Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Xi Jinping Ke Khutoot, Aik Super Power Ke Sadar Ka Insan Dost Dil (1)

Xi Jinping Ke Khutoot, Aik Super Power Ke Sadar Ka Insan Dost Dil (1)

شی جن پنگ کے خطوط، ایک سپر پاور کے صدر کا انسان دوست دل (1)

دنیا کے شور و غوغا میں، جہاں طاقتور رہنما اکثر اپنے بلند ایوانوں کی دیواروں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں، جہاں فیصلے میزوں پر ہوتے ہیں مگر احساس دلوں سے غائب رہتا ہے، وہاں ایک منظر ایسا بھی ہے جو انسان کو ٹھہرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ایک سپر پاور کا مصروف ترین صدر، جس کا وقت لمحہ لمحہ دنیا کی معیشتوں، جنگوں، سفارت کاری اور پالیسیوں میں بٹا ہوا ہے، وہ قلم اٹھاتا ہے، ایک خط پڑھتا ہے اور پھر جواب لکھتا ہے۔ نہ کسی پروٹوکول کی بھول بھلیاں، نہ رسمی جملوں کی خشک تکرار، بلکہ سچے جذبے اور انسان دوستی کے ساتھ ایک ایسا پیغام جو سرحدوں سے آزاد ہو کر دلوں تک پہنچتا ہے۔ یہ چین کے صدر شی جن پنگ کی شخصیت کا وہ پہلو ہے جو شاید طاقت کے شور میں دب جاتا ہے، مگر دراصل ان کی قیادت کی سب سے روشن نشانی یہی ہے۔ انسان سے انسان کا رشتہ۔

یہی رشتہ ایک دن پھر سے تازہ ہوا، جب ڈنمارک کے ایک معروف تاجر اور Danish Chamber of Commerce in China کے بانی چیئرمین سائمن لِچٹن برگ کو صدر شی جن پنگ کا ذاتی خط موصول ہوا۔ دنیا کے کسی بھی رہنما سے جواب آنا ایک اعزاز ہے، مگر چین جیسے ملک کے صدر کا، جو روزانہ بے شمار قومی و بین الاقوامی معاملات دیکھتا ہے، کسی غیر ملکی تاجر کو وقت نکال کر اپنے ہاتھوں سے جواب لکھنا۔ یہ کوئی معمولی سا واقعہ نہیں، بلکہ ایک پوری سوچ، ایک فلسفہ اور ایک تہذیبی روایت کا تسلسل ہے۔

چینی روایت میں کہا جاتا ہے کہ "خط سونا ہوتے ہیں "، "Letters are as valuable as gold. " صدیوں سے یہ دھرتی جانتی ہے کہ لکھا ہوا لفظ صرف کاغذ پر نہیں ہوتا، یہ احساس، خلوص اور رشتہ ہوتا ہے۔ شی جن پنگ اسی قدیم روایت کے امین دکھائی دیتے ہیں۔ وہ نہ صرف ریاست کے معاملات میں نظم و ضبط رکھتے ہیں بلکہ جذبات اور احساسات کے بندھن کو بھی اپنی سیاست کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کے لیے خط محض ایک سفارتی آداب کا حصہ نہیں، بلکہ لوگوں سے جڑنے، ان کے احساسات کو جاننے اور ان کے حوصلے کو بڑھانے کا ذریعہ ہیں۔

سائمن لچٹن برگ نے صدر شی کو دو خط لکھے تھے۔ ایک ذاتی اور ایک بطور چیمبر کے نمائندے کے۔ دونوں میں انہوں نے چین کی ترقی، مواقع اور کاروباری ماحول کے لیے اپنی قدردانی بیان کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ "ہم چین کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھتے ہیں جو نہ صرف ہمارے کاروبار کے لیے موقع فراہم کرتا ہے بلکہ اعتماد اور دوستی کا مرکز بھی ہے۔ " صدر شی نے ان خطوط کا جوابی خط نہ صرف بھیجا بلکہ اس میں اپنے مخصوص فکری انداز میں وہ بات کہی جو دراصل چین کی پالیسی کا دل ہے: "چین میں یقین رکھنا دراصل بہتر کل میں یقین رکھنا ہے اور چین میں سرمایہ کاری دراصل مستقبل میں سرمایہ کاری ہے"۔

یہ جملہ محض ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک وژن ہے۔ ایک ایسے رہنما کا وژن جو اپنے ملک کی ترقی کو دنیا کے فائدے سے جوڑ کر دیکھتا ہے۔ شی جن پنگ کا خط دراصل ڈنمارک اور یورپ کے تاجروں کے لیے ایک دعوت نامہ ہے کہ وہ چین پر اعتماد رکھیں، کیونکہ چین وہ زمین ہے جہاں دوستی بھی پھلتی ہے اور ترقی بھی۔

لچٹن برگ کے لیے یہ خط ایک جذباتی لمحہ تھا۔ وہ کہتے ہیں: "یہ میرے لیے محض اعزاز نہیں بلکہ ایک ذمہ داری بھی ہے۔ صدر شی کا یہ جواب اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ہر اس شخص کی قدر کرتے ہیں جو چین کے ساتھ خلوص اور اعتماد کا رشتہ رکھتا ہے"۔ یہ جذبہ صرف لچٹن برگ تک محدود نہیں رہا۔ ڈنمارک اور دیگر یورپی ممالک کے کاروباری حلقوں نے بھی اسے ایک مثبت اشارہ قرار دیا۔ ان کے نزدیک یہ ایک مضبوط پیغام ہے کہ چین نہ صرف سرمایہ کاری کے لیے کھلا ہے بلکہ انسانی تعلقات کے لحاظ سے بھی زندہ دل ملک ہے۔

صدر شی کے ان خطوط کا ایک منفرد پہلو یہ ہے کہ وہ ہر سطح کے لوگوں سے مکالمہ کرتے ہیں۔ کبھی کسی اسکول کے بچے کے ساتھ، کبھی کسی کسان، سائنس دان، یا غیر ملکی محقق سے۔ یہ ایک ایسی قیادت کی علامت ہے جو اپنے عوام سے فاصلہ نہیں رکھتی بلکہ قربت تلاش کرتی ہے۔ ایسے وقت میں جب دنیا کے کئی طاقتور ممالک کے رہنما اپنی عوام سے دور، بند کمروں میں محدود نظر آتے ہیں، شی جن پنگ کا یہ عمل ایک نرمی، انسان دوستی اور حکمت کا مظہر ہے۔

لچٹن برگ کا سفر بھی خود میں ایک داستان ہے۔ 1987 میں چین آ کر تعلیم حاصل کرنے والا یہ نوجوان آج ایک کامیاب تاجر ہے، جس نے چین میں اپنی فیکٹریاں قائم کیں اور چین میں ہی اپنی زندگی بسائی۔ اس کی کمپنی چین سے دنیا بھر میں اعلیٰ معیار کا فرنیچر برآمد کرتی ہے۔ مگر وہ صرف کاروباری شخص نہیں۔ وہ چین کی دیہی تعلیم میں بھی اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ اس کے لیے 2006 میں اسے "Shanghai Magnolia Silver Award" اور بعد میں "Gold Award" دیا گیا۔ ایک غیر ملکی کے لیے غیر معمولی اعزاز۔

یہ سب وہ پہلو ہیں جنہیں صدر شی بخوبی جانتے اور سراہتے ہیں۔ ان کے خط میں یہی روح جھلکتی ہے کہ جو لوگ چین کے ساتھ مخلص ہیں، وہ چین کے مستقبل کا حصہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شی جن پنگ کی تحریریں ہمیشہ ایک وسیع تر پیغام رکھتی ہیں۔ دوستی، تعاون اور باہمی ترقی کا پیغام۔

جب صدر کسی غیر ملکی تاجر، کسی اسکول کے بچے یا کسی سائنس دان کے نام ذاتی طور پر جواب دیتے ہیں تو وہ دراصل یہ بتاتے ہیں کہ "چین کی پالیسی انسان سے شروع ہوتی ہے اور انسان پر ختم ہوتی ہے"۔ یہ وہ طرزِ قیادت ہے جو سردی میں ہاتھ بڑھاتی ہے اور اندھیرے میں روشنی جلاتی ہے۔

لچٹن برگ کے ساتھ ساتھ ڈنمارک کی دیگر بڑی کمپنیوں جیسے Danfoss، Grundfos اور Maersk نے بھی صدر شی کے جواب کو ایک اہم علامت کے طور پر دیکھا۔ ان کے مطابق، یہ خط دراصل ایک نئے عہد کا آغاز ہے۔ ایسا عہد جہاں چین اور یورپ کے درمیان محض تجارتی تعلق نہیں بلکہ باہمی اعتماد اور تعاون کی بنیاد پر ایک مضبوط رشتہ قائم ہو رہا ہے۔

دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں جب بہت سے ممالک الگ تھلگ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں، شی جن پنگ کا رویہ برعکس ہے۔ وہ پل تعمیر کرتے ہیں، دیواریں نہیں۔ ان کی قیادت میں چین نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ طاقت کا اصل مفہوم دوسروں پر غلبہ نہیں بلکہ ان کے ساتھ ترقی میں شریک ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خطوط صرف وصول کرنے والوں کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے پیغام ہوتے ہیں۔ پیغامِ تعاون، پیغامِ امن۔

ڈنمارک اور چین کے تعلقات آئندہ سال اپنی پچھترویں سالگرہ منائیں گے۔ صدر شی کے اس ایک خط نے دراصل اس تاریخی رشتے میں نئی روح پھونک دی ہے۔ لچٹن برگ جیسے لوگ اب خود کو محض کاروباری نمائندہ نہیں سمجھتے بلکہ "دو ملکوں کے درمیان پُل" کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہی وہ سوچ ہے جو صدر شی اپنے ہر لفظ کے ذریعے دنیا کو سکھا رہے ہیں۔ کہ قوموں کی ترقی کا راستہ تعلقات سے گزرتا ہے، مسکراہٹوں سے اور خط و کتابت سے۔

یہ کالم دراصل ایک رہنما کی نہیں بلکہ ایک انسان کی کہانی ہے۔ ایک ایسا انسان جو دنیا کی سیاست کے سخت ترین دائرے میں رہ کر بھی احساس، خلوص اور ربط کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ وہ جانتا ہے کہ بند کمروں میں بیٹھ کر فیصلے کرنا آسان ہے، مگر کھلے دل سے تعلق بنانا ہی اصل قیادت ہے۔

چینی صدر کے یہ خطوط ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ آج بھی دل سے نکلے ہوئے الفاظ دنیا بدل سکتے ہیں۔ چاہے وہ کسی بچے کو حوصلہ دینے کے لیے ہوں یا کسی غیر ملکی تاجر کو شکریہ کہنے کے لیے۔ ایک خط میں لکھی ہوئی چند سطریں بعض اوقات ہزار تقریروں سے زیادہ اثر رکھتی ہیں۔

شی جن پنگ کی یہی خاصیت انہیں دنیا کے دیگر رہنماؤں سے ممتاز بناتی ہے۔ وہ طاقت کے ساتھ نرمی، نظم کے ساتھ محبت اور ترقی کے ساتھ انسانیت کو لے کر چلتے ہیں۔ ان کے خطوط صرف چین کے لوگوں کے لیے نہیں، بلکہ انسانیت کے لیے سبق ہیں، کہ بڑے فیصلے کرنے سے پہلے، ایک چھوٹا سا دل رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔

ایسا لگتا ہے جیسے وہ ہر خط کے ذریعے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ "دنیا جتنی بھی مصروف ہو جائے، انسان کو انسان کے لیے وقت ضرور نکالنا چاہیے"۔

اور شاید یہی پیغام ہے جس کی دنیا کو آج سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali