Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Unhi Ke Bachon Se Haq Cheen Liya Gaya

Unhi Ke Bachon Se Haq Cheen Liya Gaya

انہی کے بچوں سے حق چھین لیا گیا

پاکستان کی تاریخ کے کئی ایسے موڑ آئے ہیں جہاں ظلم کو قانون کا لبادہ اوڑھا کر "پالیسی" کا نام دے دیا گیا۔ ظلم کبھی براہِ راست نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے لیے دفتر کے کاغذ اور نوٹیفکیشن کی سیاہی استعمال کی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PM&DC) کا ایک نوٹیفکیشن آیا ہے جس نے دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں کے دل چھلنی کر دیے ہیں۔ وہ پاکستانی جو اپنے ملک کے لیے دن رات خون پسینہ بہا کر زرِ مبادلہ بھجواتے ہیں، ان کے بچوں کے مستقبل سے یہ کھلواڑ ناقابلِ معافی ہے۔

نوٹیفکیشن کہتا ہے کہ اب میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں"غیر ملکی طلبہ" کے لیے 10 فیصد نشستیں رکھی جائیں گی۔ یہ نشستیں ان "نان ایکسپیٹریٹس" یعنی ان غیر ملکیوں کے لیے ہوں گی جو پاکستان سے کبھی کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ فیس "فارن ایکسچینج" میں دیں گے۔ دوسرے الفاظ میں، یہ ایک سودا ہے، پاکستان کے تعلیمی ادارے اور پاکستان کے بچوں کا مستقبل بیچ کر غیر ملکیوں سے ڈالر بٹورنے کا سودا۔

یہاں سوال یہ نہیں ہے کہ پاکستان کو زرِ مبادلہ چاہیے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ وہ پاکستانی جو گزشتہ کئی دہائیوں سے سمندر پار مزدوری کرکے، دن رات کی محنت سے، اپنی ہڈیوں کا گودا نچوڑ کر پاکستان کو اربوں ڈالر سالانہ بھجوا رہے ہیں، ان کے بچوں کا حق کس جرم میں چھینا گیا؟

ہر سال پاکستان کا سب سے بڑا زرمبادلہ انہی ایکسپیٹریٹس کی بدولت آتا ہے۔ یہی پیسہ ملک کی معیشت کو سہارا دیتا ہے۔ یہی پیسہ ملک کے بجٹ میں سانس ڈالتا ہے۔ یہی پیسہ ملک کے کرنسی ذخائر کو زندہ رکھتا ہے۔ مگر افسوس کہ انہی پاکستانیوں کے بچوں کو میڈیکل نشستوں سے محروم کرکے ان کا حق ان غیر ملکیوں کو دے دیا گیا ہے جن کا پاکستان سے کوئی خونی رشتہ نہیں۔

یہ کیسی ناانصافی ہے کہ جو خاندان اپنا وطن چھوڑنے کے باوجود دل سے پاکستان سے جڑے رہے، جو اپنی شناخت اور جڑوں پر فخر کرتے ہیں، ان کے بچوں کو کہا جا رہا ہے: "اگر تم پاکستانی ہو تو حق دار نہیں، لیکن اگر تم کوئی غیر ملکی ہو تو خوش آمدید، ہماری میڈیکل سیٹ خرید لو!"

یہ پالیسی دراصل ایک کھلی توہین ہے۔ ایکسپیٹریٹس کا یہ زخم صرف تعلیمی نہیں، یہ جذباتی ہے، قومی ہے اور قومی شناخت سے جڑا ہوا ہے۔ ان کے بچوں کے ساتھ یہ امتیاز اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان کا سسٹم اپنے ہی شہریوں کو "دوسرے درجے" کا شہری سمجھتا ہے۔

اگر مقصد صرف زرِ مبادلہ لانا ہے تو بتائیے، کیا سب سے زیادہ زرِ مبادلہ وہ غیر ملکی بھیجیں گے جنہیں پاکستان کا جغرافیہ تک نہیں معلوم؟ یا وہ ایکسپیٹریٹ پاکستانی جن کے دل آج بھی لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ کے ساتھ دھڑکتے ہیں؟ وہی پاکستانی مزدور جو خلیج کی تپتی دھوپ میں پسینہ بہا کر، یورپ اور امریکا میں دن رات دو دو نوکریاں کرکے، صرف اس لیے ڈالر کماتے ہیں کہ وطنِ عزیز کی معیشت کو سہارا دے سکیں۔

کیا ان ایکسپیٹریٹس کے بچے قصوروار ہیں؟ کیا ان کی یہ خطا ہے کہ ان کے والدین نے پاکستان سے محبت میں ہجرت کے باوجود رشتہ نہیں توڑا؟ کیا یہ جرم ہے کہ وہ پاکستان کا پاسپورٹ سینے سے لگائے پھرتے ہیں اور پاکستان کو زرِ مبادلہ فراہم کرتے ہیں؟

یہ فیصلہ ان ہزاروں خاندانوں کے دل پر کاری وار ہے جو خواب دیکھتے تھے کہ ان کے بچے پاکستان کے میڈیکل کالجز میں پڑھ کر ڈاکٹر بنیں گے، اپنے ملک کی خدمت کریں گے۔ لیکن اب انہیں کہا جا رہا ہے کہ "اگر تم واقعی پاکستانی ہو تو سیٹ نہیں ملے گی، لیکن اگر تم غیر ملکی ہو تو ڈالر لا کر سیٹ خرید لو۔ "

یہ پالیسی صرف زیادتی نہیں، یہ کھلی حق تلفی ہے۔ یہ قومی غیرت کے خلاف ایک فیصلہ ہے۔ یہ ان لاکھوں پاکستانیوں کے ساتھ ناانصافی ہے جنہوں نے کبھی پاکستان کا ہاتھ نہیں چھوڑا۔

ہم بطور ایکسپیٹریٹ پاکستانی اس فیصلے کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ ہم حکومتِ پاکستان سے سوال کرتے ہیں:

کیا ہمارے خون پسینے کی کمائی کا یہ صلہ ہے؟

کیا ہمارے بچوں کا مستقبل یوں بیچ دینا انصاف ہے؟

کیا پاکستان کا مطلب یہی تھا کہ غیر ملکیوں کے لیے دروازے کھول دیے جائیں اور اپنے ہی بیٹوں بیٹیوں پر دروازے بند کر دیے جائیں؟

ہم حکومت سے، وزیراعظم سے اور ہر اس ذمے دار سے گزارش کرتے ہیں کہ اس فیصلے کو فی الفور واپس لیا جائے۔ یہ نشستیں انہی بچوں کا حق ہیں جن کے والدین پاکستان کو سالانہ اربوں ڈالر بھیجتے ہیں۔ یہی اصل "فارن ایکسچینج" ہے، یہی اصل سرمایہ ہے۔

اگر پاکستان واقعی اپنے محسنوں کو عزت دینا چاہتا ہے تو انہیں"فارم X" پر شہریت چھوڑنے پر مجبور نہ کرے۔ انہیں غیر ملکی نہ سمجھے۔ انہیں اپنی اولاد سمجھے، اپنے مستقبل کا سہارا سمجھے۔

یہ وقت ہے کہ ہم سب آواز اٹھائیں۔ اگر ہم خاموش رہے تو کل ہمارے بچوں کے تعلیمی خواب برباد کر دیے جائیں گے اور پاکستان کا نام صرف "ڈالرز کے بدلے تعلیم بیچنے والے ملک" کے طور پر رہ جائے گا۔

ہم پر امید ہیں کہ حکومت یہ ناانصافی ختم کرے گی۔ کیونکہ اگر یہ ظلم برقرار رہا تو یہ صرف ایک پالیسی نہیں ہوگی بلکہ یہ پاکستان کے اپنے محسنوں کے خلاف اعلانِ جنگ ہوگا۔

آخر میں، میں سمندر پار تمام پاکستانی بھائیوں اور بہنوں سے مؤدبانہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ یہ کوٹہ دراصل آپ سب کا قانونی اور دیرینہ حق تھا۔ یہ حق والدین کا تھا، بچوں کا نہیں۔ چاہے آپ اپنے بچوں کے ساتھ سمندر پار مقیم ہوں یا اکیلے، یہ حق ہر سمندر پار پاکستانی کے لیے یکساں تھا۔

لیکن افسوس کہ کچھ والدین، جو اپنے بچوں کے ساتھ سمندرپار مقیم ہیں، نے ایک خودغرضانہ مہم کے ذریعے اس کوٹے کو صرف اپنے لیے حاصل کر لیا اور بغیر خاندان سمندرپار رہنے والوں کے بچوں کو اس دیرینہ حق سے محروم کر دیا۔

یاد رکھیے، دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر آپ کبھی حقیقی فلاح نہیں پا سکتے اور آج اس خودغرضی کے نتائج نئی پالیسی کی شکل میں سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔

کچھ لوگ دلائل دیتے ہیں کہ سمندرپار خاص طور پر خلیجی ممالک کے سکول اچھے نہیں، ٹیوشن سپورٹ دستیاب نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ سمندر پار پاکستانی، جن کے بچے بغیر ان کی نگرانی کے پاکستان میں رہتے ہیں، وہاں ان کے بچوں کو کیا تعلیمی و ٹیوشن سہولیات حاصل ہیں؟

ان میں زیادہ تر کا تعلق پاکستان کے دور دراز اور غریب گاؤں و دیہات سے ہے، جہاں تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ والد کی نگرانی اور تحفظ حاصل نہیں ہے۔ پھر بھی، محنت اور لگن سے پڑھتے ہیں، جان مارتے ہیں، مقابلہ کرتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔ وہ بچے جن کا حق مارا گیا، اپنے آپ میں ایک مثال ہیں اور آپ کے بچوں کی طرح تن آسان نہیں ہیں۔ سخت اکیلی زندگی گزارتے ہیں اور آگے بڑھ کر مقابلہ کرتے ہیں۔

آپ سوال کرتے ہیں ہم اپنے بچوں اکیلا پاکستان کیسے چھوڑ دیں۔ تو اس کا جواب ہے ایسے چھوڑیں جیسے ان نوے فیصد آپ کے بھائیوں نے چھوڑ رکھے ہیں۔

یاد رکھیے، جن لوگوں نے فرسودہ دلائل پیش کرکے ان کا حق مارا، وہ سمندر پار پاکستانیوں میں نوے فیصد ہیں اور زرمبادلہ میں بھی ان کا حصہ نوے فیصد ہے۔ یہ حقیقت ہمارے کئی حکومتی ارکان نے بھی تسلیم کی ہے، مگر پھر بھی کوئی اس حق کو واپس دلانے میں مددگار ثابت نہیں ہو رہا۔

تو برائے کرم سب سمندرپاروں کے لیے آواز اٹھائیے۔ خود غرض نہ بنیے۔ دل بڑا کیجیے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali