Tomiichi Murayama Ko Khiraj e Aqeedat
ٹومیچی مرایاما کو خراجِ عقیدت

دنیا کی سیاست میں بہت سے رہنما آتے اور چلے جاتے ہیں، لیکن چند ہی ایسے ہوتے ہیں جن کی موجودگی ایک عہد، ایک نظریے اور ایک ضمیر کی علامت بن جاتی ہے۔ جاپان کے سابق وزیراعظم ٹومیچی مرایاما انہی چند ناموں میں شامل تھے، جنہوں نے اقتدار کو مقصد نہیں بلکہ خدمت، اعتراف اور انسانیت کا وسیلہ بنایا۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے ان کی وفات پر جو پیغامِ تعزیت بھیجا، اس میں مرایاما کو "چینی عوام کا پرانا دوست" قرار دیا اور ان کے جذبۂ انصاف کی تعریف کی۔ شی جن پنگ نے کہا کہ مرایاما ایک ایسے جاپانی رہنما تھے جنہوں نے نہ صرف تاریخ کا سامنا کیا بلکہ جاپان کے جنگی ماضی پر کھل کر معذرت کی اور یہی ان کی سب سے بڑی میراث ہے۔
ٹومیچی مرایاما کی زندگی جاپان کی اُس نسل کی نمائندگی کرتی ہے جو جنگ کے زخموں سے گزر کر امن کی جستجو میں نکلی۔ وہ 3 مارچ 1924 کو جاپان کے جنوب مغربی جزیرے کیو شو کے صوبہ اوئیتا میں پیدا ہوئے۔ اُن کا تعلق ایک غریب مچھیرے کے گھرانے سے تھا۔ گیارہ بہن بھائیوں میں سے ایک اور بچپن ہی سے معاشی تنگ دستی ان کے تعلیمی خوابوں کے گرد سایہ بن کر رہتی تھی۔ والد کے انتقال کے بعد وہ کم عمری میں اخبار تقسیم کرتے اور پرنٹنگ پریس میں مزدوری کرتے رہے تاکہ گھر کا خرچ چل سکے۔ مگر ان مشکلات نے ان کے حوصلے کو نہیں توڑا۔ بلکہ اسی مزدورانہ زندگی نے ان کے اندر وہ درد، حساسیت اور انصاف پسندی پیدا کی جو بعد میں ان کی سیاست کی بنیاد بنی۔
مرایاما نے اپنی ابتدائی تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کی اور بعد ازاں ٹوکیو جا کر نائٹ اسکول میں داخلہ لیا، جہاں دن کو مزدوری اور رات کو تعلیم ان کا معمول تھا۔ اسی دوران وہ میجی یونیورسٹی میں فلسفے کے طالب علم بنے، لیکن دوسری عالمی جنگ کے دوران فوج میں بھرتی ہونے کی وجہ سے تعلیم عارضی طور پر منقطع ہوگئی۔ جنگ کے بعد جب وہ دوبارہ یونیورسٹی لوٹے تو ان کے خیالات بدل چکے تھے۔ وہ جنگ، تباہی، انسانی تکلیف اور طبقاتی نابرابری کے گہرے مشاہدے سے گزر چکے تھے۔ اب وہ یقین رکھتے تھے کہ سیاست کا مقصد طاقت حاصل کرنا نہیں بلکہ کمزوروں کے لیے آواز بننا ہے۔
ان کی سیاسی زندگی کا آغاز مقامی مزدور یونین سے ہوا۔ وہ مچھیرے خاندانوں کے حقوق کے لیے سرگرم رہے اور 1955 میں اوئیتا شہر کی میونسپل کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جاپان تیزی سے صنعتی ترقی کے دور میں داخل ہو رہا تھا، لیکن مزدور طبقہ ابھی بھی پسماندہ اور غیر محفوظ تھا۔ مرایاما نے اس طبقے کے مسائل کو پارلیمنٹ تک پہنچانے کا عزم کیا۔ 1963 میں وہ اوئیتا کی صوبائی اسمبلی کے رکن بنے اور 1972 میں پہلی بار جاپانی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں منتخب ہوئے۔ ان کی سادہ طرزِ زندگی، نرم گفتاری، مگر اصولی مؤقف نے انہیں جلد ہی عوام کا محبوب نمائندہ بنا دیا۔
ان کے سیاسی کیریئر کا سب سے یادگار باب 1994 میں شروع ہوا جب وہ 70 برس کی عمر میں جاپان کے وزیراعظم بنے۔ وہ جاپانی سوشلسٹ پارٹی کے سربراہ تھے اور یہ ایک غیر معمولی لمحہ تھا کہ جنگ کے بعد پہلی بار جاپان کا وزیراعظم کسی غیر لبرل یا غیر قدامت پسند جماعت سے آیا تھا۔ مرایاما نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالتے ہی واضح کر دیا کہ ان کی حکومت کا مقصد صرف معاشی اصلاحات یا صنعتی پالیسی نہیں بلکہ جاپان کی روحانی اور اخلاقی بحالی بھی ہے۔
ان کے دورِ حکومت میں دو بڑے سانحات پیش آئے: 1995 کا ہانسن (کوبے) زلزلہ اور ٹوکیو سب وے پر سیرین گیس حملہ۔ دونوں مواقع پر حکومت پر تنقید ہوئی کہ وہ ابتدائی ردعمل میں سست رہی، لیکن مرایاما نے ان واقعات کو ذاتی طور پر متاثر کن انداز میں سنبھالا۔ انہوں نے متاثرہ خاندانوں سے ملاقاتیں کیں، غمزدہ عوام کے درمیان جا کر دلجوئی کی اور ایک شفاف تحقیق کا آغاز کیا۔ مگر ان کی زندگی کا سب سے بڑا اور تاریخی لمحہ 15 اگست 1995 کو آیا، جب دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کی پچاسویں برسی تھی۔
اس دن ٹومیچی مرایاما نے جاپان کی طرف سے ایک ایسا بیان جاری کیا جو بعد میں "مرایاما اسٹیٹمنٹ" کہلایا۔ اس بیان میں انہوں نے کہا: "جاپان نے غلط قومی پالیسی اختیار کی، جارحیت اور تسلط کے راستے پر چلا اور متعدد ممالک خصوصاً ایشیائی اقوام کو ناقابلِ بیان نقصان اور دکھ پہنچایا۔ میں اس تاریخی حقیقت پر گہری ندامت اور دلی معذرت کا اظہار کرتا ہوں"۔ یہ الفاظ ایک عام سیاسی بیان نہیں تھے۔ یہ ایک قوم کے اجتماعی ضمیر کی آواز تھی جو اپنے ماضی کے گناہوں کو تسلیم کر رہی تھی۔ مرایاما نے تاریخ سے نظریں چرانے کے بجائے اس کا سامنا کیا۔ انہوں نے جاپان کو ایک اخلاقی بلندی پر لا کھڑا کیا، جہاں طاقت سے زیادہ سچائی اور فخر سے زیادہ معافی کو اہمیت حاصل تھی۔
چین کے ساتھ ان کے تعلقات ہمیشہ احترام اور خلوص پر مبنی رہے۔ مرایاما چین کو ایک ایسا ملک سمجھتے تھے جس نے جاپان کے ہاتھوں جنگ میں بہت دکھ جھیلا۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں بارہا اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ جاپان کو چین کے زخموں کا مداوا کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا تھا، "امن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم اپنے ہمسایوں کے دکھ کو اپنا دکھ نہ سمجھیں"۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات پر صدر شی جن پنگ نے خاص طور پر اس پہلو کو اجاگر کیا کہ مرایاما چین اور جاپان کے درمیان دوستی کی علامت تھے۔ شی نے کہا کہ "مرایاما اسٹیٹمنٹ" کی روح آج بھی زندہ رہنی چاہیے تاکہ دونوں ممالک تاریخ سے سیکھ کر مستقبل کو بہتر بنا سکیں۔
مرایاما نے جاپان کے اندر بھی انسانیت اور انصاف کے لیے کئی اقدامات کیے۔ انہوں نے "ایشیائی خواتین فنڈ" کے قیام میں اہم کردار ادا کیا، جو اُن خواتین کی مدد کے لیے بنایا گیا جنہیں جنگ کے دوران زبردستی فوجی کمفرٹ اسٹیشنز میں رکھا گیا تھا۔ یہ اقدام جاپانی معاشرے کے اندر طویل عرصے سے موجود شرمندگی اور ندامت کے احساس کو عملی شکل دینے کی کوشش تھی۔ مرایاما کا یقین تھا کہ ماضی کی معافی صرف الفاظ سے نہیں بلکہ عمل سے ممکن ہے۔
اگر ہم پاکستان کے تناظر میں مرایاما کی زندگی دیکھیں تو وہ ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ کسی قوم کی عزت اس کے دفاع یا معیشت سے نہیں بلکہ اس کے ضمیر سے وابستہ ہوتی ہے۔ پاکستان بھی کئی تاریخی، سیاسی اور معاشرتی چیلنجز سے گزرا ہے۔ مرایاما کی مثال ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قومی وقار ماضی کی غلطیوں سے انکار میں نہیں بلکہ ان کے اعتراف میں پوشیدہ ہے۔ جاپان آج دنیا کی بڑی طاقتوں میں شامل ہے، مگر اس کی بنیاد صرف ٹیکنالوجی یا معیشت نہیں بلکہ ایک اخلاقی اصلاح تھی جس کا آغاز مرایاما جیسے رہنماؤں نے کیا۔
مرایاما کی سادگی مثالی تھی۔ وہ اقتدار کے بعد بھی عام زندگی گزارتے رہے، اپنے آبائی علاقے کے عوام سے رابطے میں رہے اور جاپان کے سماجی مسائل پر لکھتے اور بولتے رہے۔ ان کے مخالفین بھی ان کی ایمانداری، شفافیت اور دیانت داری کے معترف تھے۔ وہ ایک ایسے جاپانی رہنما تھے جنہوں نے ثابت کیا کہ سیاست دان کا اصل ہتھیار سچائی اور انصاف ہوتا ہے، نہ کہ چالاکی اور طاقت۔
جب اکتوبر 2025 میں وہ ایک سو ایک برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے تو جاپان ہی نہیں، چین، کوریا اور پورا ایشیا ایک لمحے کے لیے خاموش ہوگیا۔ ان کے جانے سے ایک عہد ختم ہوا۔ وہ عہد جس میں سیاست انسانیت سے جڑی تھی اور اقتدار ایک اخلاقی ذمہ داری تھا۔ صدر شی جن پنگ کا تعزیتی پیغام اسی خاموشی میں ایک روشنی کی کرن کی طرح آیا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ جاپان "مرایاما اسٹیٹمنٹ" کی روح کو زندہ رکھے گا، ماضی سے سیکھے گا اور مستقبل کو امن و دوستی کی بنیاد پر تعمیر کرے گا۔
ٹومیچی مرایاما کی زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ عظمت ہمیشہ فتوحات میں نہیں ہوتی بلکہ اعتراف میں ہوتی ہے۔ وہ ایک جاپانی تھے، مگر ان کا ضمیر عالمی تھا۔ وہ ایک سیاستدان تھے، مگر ان کی زبان میں انسانیت بولتی تھی۔ ان کی میراث ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ دنیا کو طاقت کے نہیں بلکہ ضمیر کے رہنماؤں کی ضرورت ہے۔ ایسے رہنما جو سچ کہنے کا حوصلہ رکھتے ہوں، جو اپنے ملک سے محبت کے ساتھ دوسروں کا درد بھی محسوس کرتے ہوں اور جو سمجھتے ہوں کہ امن کبھی تحفہ نہیں ہوتا، یہ ایک مسلسل کوشش کا نام ہے۔
آج جب دنیا دوبارہ تقسیم، نفرت اور مفادات کے بوجھ تلے دب رہی ہے، مرایاما کی یاد ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ حقیقی ترقی اُس وقت ممکن ہے جب ہم اپنی تاریخ کے سچ کا سامنا کریں اور دوسروں کے دکھ میں اپنی ذمہ داری محسوس کریں۔ جاپان کے اس مچھیرے کے بیٹے نے ہمیں یہ سکھایا کہ طاقت کی سب سے بڑی شکل معافی ہے اور سیاست کی سب سے بڑی کامیابی انسانیت ہے۔
یہی ٹومیچی مرایاما کا پیغام ہے اور یہی ان کی ابدی پہچان، ایک جاپانی ضمیر کی آواز۔

