Waqt Ke Dareeche Mein Yawar Abbas Ki Kahani
وقت کے دریچے میں یاور عباس کی کہانی

دنیا کے افق پر کبھی کبھی ایسے لوگ ابھرتے ہیں جو وقت کی روانی کو روک کر ہمیں جھنجھوڑ دیتے ہیں۔ وہ اپنی ذات میں ایک صدی کا خزانہ ہوتے ہیں، ان کی آنکھوں میں تاریخ کا آئینہ، ان کی باتوں میں زمانوں کی گونج اور ان کے وجود میں وہ داستانیں جنہیں کتابوں کے بوجھ تلے بھی چھپایا نہیں جا سکتا۔ کیپٹن یاور عباس بھی ایسے ہی ایک مسافر ہیں، جنہوں نے ایک صدی سے زیادہ وقت کے شور کو سنا، جنگ کے شعلے دیکھے، آزادی کی تڑپ جھیلی، ہجرت کی تلخی چکھی اور پھر قلم اور کیمرے کی آنکھ سے دنیا کو آئینہ دکھایا۔
یہ منظر کوئی معمولی منظر نہ تھا۔ برطانیہ میں ایک تقریب، سامنے شاہ چارلس سوم اور ملکہ کمیلا بیٹھے ہیں۔ یاور عباس اسٹیج پر آ کر چند جملے کہتے ہیں اور لمحہ بھر کو بادشاہ اور ملکہ کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ یہ آنسو تاریخ کے آنسو تھے۔ یہ ایک ایسے کردار کے لیے تھے جس نے اپنے کیمرے سے جنگ کے شعلوں کو قید کیا اور اپنے دل پر ان زخموں کو سہارا جو آج بھی بھرے نہیں۔
یاور کی پیدائش ایک چھوٹے سے قصبے چارخاری میں ہوئی تھی۔ کاغذوں پر تاریخ پیدائش 1921 لکھی گئی مگر وہ خود 15 دسمبر 1920 کو اپنی اصل جنم گھڑی بتاتے ہیں۔ وہ وقت برصغیر کی غلامی کا وقت تھا۔ ایک طرف آزادی کی تحریک اپنے شباب پر تھی، دوسری طرف سامراج اپنی سلطنت کے آخری سہارا ڈھونڈ رہا تھا۔ ایسے میں دوسری عالمی جنگ بھڑکی۔ جاپان کی یلغار نے جنوب مشرقی ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دنیا کے نقشے پر آگ کے دائرے پھیلنے لگے۔
یاور عباس ابھی طالب علم تھے مگر سوال ان کے سامنے کھڑا تھا: برطانیہ کے لیے لڑیں یا اپنی آزادی کی تحریک کا ساتھ دیں؟ وہ برطانوی راج سے نفرت کرتے تھے، مگر فاشزم اور نازی ازم کا سایہ بھی قبول نہ تھا۔ یہ ایک مشکل انتخاب تھا۔ آخرکار انھیں لگا کہ شاید جنگ کے بعد آزادی کا خواب حقیقت بن جائے اور وہ لاکھوں ہندوستانیوں کے ساتھ برطانوی فوج میں شامل ہو گئے۔
ابتدا میں انھیں محاذ سے دور رکھا گیا۔ یہ انتظار انھیں تڑپاتا رہا۔ ان کے افسران کا رویہ کڑوا تھا، جو ہندوستانیوں کو محکوم نگاہوں سے دیکھتے۔ ایک دن ان کی نظر ایک اشتہار پر پڑی جس میں جنگی کیمرہ مین کی تربیت کا اعلان تھا۔ یوں ان کے ہاتھ میں بندوق کے ساتھ کیمرہ بھی آ گیا۔ یہ کیمرہ ہی وہ دروازہ تھا جس سے یاور نے تاریخ کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کیا۔
وہ برما کے محاذ پر پہنچے۔ جیپ میں ایک معاون، کمر پر پستول، ہاتھ میں کیمرہ۔ ان کا کام موت اور زندگی کے بیچ جھلملاتی حقیقت کو فلم بند کرنا تھا۔ گولوں کی گونج، زخمی سپاہیوں کی چیخیں، ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ اور بارش میں بھیگی زمین پر بہتا خون۔ یہ سب ان کے کیمرے کے فریم میں قید ہوتا اور کلکتہ بھیج دیا جاتا جہاں سے یہ خبریں اور فلمیں بنتیں۔
ایک دن وہ گورکھا سپاہیوں کے ساتھ مورچے میں بیٹھے تھے کہ ایک سنائپر نے گولی چلائی۔ یاور کا کیمرہ ٹوٹ گیا، ساتھ بیٹھا سپاہی زندگی ہار گیا، مگر یاور زندہ بچ گئے۔ وہ آج بھی کہتے ہیں: "میں خوش قسمت تھا"۔ یہ خوش قسمتی ان کے ساتھ بارہا رہی، جب کبھی وہ موت کے دہانے پر پہنچے مگر وقت نے انھیں روک لیا۔
منڈالے کی لڑائی میں وہ ایک ٹینک پر تصاویر لینے کے لیے اوپر چڑھ گئے۔ ایک افسر نے چیخ کر کہا نیچے آ جاؤ، یہ خطرناک ہے۔ یاور خود اعتراف کرتے ہیں کہ یہ جوانی کی دیوانگی تھی۔ لیکن یہی دیوانگی وہ روشنی ہے جو تاریخ کو زندہ کر گئی۔ بعد میں جب وہ وار میوزیم میں اپنی ہی فلمائی ہوئی فوٹیج دیکھتے تو حیران رہ جاتے کہ واقعی وہ اس بھٹی کا حصہ تھے۔
ان کی ڈائری کے اوراق بھی ان کے دل کی گواہی دیتے ہیں۔ 20 مارچ 1945 کو وہ لکھتے ہیں: "شکر ہے سب ختم ہوا اور میں ابھی تک زندہ ہوں۔ گولوں کی آواز اب بھی آ رہی ہے"۔ کاغذ پر لکھے وہ جملے گویا صدیوں کی دھڑکن ہیں، جو آج بھی پڑھنے والے کو جنگ کے شور میں لے جاتے ہیں اور یہ جملے پارکر پین یا سمارٹ بال پوائنٹ پین سے نہیں بلکہ قلم دوات سے لکھے گئے۔ یاور محاذ جنگ پر بھی باقاعدہ ڈائری لکھتے رہے۔ وہ قلم دوات اپنے ساتھ رکھتے۔ ذرہ غور کریں تو قلم دوات سنبھالنا کتنا مشکل ہوتا ہوگا لیکن یاور یہ سب کچھ کرتا رہا۔ قلم گھڑتا رہا۔ روشنائی کی بھری دوات سنبھالتا رہا۔
پھر وہ لمحہ آیا جب ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرایا گیا۔ دنیا کے نقشے پر ایک ایسا داغ لگا جو کبھی مٹ نہیں سکتا۔ یاور خود ہیروشیما گئے۔ انھوں نے وہاں جلے ہوئے مکانات، راکھ ہوئے چہروں اور بکھرے جسموں کو دیکھا۔ وہ آج بھی کہتے ہیں: "مجھے یقین نہیں آتا کہ انسان انسان کے ساتھ ایسا کر سکتا ہے"۔
برطانیہ نے آخرکار ہندوستان چھوڑ دیا، مگر آزادی کی قیمت تقسیم کی شکل میں چکائی گئی۔ خون کی ندیاں بہیں، قافلے اجڑے، دل ٹوٹے۔ یاور اس لمحے کے گواہ بھی تھے۔ آزادی کا خواب حقیقت بنا مگر ساتھ ہی ایک تلخ یاد بھی چھوڑ گیا۔ دو برس بعد وہ برطانیہ منتقل ہو گئے اور کیمرہ مین سے فلم ساز بن گئے۔ بی بی سی کے ساتھ ان کا سفر کامیابیوں اور ایوارڈز کی کہانی ہے، مگر اندر کی تنہائی کبھی نہ بھر سکی۔
آج وہ جب اپنی صدی بھر کی زندگی کے سفر پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک ہی بات دہراتے ہیں: "جنگ ایک جرم ہے"۔ وہ مانتے ہیں کہ اس وقت انھیں لگتا تھا کہ وہ انسانیت کے لیے کچھ کر رہے ہیں، مگر اب انھیں یقین ہے کہ جنگ نے انسانیت کو کچھ نہیں دیا، صرف چھین لیا۔
غزہ کے حالیہ مناظر ان کے دل پر بوجھ ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ بچے، عورتیں اور معصوم لوگ مر رہے ہیں اور دنیا خاموش ہے۔ ان کے الفاظ تاریخ کے شور میں ایک تازہ صدا ہیں کہ ہم نے وقت سے کچھ نہیں سیکھا۔
یاور عباس کی زندگی دراصل وقت کے دریچوں کی ایک روشنی ہے۔ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اصل بہادری ہتھیار اٹھانے میں نہیں بلکہ سچ بولنے میں ہے۔ ان کے وجود میں وہ سبق چھپا ہے جو نسلوں کو دیا جانا چاہیے: امن، انسانیت اور جنگ سے نفرت۔ جب شاہ اور ملکہ ان کی باتوں پر آنسو بہاتے ہیں تو یہ صرف ایک شخص کے لیے نہیں ہوتے، یہ ایک پوری صدی کے لیے ہوتے ہیں، ایک ایسے گواہ کے لیے جس نے تاریخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اب اپنی کہانی کے ذریعے دنیا کو آئینہ دکھا رہا ہے۔
یاور عباس کا سفر ہمیں بتاتا ہے کہ تاریخ کے اوراق پر جو سیاہی جمتی ہے، وہ محض الفاظ نہیں ہوتے، وہ خون، آنسو اور انسانیت کی کراہیں ہوتی ہیں اور یہی وہ سبق ہے جسے دنیا کو بار بار دہرانا ہوگا: جنگ جرم ہے اور امن ہی انسانیت کا اصل مستقبل ہے۔
یاور عباس اس دنیا کے لیے ایک درس ہیں، ایک روشنی ہیں، ایک صدی کے حافظ ہیں۔ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ وقت کی تیز رفتار دوڑ میں اصل انسان وہی ہے جو انسانیت کا بوجھ اٹھائے۔ ان کی کہانی محض ایک فرد کی داستان نہیں بلکہ انسان کے ضمیر کی صدائے احتجاج ہے۔
ہم ان کے لیے دل سے دعا کرتے ہیں: اللہ یاور عباس کو اپنی رحمتوں اور برکتوں میں ڈھانپ لے۔ ان کی صدی بھر کی محنت، قربانی اور سچائی کو ایک صدقہ جاریہ بنا دے۔ ان کی آنکھوں کا یہ پیغام نسلوں کے دلوں میں زندہ رہے۔ ان کا سفر ہماری تاریخ کا چراغ بن کر آنے والوں کو روشنی دکھاتا رہے۔
یاور عباس، آپ وقت کے دھندلکوں میں کھڑا وہ مینار ہیں جسے دیکھ کر آنے والی نسلیں راستہ ڈھونڈیں گی۔ آپ کا وجود انسانیت کے نام ایک دعا ہے اور آپ کی کہانی تاریخ کے نام ایک وصیت۔

