Tum Jo Chaho To Parho, Xi Ka Khat, Professor Andrew Chi Chih Yao Ke Naam
تم جو چاہو تو پڑھو، شی کا خط، پروفیسر اینڈریو چی چی یاو کے نام

چینی روایات میں خطوط کو سونا کہا گیا ہے، کیونکہ یہ صرف کاغذ کے ٹکڑے نہیں بلکہ احساسات، تعلق اور امیدوں کے سفیر ہوتے ہیں۔ ہزاروں برسوں سے یہ خطوط پہاڑوں اور سمندروں کو عبور کرتے ہوئے دلوں کو جوڑتے رہے ہیں۔ صدر شی جن پِنگ، جو چین کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور ملک کے صدر ہیں، اپنی مصروفیات کے باوجود مختلف طبقوں اور دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والے خطوط کے جواب دینے کے لیے وقت نکالتے ہیں۔ ان کے یہ خطوط دراصل نئے چین کی روحانی داستانوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ انہی خطوط کے سلسلے میں ایک خط مشہور کمپیوٹر سائنسدان اور ٹیورنگ ایوارڈ یافتہ پروفیسر اینڈریو چی چی یاو کو موصول ہوا، جس نے چینی علمی دنیا میں ایک نئی روح پھونک دی۔
پروفیسر یاو، جو 78 برس کے ہیں، چین کے واحد کمپیوٹر سائنسدان ہیں جنہیں دنیا کا سب سے بڑا سائنسی اعزاز، ٹیورنگ ایوارڈ، ملا۔ وہ کئی دہائیوں تک امریکہ کی معروف یونیورسٹیوں میں تدریس کرتے رہے لیکن 2004 میں ایک غیر معمولی فیصلہ کرتے ہوئے اپنی مستقل امریکی ملازمت اور گھر کو خیر باد کہہ کر چین واپس لوٹ آئے۔ انہوں نے چِنگ ہوا یونیورسٹی میں شمولیت اختیار کی، جہاں وہ آج آرٹیفیشل انٹیلیجنس کالج کے ڈین اور بین العلومی سائنسی ادارے کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر شی کا خط ان کے لیے فخر کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ ذمہ داری کا احساس بھی بڑھا گیا ہے۔ صدر نے ان کی دو دہائیوں کی علمی و تحقیقی خدمات کو سراہا اور امید ظاہر کی کہ وہ آئندہ بھی سائنسی خودانحصاری اور تعلیمی خودکفالت کے قومی ہدف کے لیے نئی راہیں متعین کریں گے۔
پروفیسر یاو نے اپنے خط میں صدر کو بتایا تھا کہ وہ چین میں واپس آ کر نئی نسل کے لیے سائنسی تعلیم اور اختراع کی بنیاد مضبوط کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "میں نے ہمیشہ اپنے ملک کی ترقی پر یقین رکھا ہے۔ میں نے کبھی اپنے اس عزم کو نہیں بھلایا کہ اپنے وطن کے لیے کچھ کر دکھاؤں"۔ چنگ ہوا یونیورسٹی میں وہ پچھلے بیس برس سے اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل طلبہ کی تربیت اور نئی تحقیق کے فروغ میں سرگرم ہیں۔ ان کے بقول، "چین کی عظیم نشاۃِ ثانیہ کے سفر میں میرا معمولی کردار بھی میرے لیے زندگی کا سب سے بڑا اعزاز ہے"۔
