل کی امید سب کچھ ایک ساتھ بہہ رہا تھا، بالکل ویسے جیسے یانگ ژی اور ایمیزون کے دریا۔ جو اپنے اپنے ملکوں کی طرح زندہ اور زرخیز ہیں۔
چینی تہذیب کا ایک قدیم عقیدہ ہے کہ "خط سونا ہوتا ہے"۔ صدیوں سے اہلِ چین جانتے ہیں کہ ایک خط میں صرف الفاظ نہیں ہوتے، احساسات، خلوص اور پیغام کی حرارت بھی چھپی ہوتی ہے۔ صدر شی جن پِنگ اس روایت کے امین ہیں۔ اپنی بے پناہ مصروفیات، عالمی ذمہ داریوں اور مسلسل دباؤ کے باوجود وہ ان خطوط کو پڑھنے، سمجھنے اور جواب دینے کے لیے وقت نکالتے ہیں۔ یہ وہ عمل ہے جو ان کی شخصیت کے سب سے حسین پہلو، انسان دوستی، تعلق اور تواضع کو نمایاں کرتا ہے۔
یہ تازہ خط برازیل کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے سو سے زائد افراد کے ایک مشترکہ مکتوب کے جواب میں لکھا گیا، جس میں انہوں نے چین کی حکومت، اداروں اور یونیورسٹیوں کا شکریہ ادا کیا تھا۔ ان افراد میں سابق نائب میئر اینریک ٹیشیرا، برازیل-چائنا فرینڈشپ ایسوسی ایشن کے اراکین، ساو پالو یونیورسٹی کے اساتذہ اور کوپاکبانا فورٹ آرکسٹرا کے فنکار شامل تھے۔ ان سب کا کہنا تھا کہ چین کے تعاون نے برازیلی عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے، ثقافتی تبادلوں کو فروغ دینے اور تعلیم کے میدان میں نئے دروازے کھولنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
صدر شی نے ان کے خط کا جواب صرف شکریے کے طور پر نہیں بلکہ ایک گہری سوچ کے اظہار کے طور پر دیا۔ انہوں نے کہا کہ چین اور برازیل کی دوستی نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے اور گزشتہ پچاس برسوں سے دونوں ممالک نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ خوشیوں میں بھی اور آزمائشوں میں بھی۔ یہ دوستی پہاڑوں اور سمندروں سے بڑی ہے اور اسے اب دونوں قوموں کے عوام کو اس طرح رواں رکھنا ہے جیسے یانگ ژی اور ایمیزون کے دریا بہتے رہتے ہیں، کبھی نہیں رکتے۔
صدر شی نے برازیلی دوستوں کو یہ پیغام دیا کہ دو ممالک کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں لوگوں کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ حکومتیں پالیسی بناتی ہیں، معاہدے کرتی ہیں، لیکن اصل قربت عوامی تعلقات سے پیدا ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ برازیل اور چین کے تعلقات کو اسی جذبے سے آگے بڑھایا جائے تاکہ یہ دوستی نئی صدی میں بھی اتنی ہی طاقتور رہے جتنی آج ہے۔
یہ خط دراصل ایک دعوت نامہ بھی تھا۔ محبت، علم اور تعاون کی دعوت۔ صدر شی کی آمد سے قبل ساو پالو اسٹیٹ یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ نے ایک کتابچہ شائع کیا جس کا عنوان تھا: "برازیل کی طرف سے دعوت، صدر شی جن پِنگ کے نام 50 خطوط"۔ اس میں برازیل کے اساتذہ، طلبہ اور فنکاروں نے صدر شی کے لیے محبت اور احترام کے جذبات کا اظہار کیا تھا۔ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر لوئیس پاولینو کا کہنا تھا: "ہم اس کتاب کے ذریعے صدر شی، چینی عوام اور چین کی ثقافت کے لیے اپنی عقیدت اور دوستی کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کا دورہ دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جائے گا"۔
یہ انسٹی ٹیوٹ برازیل میں چینی زبان و ثقافت کا سب سے پرانا مرکز ہے، جہاں تیرہ شہروں میں 23 ہزار سے زائد طلبہ چینی زبان، ادب اور تہذیب سیکھ رہے ہیں۔ انہی طلبہ میں سے ایک نوجوان جاؤ پیڈرو نے صدر شی کو خط میں لکھا تھا کہ "میں امید کرتا ہوں آپ ہمارے اسکول آئیں، تاکہ ہم براہِ راست آپ سے سیکھ سکیں۔ چین کی موجودگی اور اثر برازیل میں بڑھ رہا ہے اور مجھے یقین ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلق مزید گہرا ہوگا"۔
ایک اور طالبِ علم برونو سیلوا نے بھی لکھا کہ وہ چین جا کر تعلیم حاصل کرے گا کیونکہ وہ اس قدیم اور جدید ملک کو قریب سے جاننا چاہتا ہے۔ ان جیسے نوجوان صدر شی کے اس خیال کا مظہر ہیں کہ "قوموں کی دوستی دراصل عوام کی دوستی سے جنم لیتی ہے"۔
