Waddi Ma, Sehan Ki Dhoop Mein Jalta Diya
وڈی ما، صحن کی دھوپ میں جلتا دیا

جب سے ہوش کی آنکھ کھلی تو "ما"، ماں کا شارٹ، کے ساتھ ایک اور چہرہ بھی دل کے پردے پر نقش ہوا، وڈی ما، دادی اماں، کا چہرہ۔ زمانے کی آنکھ جسے سخت، تیز، کڑک عورت کہتی تھی، لیکن میرے لیے وہ سراپا مہر و محبت تھیں۔ اُن کی آواز اونچی ضرور تھی مگر دل میں ایسا سکون چھپا تھا جو کسی درویش کے دل میں بھی کم ہی ملتا ہے۔ وہ بولتیں تو لگتا جیسے صحن میں درختوں کی شاخیں ہل رہی ہیں، جیسے کسی پرانے گیت کی دھن ہو جسے سن کر خوف بھی ادب میں ڈھل جائے۔
وڈی ما سے آس پاس کے مرد بھی ڈرتے تھے۔ وہ خوف جو احترام سے جنم لیتا ہے۔ کوئی اُن کے سامنے اونچی آواز نہ نکالتا۔ اُن کے لہجے میں ایک ایسی خود اعتمادی تھی جو کسی کتاب یا درس سے نہیں بلکہ زندگی کی آگ سے تپ کر نکلتی ہے۔ اُنہوں نے زندگی کے ہر موڑ پر مردوں سے زیادہ ہمت دکھائی۔ اُن کے ہاتھوں کی رگیں محنت کی داستانیں سناتی تھیں، ان کے قدموں میں زمین کی خوشبو بسی تھی۔
وہ دوسروں کے لیے نرم، خود کے لیے فولاد تھیں۔ غریب کا دکھ ان کے دروازے سے لوٹتا نہیں تھا۔ کسی کے گھر سے دال ختم ہو جائے تو چپکے سے بھیج دیتیں۔ کسی کے بچے کے پاؤں ننگے ہوں تو پرانے جوتے دھو کر سیدھے کرتیں اور ایسے پیش کرتیں جیسے نیا تحفہ ہو۔ اُن کے پاس دولت نہ تھی، لیکن سخاوت میں کسی بادشاہ سے کم نہ تھیں۔
ان کے دن محنت کے عادی تھے۔ صبح سورج کے نکلنے سے پہلے وہ جاگ جاتیں۔ ہاتھ میں جھاڑو، سر پر دوپٹہ، چہرے پر پسینے کی چمک اور لبوں پر کسی گنگناہٹ کا سایہ۔ صحن میں جھاڑو دیتے ہوئے، برتن مانجھتے ہوئے، چولہا جلاتے ہوئے، یا پھر گائے کے گوبر کے اُپلے بنا کر دھوپ میں سکھاتے ہوئے، ہر عمل میں ایک عبادت چھپی ہوتی۔ وہ صرف روزی نہیں کماتیں، وہ عزت کماتیں۔
کھجور کے پتوں سے بان بناتیں، انہیں بازار لے جاتیں۔ کسی مرد کی محتاج نہیں تھیں۔ ان کے ہاتھوں میں محنت کا ہنر تھا اور دل میں خودداری کا غرور۔ اُنہوں نے کبھی مانگنا نہیں سیکھا، دینا سیکھا تھا۔ ان کے صحن میں مرغیاں کُکڑاتی رہتیں، انڈے اور چوزے ان کی ہنر مندی کی علامت تھے۔ ان کے مویشیوں میں جیسے زندگی کا شور بسا ہو۔ کبھی بچھڑا پیدا ہوتا تو وہ اسے یوں سینے سے لگاتیں جیسے کوئی ماں اپنے بچے کو پہلی بار گود میں لے۔ پھر جب وہ بڑا ہوتا تو بازار لے جا کر بیچ دیتیں، مگر اس کے جانے پر آنکھیں ضرور بھیگ جاتیں۔
ہمارے صحن میں پھلاہی کا ایک درخت تھا۔ وڈی ما کو اس درخت سے خاص انس تھا۔ گرمیوں میں وہ اس کے نیچے چارپائی ڈال کر بیٹھ جاتیں۔ ہاتھ میں پنکھا، آنکھوں میں کہانیاں۔ دھوپ پتوں سے چھن کر ان کے چہرے پر پڑتی تو یوں لگتا جیسے وقت بھی اُن کے سامنے رک گیا ہو۔ سردیوں میں وہی صحن دھوپ سے بھر جاتا۔ وہاں وہ چادر اوڑھ کر بیٹھتیں، دھوپ سینکتیں اور اردگرد محفل جم جاتی۔ اُن کے پاس آ کر سب اپنی بات کہنے کی ہمت پاتے۔ اُن کے لفظ تلخ ضرور ہوتے مگر ہر جملے کے اندر دعا چھپی ہوتی۔
مہمان ان کے گھر مہینوں رہتے اور وہ کبھی تنگ نہ ہوتیں۔ روٹی کم ہو جائے تو اور آٹا گوندھ لیتیں، سالن کم ہو تو پانی اور مرچ مصالحہ بڑھا لیتیں۔ کسی کے آنے سے گھر چھوٹا نہیں ہوتا تھا، برکت بڑھ جاتی تھی۔ اُن کے ہاتھ کے پکے سالن کی خوشبو گلیوں میں بکھر جاتی۔ وہ باورچی خانے کی ملکہ تھیں، لیکن اُس تخت پر ناز نہیں، محبت بٹھا رکھی تھی۔
وڈی ما کا دل وسیع تھا۔ بھائی سے رنجشیں تھیں، مگر اُن کے بچوں پر جان دیتیں۔ جب بھائی کے ساتھ وراثت کا جھگڑا ہوا تو تھانے تک گئیں، اپنے حق کے لیے آواز بلند کی۔ وہ کسی سے ڈرتی نہیں تھیں۔ اپنے حصے کا مال خود وصول کیا، لیکن دل میں ذرا بھی کینہ نہ رکھا۔ جو اُن کے خلاف بولا، اگلے دن اُسی کے دکھ میں رو دی۔ اُن کا ظرف ان کے چہرے سے بڑا تھا۔
مجھ سے انہیں خاص انس تھا۔ میں ان کے لیے باقی سب سے مختلف تھا۔ وہ میری چھوٹی چھوٹی خواہشیں یاد رکھتیں۔ کبھی میرے لیے گڑ کی چائے بناتیں، کبھی مکھن کے ساتھ پراٹھا رکھ دیتیں۔ گاؤں جاتیں تو مرنڈا، مکھانے یا پتاسے لاتیں۔ ان کے جھریوں بھرے ہاتھ میرے سر پر پھرتے تو جیسے پوری دنیا تھم جاتی۔ وہ کبھی تھکتی نہیں تھیں، میری طرح میری ماں سے بھی خاص انس تھا۔ ماں کے پاس بیٹھ جاتیں تو اُن کی آنکھوں میں نرمی آ جاتی۔ وہ دونوں جیسے دو بہنیں یا سہیلیاں ہوں۔ باقی بہوؤں کو ڈانٹ دیتیں مگر ما سے ہمیشہ نرمی سے بات کرتیں۔
میں آج بھی اُن کی آواز سنتا ہوں تو دل لرز جاتا ہے۔ اُن کے بولنے کا انداز، اُن کے قدموں کی چاپ، اُن کے برتنوں کی جھنکار، ہر چیز دل کے کسی گوشے میں محفوظ ہے۔ ان کے جانے کے بعد گھر کا صحن ویران ہوگیا۔ وہ پھلاہی کا درخت اب بھی ہے، مگر اس کے نیچے بیٹھنے والا کوئی نہیں۔ دھوپ وہی ہے، لیکن اب اس میں وہ گرمی نہیں۔ ان کے بعد موسم جیسے اپنی روانی بھول گئے۔
وقت گزرتا گیا مگر وڈی ما کا عکس نہیں مٹ سکا۔ آج جب کسی بزرگ عورت کو دیکھتا ہوں جو اونچی آواز میں کسی بچے کو ڈانٹ رہی ہو، تو دل کہتا ہے یہ بھی کسی کی وڈی ما ہوگی۔ جو باہر سے سخت ہے مگر اندر سے پگھلا ہوا چراغ۔ جن کے بول تیز ہیں مگر نیت نرم۔ جو زمانے کے تھپیڑوں میں بھی مسکراہٹ بچا لیتی ہیں۔
وڈی ما اب نہیں رہیں، مگر ان کا وجود اب بھی زندہ ہے۔ ہر اُس عورت میں جو اکیلے پورے خاندان کا سہارا بن جاتی ہے۔ ہر اُس ماں میں جو تھکن کے باوجود چولہا جلاتی ہے۔ ہر اُس عورت میں جو اپنے حق کے لیے ڈٹ جاتی ہے، مگر دل میں نفرت نہیں رکھتی۔
میں نے اپنی وڈی ما سے سیکھا کہ عزت، محنت اور محبت، یہی تین لفظ ہیں جو انسان کو امر کرتے ہیں۔ وہ کسی کتاب کی عالمہ نہیں تھیں، مگر ان کے عمل علم سے بڑے تھے۔ اُنہوں نے دکھا دیا کہ سخاوت دولت سے نہیں، نیت سے ہوتی ہے۔ محبت روپے سے نہیں، رشتے سے بنتی ہے اور عورت کمزور نہیں، وہ خود ایک کائنات ہے۔
آج جب میں ان کے بارے میں لکھتا ہوں تو قلم خود رک رک کر چلتا ہے، جیسے ہر لفظ ان کی یاد میں رکوع کر رہا ہو۔ ان کی ہنسی اب بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے، ان کی ڈانٹ میں اب بھی دعا کی خوشبو ہے۔ وہ میرے بچپن کی مہر تھیں، میرے صحن کا دیا، میرے دل کی روشنی۔
وڈی ما شاید چلی گئیں، لیکن اُن کی محنت، اُن کی سخاوت، اُن کی محبت، اب بھی میرے خون میں گردش کرتی ہے۔ ان جیسی عورتیں کبھی مرتی نہیں، وہ نسلوں میں منتقل ہو جاتی ہیں اور جب کسی کے صحن میں کوئی بچہ ہنستے ہوئے اپنی دادی کے پاس جا بیٹھتا ہے، تو سمجھ لو، کہیں نہ کہیں کوئی وڈی ما پھر سے زندہ ہوگئی ہے۔