یاو کے بقول صدر شی کا پیغام ان کے لیے سمت طے کرنے والا سنگ میل ہے۔ وہ اب اپنے تحقیقی گروپ کے ساتھ نئے تعلیمی ماڈل تشکیل دے رہے ہیں تاکہ کمپیوٹر سائنس اور مصنوعی ذہانت میں بین العلومی تحقیق کو فروغ دیا جا سکے۔ ان کا ماننا ہے کہ ایک خودمختار علمی نظام اور مقامی سطح پر اعلیٰ تربیت یافتہ افرادی قوت کا قیام چین کی طویل المیعاد ترقی کی ضمانت بنے گا۔ صدر شی نے اپنے پیغام میں واضح کیا کہ چین کے پاس دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی ڈھانچہ ہے اور وہ اپنے بل بوتے پر عالمی معیار کے ماہرین تیار کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یاو نے جب 2000 میں ٹیورنگ ایوارڈ جیتا تو دنیا کو توقع تھی کہ وہ امریکہ میں مزید بڑی کامیابیاں حاصل کریں گے، مگر انہوں نے ایک انقلابی فیصلہ کیا، وطن واپسی۔ وہ کہتے ہیں، "میں نے اپنا گھر بیچا، پرنسٹن یونیورسٹی سے استعفیٰ دیا اور چین واپس آگیا تاکہ اپنے ملک میں عالمی معیار کی یونیورسٹی اور تعلیم کا نظام قائم کر سکوں"۔ امریکہ میں 36 برس گزارنے کے باوجود ان کی محبت چین سے کم نہ ہوئی۔ "ہم جہاں بھی ہوں، ہم چینی ہیں۔ اپنے ملک میں نئی نسل کو تربیت دینا اور جدید ٹیکنالوجی میں انقلاب لانا میرے لیے سب سے بڑی خوشی ہے"۔
چین واپس آنے کے بعد ان کے ذہن میں ایک سوال گونجا: ہم طلبہ میں تخلیقی صلاحیت اور تصوراتی طاقت کیسے پیدا کریں؟ اس کے جواب میں انہوں نے 2005 میں چنگ ہوا یونیورسٹی میں "یاو کلاس" کے نام سے ایک خصوصی کلاس قائم کی، جس کا مقصد عام پروگرامر تیار کرنا نہیں بلکہ ایسے عالمی سطح کے کمپیوٹر ماہرین پیدا کرنا تھا جو مستقبل کی ٹیکنالوجی تشکیل دیں۔ وہ خود نصاب بناتے، کورس تیار کرتے اور بعض مضامین خود پڑھاتے۔ ان کے طلبہ کے مطابق، یاو ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں، چاہے طالب علم کی بات غلط ہی کیوں نہ ہو۔ "وہ کبھی تنقید نہیں کرتے، بس حوصلہ دیتے ہیں اور بار بار دیتے ہیں"، ایک شاگرد نے بتایا۔
مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھتے ہوئے یاو نے 2019 میں "ژی کلاس" کے نام سے ایک ایلیٹ پروگرام شروع کیا۔ 2021 میں انہوں نے کوانٹم انفارمیشن کلاس کا آغاز کیا اور حال ہی میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کالج کی بنیاد رکھی، جہاں وہ پہلے ڈین مقرر ہوئے۔ یہ کالج "کور اے آئی" اور "اے آئی پلس" جیسے دو بنیادی میدانوں میں تحقیق کر رہا ہے تاکہ عالمی معیار کی افرادی قوت پیدا کی جا سکے۔
مصنوعی ذہانت میں چین کی رفتار حیران کن ہے۔ چین اکیڈمی آف انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے مطابق، 2023 میں اس صنعت کا حجم 578 ارب یوآن تک پہنچ گیا۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ 2024 کے آخر تک چین کے بڑے اے آئی ماڈلز GPT-4 کے معیار کو چھو لیں گے یا اس سے آگے نکل جائیں گے۔ بیجنگ کے ژھی یوان ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ وانگ ژونگ یوان کے مطابق، "چین کی رفتار اب دھماکہ خیز مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور جلد ہی اے آئی ایپلی کیشنز تجارتی انقلاب برپا کر دیں گی"۔
امریکہ کی جانب سے پابندیاں عائد کیے جانے کے باوجود ماہرین پُرامید ہیں کہ یہ چین کی ترقی کو نہیں روک سکتیں۔ پچھلی دہائیوں میں چین نے اپنی مقامی صلاحیتوں اور ماہرین کا مضبوط ذخیرہ تیار کر لیا ہے۔ ان کے مطابق، بالآخر امریکہ کو بھی عالمی سطح پر اے آئی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے چین کے ساتھ تعاون کرنا پڑے گا۔
صدر شی نے 2023 میں "گلوبل اے آئی گورننس انیشی ایٹو" کا اعلان کیا، جس کا مقصد مصنوعی ذہانت کے عالمی نظم و نسق کے لیے مشترکہ اصول طے کرنا ہے۔ اس کے علاوہ، حکومت نے رواں سال "اے آئی پلس" منصوبہ بھی متعارف کرایا ہے تاکہ مصنوعی ذہانت کو قومی معیشت کے ہر شعبے میں نافذ کیا جا سکے۔ دراصل 2017 ہی میں چین نے ایک واضح ہدف مقرر کر دیا تھا کہ 2030 تک وہ مصنوعی ذہانت میں دنیا کا قائد بنے گا۔ چاہے وہ نظریہ ہو، ٹیکنالوجی ہو یا اطلاق۔
آج چین کی بڑی جامعات، جن میں چنگ ہوا، شنگھائی جیاو تونگ اور ہاربن انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی شامل ہیں، تیزی سے اے آئی اسکولز قائم کر رہی ہیں تاکہ نئی نسل کو مستقبل کی مہارتوں سے آراستہ کیا جا سکے۔ ماہرین کے مطابق اگرچہ کمپیوٹنگ پاور اور الگورتھمز میں چین کو ابھی کچھ فاصلہ طے کرنا ہے، مگر اس نے صنعت و ٹیکنالوجی کے امتزاج سے ترقی کا جو ماڈل اپنایا ہے، وہ دنیا کے لیے مثال بن سکتا ہے۔
پروفیسر یاو کا کہنا ہے کہ "آج چین نہ صرف مصنوعی ذہانت کے عملی استعمال میں دنیا کے صفِ اول میں ہے بلکہ نظریاتی سطح پر بھی عالمی قیادت کی طرف بڑھ رہا ہے"۔ ان کے بقول، "ہم نے ابھی مکمل منزل نہیں پائی، لیکن ہماری بنیاد مضبوط ہے، ہمارے تعلیمی ماڈل جدید ہیں اور ہم مکمل طور پر ایک خودکفیل سائنسی افرادی نظام تشکیل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں"۔
تاہم وہ اس ترقی کے ساتھ آنے والے خطرات سے بھی خبردار کرتے ہیں۔ "مصنوعی ذہانت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کی طاقت انسان کے قابو سے نکل سکتی ہے اگر ہم نے اجتماعی نظم و نسق قائم نہ کیا۔ دنیا کو مل کر ایسے اصول بنانے ہوں گے جو ٹیکنالوجی کو انسانیت کی خدمت میں رکھیں، نہ کہ اس کے خلاف"۔ ان کے مطابق، چین کو اپنی تحقیق کے ساتھ عالمی تعاون بھی بڑھانا ہوگا تاکہ آنے والے دس برسوں میں یہ طے کیا جا سکے کہ مصنوعی ذہانت کو محفوظ طریقے سے کیسے ترقی دی جا سکتی ہے۔
پروفیسر یاو کے الفاظ میں، "ہمیں ٹیکنالوجی کو قابو میں لانے کے لیے ٹیکنالوجی ہی کا سہارا لینا ہوگا۔ اس طرح ہم یہ یقینی بنا سکیں گے کہ مصنوعی ذہانت انسان کی زندگی کو بہتر بنائے۔ نہ کہ انسانی تہذیب کو خطرے میں ڈال دے"۔
یہ خط صرف ایک شخص سے دوسرے شخص تک نہیں پہنچا۔ یہ دراصل چین کے مستقبل کے ایک عہد کی علامت ہے، وہ عہد جس میں علم، کردار، تخلیق اور ذمہ داری سب ایک ہو کر انسان اور مشین کے درمیان ایک نیا رشتہ قائم کر رہے ہیں اور یہی وہ خواب ہے جو صدر شی جن پِنگ اپنے ہر خط میں اور چین کے ہر دل میں زندہ رکھتے ہیں۔