برازیل کی کوپاکبانا آرکسٹرا کی بانی مارشیا میلکیور نے جب صدر شی کا جواب پڑھا تو ان کے جذبات قابو میں نہ رہے۔ وہ کہتی ہیں: "صدر کا خط ہمارے لیے ایک اعزاز ہے، ایک اعتراف کہ موسیقی، ثقافت اور تعلیم کی جو راہیں ہم کھول رہے ہیں، ان کی گونج بیجنگ تک پہنچی ہے۔ یہ ہمیں حوصلہ دیتا ہے کہ ہم اپنی محنت جاری رکھیں، کیونکہ یہ صرف آرٹ نہیں، بلکہ دو ملکوں کے درمیان ایک روحانی رشتہ ہے"۔
یہ آرکسٹرا 2011 میں برازیل کے تاریخی قلعے Forte de Copacabana میں قائم ہوئی تھی، جس کا مقصد نچلے طبقے کے نوجوانوں کو موسیقی کے ذریعے زندگی کی نئی راہیں دکھانا ہے۔ 2022 سے ایک چینی تیل کمپنی اس آرکسٹرا کی سرپرستی کر رہی ہے اور اس تعاون نے برازیل اور چین کے درمیان ثقافتی تعلق کو مزید مضبوط کر دیا ہے۔
مارشیا کہتی ہیں: "یہ صرف فن نہیں، بلکہ ایک پُل ہے۔ ہم ایک دوسرے کی ثقافتوں سے سیکھ رہے ہیں۔ صدر شی کا خط ہمیں بتاتا ہے کہ ہماری کوششیں ضائع نہیں جاتیں۔ جب ایک ملک کا سربراہ ہماری بات سنتا ہے، تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے خواب ممکن ہیں"۔
صدر شی جن پِنگ نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا کہ چین، برازیل کے ساتھ مل کر نہ صرف باہمی ترقی بلکہ عالمی امن اور انصاف کے فروغ میں بھی کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک بڑی ترقی پذیر اقوام کے طور پر مشترکہ ذمہ داری رکھتے ہیں کہ وہ دنیا کے جنوب میں بسنے والی قوموں کی آواز بنیں، ان کے حقوق کا دفاع کریں اور عالمی نظام کو زیادہ منصفانہ اور متوازن بنائیں۔
یہ وہ سوچ ہے جو چین کے وژن "کمیونٹی آف شیئرڈ فیوچر فار مین کائنڈ" سے جڑی ہوئی ہے، یعنی انسانیت کا مشترکہ مستقبل۔ صدر شی چاہتے ہیں کہ دنیا کا ہر ملک ترقی کرے، لیکن کسی دوسرے کی قیمت پر نہیں، بلکہ تعاون، تعلیم، تجارت اور ثقافت کے تبادلے کے ذریعے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چین اور برازیل کا تعلق آج کا نہیں، دو صدی پرانا ہے۔ تقریباً دو سو سال پہلے چینی چائے کے کسان برازیل آئے تھے تاکہ مقامی لوگوں کو چائے اگانے کی تکنیک سکھا سکیں۔ ان کے ہاتھوں سے بویا گیا یہ پودا آج ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ چین اور برازیل کی دوستی کا درخت۔ صدر شی نے اسی تاریخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح ایک چائے کا پودا وقت کے ساتھ پختہ ہوتا جاتا ہے، اسی طرح دونوں ممالک کا رشتہ بھی سمجھ، تعاون اور دوستی کے ذریعے مزید مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔
یہ خط محض سفارتی تعلقات کا بیان نہیں، بلکہ دو دلوں کی دھڑکنوں کا سنگم ہے۔ اس میں ادب بھی ہے، موسیقی بھی، علم بھی اور احساس بھی۔ صدر شی کے ہر لفظ سے یہ احساس جھلکتا ہے کہ طاقت کی اصل بنیاد تعلق ہے اور تعلق کی اصل بنیاد خلوص۔
یانگ ژی اور ایمیزون کے دریا ہزاروں میل دور ہیں، مگر ان کی روانی ایک جیسی ہے۔ نرم، مسلسل، زندگی بخش۔ صدر شی نے ان دونوں دریاؤں کو علامت بنا کر بتایا کہ چین اور برازیل کی دوستی بھی اسی طرح ہمیشہ بہتی رہے گی، کبھی رکنے والی نہیں۔
دنیا جس تیزی سے بدل رہی ہے، وہاں ایسے خطوط امید کے چراغ ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ سفارت کاری صرف معاہدوں کی زبان میں نہیں، بلکہ دل کی زبان میں بھی ممکن ہے۔ صدر شی جن پِنگ جیسے رہنما ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ ایک سپر پاور کا اصل وقار اس کے جذبوں کی بلندی میں ہے اور یہی بلندی اسے تاریخ میں جاوداں کرتی ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے ان کے قلم سے نکلا ہر لفظ دوستی کا ایک قطرہ ہے، جو وقت کے سمندر میں جا گرتا ہے اور پھر کبھی خشک نہیں ہوتا۔ چین اور برازیل کے درمیان بہتی ہوئی یہ دوستی یقیناً دریاؤں کی طرح دیرپا ہے۔ دریاؤں کی طرح بہتی دوستی۔

