Visionary Maryam Nawaz Aur Confuse Awam
وژنری مریم نواز اور کنفیوز عوام

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں اگر کوئی لیڈر کچھ کرے تو اس پر انگلیاں اٹھتی ہیں اور اگر کچھ نہ کرے تو پھر اس کی نااہلی کا ماتم کیا جاتا ہے۔ قوم ایک طرف شکایت کرتی ہے کہ ہمارے حکمران عوامی مسائل پر توجہ نہیں دیتے، دوسری طرف جب کوئی حکمران اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے کچھ کرنے نکلتا ہے تو اسی پر کڑی تنقید کی جاتی ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حالیہ جاپان کے دورے پر ہونے والی بحث و مباحثہ اسی دوہرے رویے کی واضح مثال ہے۔ سوشل میڈیا پر چند لمحوں کی جذباتی گفتگو سے نہ تو قومیں ترقی کرتی ہیں اور نہ ہی پالیسی سازی کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک صوبائی حکومت اپنے عوام کے لیے جدید سوچ اور ترقیاتی ماڈلز ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہے تو اس میں برائی کیا ہے؟
مریم نواز کا جاپان کا دورہ دراصل ایک ایسے وژن کی جھلک دکھاتا ہے جس میں پنجاب کو محض کھیتوں، فصلوں اور روایتی طرزِ حکومت تک محدود رکھنے کے بجائے اسے جدید دنیا سے ہم آہنگ کرنے کا عزم شامل ہے۔ یوکوہاما جیسے جدید شہر کے ساتھ سٹی ٹو سٹی تعاون کی بات ہو یا جاپان کی ٹیکنالوجی، ویسٹ مینجمنٹ، ڈیری انڈسٹری اور ٹرانسپورٹ سسٹم کو پنجاب میں لانے کی کوششیں، یہ سب اسی سوچ کی علامت ہیں کہ ترقی محض تقریروں اور بیانات سے نہیں آتی بلکہ عملی منصوبہ بندی، سیکھنے اور اپنانے سے آتی ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی مخالفت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اگر کوئی حکمران دورہ کرے تو اسے عیش و عشرت قرار دیا جاتا ہے اور اگر نہ کرے تو نااہلی۔
یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس کی ترقی پورے ملک کی ترقی کے مترادف ہے۔ جب پنجاب میں جدید انفراسٹرکچر بنتا ہے، صحت کے نظام میں بہتری آتی ہے اور تعلیمی مواقع وسیع ہوتے ہیں تو اس کے اثرات براہِ راست پورے پاکستان پر پڑتے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ باقی صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ایسے عملی اقدامات کیوں نہیں کرتے؟ اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ یہ فرق وژن اور نیت کا ہے۔
شریف خاندان نے ہمیشہ محنت، خدمت اور تخلیقی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے۔ نواز شریف کا وژن ہمیشہ عوامی رہا ہے، انہوں نے ملک کو کچھ نیا دینے کی جستجو نہیں چھوڑی۔ بعض لوگ اسے صرف خاندانی اثر و رسوخ کہتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ دوسرے بڑے سیاسی خاندان اور افراد بھی اثر و رسوخ رکھتے ہیں لیکن افسوس کہ عوامی فلاح سے بے نیاز ہیں۔ دوسری طرف دوسرے صوبائی وزرائے اعلیٰ یا تو وژن ہی نہیں رکھتے یا پھر اپنی سہل پسندی کے حصار سے باہر آنے کی جرات نہیں کرتے۔
یہاں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ مریم نواز کی سیاست صرف پنجاب تک محدود نہیں ہے۔ ان کے دوروں میں دراصل ایک تربیت بھی شامل ہے، وہ تربیت جو مستقبل کے لیے ہے۔ جب کوئی صوبائی وزیر اعلیٰ جاپان، چین یا دیگر ترقی یافتہ ممالک میں جا کر ان کے نظام کو قریب سے دیکھتا ہے تو یہ تجربہ بعد میں مرکز کی سطح پر پالیسی سازی میں کام آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ یہ دورے دراصل مریم نواز کو وزارتِ عظمیٰ کے لیے تیار کرنے کا ایک مرحلہ ہیں۔ لیکن یہاں بھی سوال وہی ہے کہ اگر ایک لیڈر مستقبل کی تیاری کے طور پر یہ سب کچھ کر رہا ہے تو اس میں قباحت کیا ہے؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم ایسے لیڈر دیکھیں جو کام کرنے کی خواہش رکھتے ہوں، نہ کہ وہ جو گیارہ بجے جاگیں اور دوپہر کو دفتر میں آ کر رسمی حاضری کے بعد واپس گھر جا بیٹھیں؟
تنقید کا ایک بڑا پہلو ایئر فورس کے خصوصی طیارے کا استعمال ہے۔ سوال اٹھایا گیا کہ کیا یہ جہاز سفارش پر ملا یا حکومت پنجاب نے پیسے دے کر حاصل کیا؟ اس کا جواب پنجاب حکومت نے واضح طور پر دیا کہ جہاز پیسے دے کر چارٹرڈ کیا گیا ہے۔ اب اگر حکومت اپنے وزیر اعلیٰ کے سرکاری دورے کے لیے وسائل استعمال کرتی ہے تو اسے اسکینڈل بنا دینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ ان دوروں کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ اگر واقعی سرمایہ کاری آتی ہے، اگر جاپان کی ٹیکنالوجی پنجاب کے عوام کی زندگی بدل دیتی ہے، اگر صاف پانی، جدید ٹرانسپورٹ اور صحت کے منصوبے شروع ہوتے ہیں تو پھر یہ سرمایہ کاری ان اخراجات کے مقابلے میں بہت چھوٹی قیمت ہوگی۔
اس تناظر میں ہمیں تاریخ کا ایک سبق بھی یاد رکھنا چاہیے۔ نواز شریف جب وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو انہوں نے وزیراعظم جونیجو صاحب کے ساتھ جنوبی کوریا کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کا نتیجہ موٹروے کی صورت میں نکلا جس نے پاکستان کی سفری تاریخ بدل دی۔ اگر اس وقت بھی یہ سوچا جاتا کہ کیوں اخراجات کیے جا رہے ہیں اور کیوں غیر ملکی دورے ہو رہے ہیں تو آج بھی ہم ٹوٹے پھوٹے راستوں اور بیڈ فورڈ بسوں میں دھکے کھاتے سفر کر رہے ہوتے۔ یہی فرق وژنری قیادت اور عام قیادت میں ہے۔ وژنری قیادت وقت سے آگے دیکھتی ہے، تنقید برداشت کرتی ہے اور پھر بھی اپنے منصوبے پر ڈٹی رہتی ہے۔
لیکن یہاں ایک اور پہلو بھی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مریم نواز کو یاد رکھنا ہوگا کہ پنجاب صرف لاہور یا وسطی پنجاب نہیں ہے۔ تلہ گنگ، اٹک، خوشاب اور دیگر علاقے بھی اسی صوبے کا حصہ ہیں۔ وہاں کے عوام اب بھی پسماندگی میں جی رہے ہیں۔ ان کے لیے ٹرانسپورٹ، تعلیم اور صحت کی وہی پرانی سہولیات ہیں جو ستر اور اسی کی دہائی میں تھیں۔ اگر مریم نواز واقعی ایک بڑے وژن کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہیں تو انہیں پنجاب کے ہر کونے کو اپنے ترقیاتی ایجنڈے میں شامل کرنا ہوگا۔
اسی طرح ایک اہم مسئلہ بغیر فیملی بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے ساتھ ناانصافی کا ہے۔ وہ پاکستانی جو اپنی فیملی کے بغیر بیرون ملک محنت کرتے ہیں اور اپنی کمائی پاکستان بھیجتے ہیں، ان کے بچوں کو پنجاب میں پبلک سیکٹر میڈیکل کالجز کے مخصوص کوٹے سے محروم کر دینا ایک سنگین ناانصافی ہے۔ یہ پالیسی صرف پنجاب کے سمندر پار پاکستانیوں پر لاگو ہے جبکہ باقی صوبوں میں اب بھی کوٹہ موجود ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس پر مریم نواز کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بغیر فیملی سمندر پار پاکستانی ہی وہ طبقہ ہے جو سب سے زیادہ پاکستان کو معاشی طور پر سہارا دیتا ہے۔ ان کے ساتھ انصاف کرنا صرف سیاسی نہیں بلکہ اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایک قوم کے طور پر تنقید برائے تنقید کے عادی ہو چکے ہیں۔ اگر کوئی حکمران دن رات کام کرے تو بھی ہم خوش نہیں اور اگر کچھ نہ کرے تو بھی ہم خوش نہیں۔ ہم یہ طے ہی نہیں کر پاتے کہ ہمیں دراصل کس قسم کی قیادت چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں وہی قیادت چاہیے جو ہمیں سوٹ کرے، جو ہماری سہل پسندی کو قائم رکھے اور ہمیں محض نعرے دیتی رہے۔ لیکن ترقی نعرے بازی سے نہیں آتی۔ ترقی قربانی، محنت اور وژن سے آتی ہے۔ اگر مریم نواز یا کوئی اور لیڈر یہ وژن دکھا رہا ہے تو ہمیں اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے نہ کہ ہر وقت انگلیاں اٹھانی چاہییں۔
قوم کو سوچنا ہوگا کہ رول ماڈل کون ہونا چاہیے؟ وہ لیڈر جو کچھ نہ کرے یا وہ لیڈر جو دن رات محنت کرے، دنیا سے سیکھے اور اپنے عوام کے لیے بہتر سے بہتر نظام لانے کی کوشش کرے؟ اگر ہم نے ہر دورے کو عیاشی، ہر اخراجات کو ضیاع اور ہر منصوبے کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی نذر کر دیا تو ہم کبھی آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ ہمیں ایک بات تسلیم کرنی ہوگی کہ ترقی کا سفر قربانی مانگتا ہے، وقت مانگتا ہے اور وژن مانگتا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ مریم نواز اپنے کام پر فوکس رکھیں، عوامی تنقید کو برداشت کریں لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھیں کہ ترقی کا حق صرف لاہور کے چند اضلاع تک محدود نہیں ہے بلکہ پورے پنجاب کا ہے۔ اٹک، تلہ گنگ سے راجن پور تک ہر شہری کا برابر کا حق ہے۔
اسی طرح بغیر فیلی بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے ساتھ انصاف کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ یہ سب کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو تاریخ انہیں ایک وژنری لیڈر کے طور پر یاد رکھے گی۔
ہمارا اصل امتحان یہ ہے کہ ہم اپنے لیڈروں کے وژن کو پہچاننے کی صلاحیت پیدا کریں۔ ورنہ ہم ہمیشہ انہی چار فٹ کی سڑکوں اور بیڈ فورڈ بسوں کے دھچکوں میں ہی الجھے رہیں گے اور دنیا ہم سے بہت آگے نکل جائے گی۔

