Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Waseem Akram Aur Baar e Mazah

Waseem Akram Aur Baar e Mazah

وسیم اکرم اور بارِ مزاح

دنیا کے بہترین لیفٹ آرم فاسٹ بولر وسیم اکرم کا ذکر آئے تو عام طور پر گیند ہاتھ میں لیے ہوئے ان کی تیز رفتار دوڑ، سوئنگ کرتی ہوئی گیند اور بیٹسمین کا حواس باختہ چہرہ سامنے آتا ہے۔ کرکٹ کے شائقین انہیں سوئنگ کے سلطان کہتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ خطاب ان کے شایانِ شان بھی ہے۔ لیکن ایک اور دنیا بھی ہے، جہاں وسیم اکرم صرف ایک عظیم بالر نہیں بلکہ ایک معصوم نوجوان بھی تھے، جو گوروں کی زمین پر اکیلا، تنہا، نئے ماحول میں جینے کا ڈھنگ سیکھ رہا تھا اور یہیں کہیں ان کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ثابت کر دیا کہ بڑے بڑے ہیروز بھی کبھی نہ کبھی "اینٹ" اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جی ہاں، وسیم اکرم کو "bricked" کیا گیا تھا۔

یہ کہانی ہے وسیم اکرم کے ابتدائی کاؤنٹی کرکٹ کے دنوں کی۔ تب وہ محض اکیس برس کے تھے، جوانی کی دہلیز پر قدم رکھے، پاکستان سے پہلی بار باہر نکلے اور انگلینڈ کے اجنبی ماحول میں نئے تجربات سے گزر رہے تھے۔ آپ ذرا سوچیں، ایک نوجوان جو ابھی ابھی عالمی کرکٹ میں قدم رکھ رہا ہے، اچانک ایک ایسی دنیا میں آ جائے جہاں نہ ماں ہے، نہ بہن، نہ وہ چائے جو گھر کے صحن میں پی جاتی ہے، نہ وہ دال جو دیگچی میں ابل رہی ہو۔ سب کچھ اجنبی اور اس پر کاؤنٹی کرکٹ کا سخت شیڈول۔ ایسے میں آدمی کو چھوٹے چھوٹے دھچکے بھی بڑے لگتے ہیں۔

اب ہوا یوں کہ وسیم اکرم کے ساتھی کھلاڑی مائیکل واٹکنسن نے نئے لڑکے کے ساتھ ذرا سا "حسنِ سلوک" کرنے کا فیصلہ کیا۔ کرکٹ کی دنیا میں نئے آنے والے کو تنگ کرنا ایک پرانی روایت ہے۔ اسے انگریزی میں hazing کہتے ہیں اور پنجابی میں کہیں تو سیدھی سی بات ہے "نوآموز کی عزت افزائی"۔ واٹکنسن نے بھی سوچا کہ یہ پاکستانی لڑکا بڑا سیدھا سادہ ہے، کیوں نہ اسے تھوڑا سا "وزن" دیا جائے۔

اس زمانے میں کرکٹرز کے پاس جو کِٹ بیگ ہوتے تھے، انہیں coffin کہا جاتا تھا، لمبے لمبے، پہیوں کے بغیر، جنہیں خود ہی کھینچنا پڑتا تھا۔ وسیم اکرم بھی اپنا بیگ اٹھا کر گراونڈ آتے جاتے تھے۔ شروع شروع میں انہوں نے نوٹ کیا کہ بیگ کچھ زیادہ ہی بھاری ہو رہا ہے۔ پہلے تو انہوں نے سوچا کہ شاید گیندیں، بیٹس، پیڈز اور ساتھ ساتھ ان کے گندے کپڑے مل کر وزن بڑھا رہے ہیں۔ وہ یہ بھی سوچتے رہے کہ شاید یہ ان کی کمزوری ہے کہ بیگ زیادہ بھاری لگ رہا ہے۔ پاکستان میں تو سب سہولتیں تھیں، یہاں تو خود ہی کپڑے دھونا پڑتے ہیں، خود ہی کھانا کھانا پڑتا ہے، خود ہی ہر چیز سنبھالنی پڑتی ہے اور وسیم اکرم بھی سوچنے لگے کہ چلو یہ بھی زندگی کا ایک امتحان ہے۔

مگر امتحان کچھ اور ہی نکلا۔ ایک دن جب کپڑے ختم ہو گئے اور بیگ صاف کرنے کی ضرورت پیش آئی، تو حقیقت سامنے آئی۔ کپڑوں کے نیچے ایک بھاری اینٹ چھپی ہوئی تھی، جو مہینے بھر سے ان کے بیگ کا مستقل حصہ بنی ہوئی تھی۔ سوچیں، پورے ایک مہینے تک ایک نوجوان کرکٹر گوروں کے دیس میں، پوری سنجیدگی کے ساتھ، ایک اینٹ کو اپنے خوابوں اور ارمانوں کے ساتھ اٹھا کر لیے پھرتا رہا اور دل میں یہ خیال پالتا رہا کہ شاید یہ بیگ اس لیے بھاری ہے کہ میں نیا ہوں، مجھے محنت کرنی ہے، مجھے برداشت کرنا ہے۔ حالانکہ سچ یہ تھا کہ محنت تو وہ اینٹ کروا رہی تھی۔

اب یہ قصہ جب وسیم اکرم نے برسوں بعد سنایا تو بڑے مزے لے لے کر سنایا۔ "Stick to Cricket" پوڈکاسٹ پر ہنستے ہنستے بتایا کہ بھائی، میں تو مہینے بھر اینٹ لے کر پھرتا رہا اور آخرکار راز کھلا کہ واٹکنسن نے میرے ساتھ مذاق کیا ہے۔ لیکن وسیم اکرم بھی خاموش نہیں بیٹھے۔ انہوں نے سوچا، چلو بدلہ تو بنتا ہے اور بدلہ بھی ایسا کہ بندہ ساری عمر یاد رکھے۔ تو ہوا یوں کہ انہوں نے واٹکنسن کے موزے کاٹ ڈالے۔

اب آپ ذرا منظر ذہن میں لائیں۔ ایک طرف اینٹ ہے جو بیگ میں چھپائی گئی اور دوسری طرف کاٹے ہوئے موزے۔ اگر فلسفی کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ ایک مکمل "کرما" کی کہانی ہے۔ جرم کے بدلے سزا اور سزا بھی ایسی کہ جب واٹکنسن موزے پہننے لگے ہوں گے تو انگلیاں سیدھی باہر نکل آئی ہوں گی۔ سوچیں تو یہ منظر کسی سٹینڈ آپ کامیڈی شو سے کم نہیں۔

یہ قصہ سن کر مجھے لگتا ہے کہ ہیرو ہونا صرف میدان میں تیز گیندیں کرنے کا نام نہیں۔ ہیرو ہونا اس بات کا بھی نام ہے کہ زندگی کے ہنسی مذاق کو بھی دل سے قبول کیا جائے۔ وسیم اکرم دنیا کے سب سے بڑے لیفٹ آرم فاسٹ بولر ہیں، لیکن ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ زندگی کے ہر پہلو میں خوش دلی کے ساتھ جیتے ہیں۔ چاہے وہ میدان ہو جہاں انہوں نے دنیا کے بہترین بیٹسمینوں کو پریشان کیا، یا پھر کاؤنٹی کرکٹ کا ڈریسنگ روم جہاں انہوں نے ایک اینٹ اٹھائی اور ایک دن بدلے میں موزے کاٹ ڈالے۔

یہی بات انہیں دوسروں سے الگ کرتی ہے۔ بڑے کھلاڑی وہی ہوتے ہیں جو کھیل کے ساتھ ساتھ قہقہے بھی بانٹ سکیں۔ ورنہ صرف رفتار تو بہتوں کے پاس ہے، لیکن رفتار کے ساتھ مزاج کی نرمی، باتوں کا مزاح اور زندگی کے ہر واقعے کو دلچسپی کے ساتھ سنانے کی عادت ہر کسی کے پاس نہیں ہوتی۔ وسیم اکرم کا یہ واقعہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ زندگی میں چھوٹی چھوٹی شرارتیں، چھوٹے چھوٹے مذاق، بڑے بڑے دکھ اور تھکن کو بھلا دیتے ہیں۔

اور ہاں، یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر وسیم اکرم جیسے نوجوان کرکٹر ایک مہینہ اینٹ اٹھا سکتے ہیں، تو ہم سب بھی اپنی زندگی کی چھوٹی بڑی "اینٹیں" اٹھا سکتے ہیں۔ کبھی کبھی ہماری جیب میں کوئی اینٹ چھپی ہوتی ہے، کبھی دفتر کی فائلوں میں، کبھی ذمہ داریوں میں، کبھی تعلقات کے بوجھ میں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب ہماری تقدیر کا حصہ ہے، لیکن دراصل کوئی نہ کوئی "واٹکنسن" ہماری زندگی میں بھی اینٹ ڈالے بیٹھا ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ وسیم اکرم نے اینٹ ڈھونڈ نکالی اور قہقہے لگائے، ہم میں سے اکثر اینٹ اٹھائے ہی رہ جاتے ہیں۔

سو میرے نزدیک وسیم اکرم صرف ایک عظیم بالر نہیں، وہ ایک عظیم مزاحیہ فلسفی بھی ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے قصے ایسے مزے سے سنائے کہ لوگ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ان پر ہنستے ہیں۔ جب بھی وہ اپنے ابتدائی دنوں کی بات کرتے ہیں، لگتا ہے جیسے کوئی قریبی دوست محفل میں بیٹھ کر اپنی کہانی سنا رہا ہو۔ وہ فاصلے جو ہیرو اور عام انسان کے بیچ ہوتے ہیں، وسیم اکرم کی باتوں میں گھل کر ختم ہو جاتے ہیں۔

میرے لیے وسیم اکرم ہمیشہ ہیرو رہیں گے۔ نہ صرف اس لیے کہ انہوں نے دنیا بھر کے بیٹسمینوں کو اپنی سوئنگ سے ناکوں چنے چبوائے، بلکہ اس لیے بھی کہ وہ ایک اینٹ کے واقعے کو بھی ایسے بیان کرتے ہیں جیسے یہ زندگی کا سب سے بڑا انعام ہو اور یہی اصل جادو ہے۔ اینٹ کا بوجھ کبھی کبھی کامیابی کے راستے پر سب سے قیمتی ساتھی بھی بن جاتا ہے۔ وسیم اکرم کی اینٹ والی کہانی بھی ایک ایسا ہی ساتھی ہے، جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی میں مزاح کے بغیر کچھ بھی مکمل نہیں۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan