Trump Ka Xi Se Shikwa
ٹرمپ کا شی سے شکوہ

دنیا کی سیاست اور تاریخ ہمیشہ ایک دوسرے سے جڑی رہتی ہیں۔ طاقت کے مراکز بدلتے ہیں تو بیانیے بھی نئے رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کو ختم ہوئے اسی برس گزر چکے ہیں لیکن اس کی بازگشت آج بھی عالمی سیاست میں سنائی دیتی ہے۔ چین نے بیجنگ میں اس موقع پر ایک عظیم الشان تقریب کا انعقاد کیا، جہاں ہزاروں افراد کے مجمع، عسکری قوت کے مظاہرے اور عالمی رہنماؤں کی موجودگی نے اسے ایک یادگار منظر بنا دیا۔ اس تقریب میں سب سے نمایاں بات چین کے صدر شی جن پنگ کی تقریر تھی جسے خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے "بہت ہی خوبصورت" اور "انتہائی متاثر کن" قرار دیا، مگر ساتھ ہی شکوہ بھی کیا کہ اس میں امریکہ کا ذکر زیادہ نہیں آیا۔ ان کے مطابق "امریکہ نے چین کی بہت مدد کی تھی اور اس قربانی کو تسلیم کیا جانا چاہیے تھا"۔
یہ جملہ محض ایک ذاتی شکوہ نہیں بلکہ بین الاقوامی سیاست کے بدلتے رجحانات کا عکاس ہے۔ جنگِ عظیم دوم کی تاریخ پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جاپان کی جارحیت نے چین کو بری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ 1937ء میں جاپان کی یلغار نے چین کی سرزمین کو آگ اور خون میں نہلا دیا۔ لاکھوں چینی مارے گئے، شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور قوم نے بھوک، افلاس اور بربادی کے خوفناک مناظر دیکھے۔ انہی دنوں امریکہ نے اپنی مداخلت اور امداد کے ذریعے چین کو سہارا دیا۔ 1941ء میں جب امریکہ براہِ راست جنگ میں شامل ہوا تو اس کی فضائی اور زمینی قوت نے نہ صرف جاپان کو کمزور کیا بلکہ چین کو سنبھلنے کا موقع بھی فراہم کیا۔ آخرکار 1945ء میں جاپان کی شکست نے جنگ کا خاتمہ کیا اور دنیا نے ایک نئے عالمی نظام کی طرف قدم بڑھایا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے الفاظ کہ "بہت سے امریکی چین کی فتح اور عظمت کی جستجو میں مارے گئے" دراصل اس تاریخی حقیقت کی یاد دہانی ہے جسے بیجنگ کی تقریب میں بظاہر پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ چین کے صدر نے اپنی تقریر میں اگرچہ "غیر ملکی حکومتوں اور بین الاقوامی دوستوں" کا شکریہ ادا کیا لیکن امریکہ کا نام نمایاں طور پر نہیں لیا۔ یہ رویہ محض ایک سفارتی نزاکت نہیں بلکہ ایک سیاسی پیغام بھی ہے۔ چین اس وقت اپنی تاریخ کو اس زاویے سے بیان کر رہا ہے جس سے اس کی آج کی طاقت اور خوداعتمادی کو تقویت ملے۔ شی جن پنگ بار بار یہ بتا رہے ہیں کہ دوسری جنگِ عظیم چین کی عظیم نشاۃ ثانیہ کے سفر میں ایک اہم موڑ تھا اور یہی بیانیہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار کو جواز فراہم کرتا ہے۔
اس تقریب میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن کی موجودگی نے ایک اور علامتی منظر تخلیق کیا۔ یہ وہ رہنما ہیں جنہیں آج واشنگٹن اپنے مخالف خیمے میں شمار کرتا ہے۔ ان کا شی جن پنگ کے پہلو بہ پہلو کھڑا ہونا گویا یہ پیغام تھا کہ دنیا میں ایک نیا اتحاد ابھر رہا ہے جو امریکہ کے مقابل اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ عسکری پریڈ، جدید ہتھیاروں کی نمائش اور ہزاروں فوجیوں کے قدموں کی دھمک، یہ سب کسی اندرونی جشن سے زیادہ بیرونی طاقتوں کو باور کرانے کے لیے تھی کہ چین اب کمزور نہیں رہا اور جو بھی اس کے راستے میں آئے گا اسے بھرپور جواب ملے گا۔
ٹرمپ کی پریشانی سمجھ میں آتی ہے۔ ایک طرف وہ شی جن پنگ کو اپنا دوست کہتے ہیں، بار بار اس ذاتی تعلقات کی بات کرتے ہیں کہ شاید اسی سے امریکہ اور چین کے تعلقات بہتر ہو سکیں۔ دوسری طرف وہ دیکھتے ہیں کہ بیجنگ میں ہونے والی تقریب دراصل ایک سیاسی مظاہرہ ہے جس میں ان کے دوست کی تقریر میں امریکہ کا کردار پس منظر میں دھکیل دیا گیا ہے اور مخالفین کی موجودگی نمایاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک طنزیہ پیغام بھی دیا کہ "میری جانب سے ولادی میر پوٹن اور کم جونگ اُن کو گرمجوشی کے ساتھ سلام کہیے، جب آپ امریکہ کے خلاف سازش کر رہے ہوں"۔ یہ جملہ ہنسی مذاق کے انداز میں کہا گیا ہو یا سنجیدگی سے، مگر اس میں چھپی ہوئی تشویش عیاں ہے۔
یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب واشنگٹن اور بیجنگ کے تعلقات پہلے ہی کشیدگی کا شکار ہیں۔ تجارتی معاہدوں پر اختلافات، یوکرین کے مسئلے پر متضاد پالیسی اور بحرِ جنوبی چین میں فوجی سرگرمیاں، ان سب نے دونوں ممالک کے بیچ ایک مسلسل کھچاؤ پیدا کر رکھا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ چین اپنی عسکری اور تجارتی پالیسیوں میں لچک دکھائے، جبکہ چین سمجھتا ہے کہ یہ اس کے داخلی معاملات اور خودمختاری میں مداخلت ہے۔ ایسے میں دوسری جنگِ عظیم کی یادگار تقریب کو بھی سیاسی رنگ دینا اسی تناظر کا حصہ ہے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا تاریخ کو اس طرح استعمال کرنا درست ہے؟ قربانیوں کی کہانیوں کو سیاست کے ہتھیار بنانا کسی بھی قوم کو وقتی فائدہ تو دے سکتا ہے لیکن طویل المدت اعتبار سے یہ اختلافات کو مزید گہرا کر دیتا ہے۔ امریکہ کے ہزاروں فوجی جنہوں نے بحرالکاہل میں جاپانی فوج کے خلاف جان دی اور جنہوں نے چین کے محاذ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ مدد فراہم کی، کیا ان کی یاد کو نظرانداز کر دینا انصاف ہے؟ دوسری طرف چین کے لاکھوں شہری جو جاپانی مظالم کا نشانہ بنے، کیا ان کی قربانیوں کو کم تر سمجھا جا سکتا ہے؟ دراصل یہ دونوں پہلو حقیقت ہیں اور انصاف یہ ہے کہ تاریخ کو پوری طرح بیان کیا جائے، نہ کہ کسی خاص سیاسی مقصد کے لیے اسے چن چن کر استعمال کیا جائے۔
ٹرمپ کا شکوہ اس لحاظ سے درست ہے کہ امریکہ نے واقعی چین کو سہارا دیا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ چین اس وقت اپنی قومی شناخت اور طاقت کے اظہار کے لیے اپنی تاریخ کو اپنے انداز میں بیان کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یہی وہ تضاد ہے جس نے عالمی سیاست کو ہمیشہ پیچیدہ بنایا ہے۔ ہر ملک چاہتا ہے کہ تاریخ میں اپنی قربانیوں کو زیادہ نمایاں دکھایا جائے اور دوسروں کو پسِ پشت ڈال دیا جائے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا دنیا اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ چل سکتی ہے؟ یا پھر ہر ملک اپنے بیانیے کی دیواروں میں قید رہ کر دوسروں سے مسلسل تصادم کرتا رہے گا؟
یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ ٹرمپ بذاتِ خود تاریخ کے طالب علم کم اور سیاست کے کھلاڑی زیادہ ہیں۔ وہ اپنی گفتگو میں ذاتی دوستیوں اور شکووں کو بار بار بیان کرتے ہیں تاکہ اپنے عوام کو یہ باور کرا سکیں کہ وہ عالمی سطح پر امریکہ کے مفادات کے نگہبان ہیں۔ ان کا کہنا کہ "امریکہ کو ذکر ہونا چاہیے تھا" محض ایک تاریخی مطالبہ نہیں بلکہ ایک سیاسی پیغام ہے کہ امریکہ کو نظرانداز کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہونا چاہیے۔ دوسری طرف چین یہ دکھانا چاہتا ہے کہ اس کی طاقت اب اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ اپنی تقریر میں امریکہ کا نام لیے بغیر بھی دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا سکتا ہے۔
اس سارے منظرنامے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا پہلو شاید وہ ہے جسے عام انسان کہتے ہیں۔ وہ چینی کسان جس نے جاپانی فوجیوں کے ہاتھوں اپنی فیملی کو کھو دیا، وہ امریکی سپاہی جو بحرالکاہل کے جزائر میں اپنی جان سے گیا، وہ روسی فوجی جس نے برلن تک مارچ کیا، یہ سب اصل ہیرو ہیں۔ ان کے خون سے تاریخ لکھی گئی، لیکن آج ان کی قربانیوں کو سفارتی جملوں اور عسکری پریڈوں کے شور میں دبایا جا رہا ہے۔ اگر عالمی رہنما واقعی دوسری جنگِ عظیم کی یاد کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں ان انسانوں کی تکریم کرنی ہوگی جنہوں نے اپنی زندگیاں قربان کیں۔
دنیا ایک بار پھر طاقت کے نئے توازن کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بیجنگ کی تقریب اسی کا ایک اشارہ تھی۔ شی جن پنگ کا اعتماد، پوٹن اور کم جونگ اُن کی موجودگی اور ٹرمپ کی بےچینی، یہ سب اس بات کے مظاہر ہیں کہ آئندہ برسوں میں عالمی سیاست مزید پیچیدہ ہوگی۔ امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات اگر مزید بگڑتے ہیں تو اس کے اثرات صرف دونوں ملکوں پر نہیں بلکہ پوری دنیا پر پڑیں گے۔ تجارت، معیشت، سلامتی اور سفارتکاری کے ہر پہلو پر اس کشیدگی کی چھاپ دکھائی دے گی۔
ٹرمپ کے الفاظ ایک یاد دہانی ہیں کہ تاریخ کو فراموش کرنا آسان نہیں۔ امریکہ نے چین کی مدد کی، چین نے قربانیاں دیں اور دنیا نے اس جنگ کی قیمت ادا کی۔ اگر آج کے رہنما ان قربانیوں کو اپنی سیاست کا ایندھن بنائیں گے تو آنے والی نسلیں شاید سچائی سے محروم رہ جائیں گی۔ بہتر یہی ہے کہ تاریخ کو ایمانداری سے بیان کیا جائے اور اس سے سبق لیا جائے کہ جنگ اور تصادم قوموں کو تباہ کرتے ہیں، جبکہ تعاون اور انصاف انہیں تعمیر کرتے ہیں۔

