Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Taxila, Mere Watan Ka Bhoola Hua Ilmi Charagh

Taxila, Mere Watan Ka Bhoola Hua Ilmi Charagh

ٹیکسلا، میرے وطن کا بھولا ہوا علمی چراغ

ہمارے ہاں عظمت کی نشانیاں اکثر خاک میں دبی رہتی ہیں اور جن قوموں کا مزاج محض حال اور مستقبل کے پیچھے دوڑنے کا ہو، وہ ماضی کی گہرائی میں چھپے ہوئے خزانوں کو نہ دیکھتی ہیں، نہ سمجھتی ہیں۔ مگر کچھ سچائیاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں صدیوں کی گرد بھی چھپا نہیں سکتی۔ ایسی ہی ایک حقیقت میرے وطن، پاکستان کی سرزمین سے وابستہ ہے۔ آج جب دنیا کی پہلی یونیورسٹی کی بات ہوتی ہے تو نام آتا ہے مراکش کی جامعہ القرویین کا اور بلاشبہ، اگر "یونیورسٹی" کا مطلب باقاعدہ تدریسی نظام، درجہ بندی، سند اور ادارہ جاتی ساخت ہو، تو جامعہ القرویین اس معیار پر پورا اترتی ہے۔ لیکن اگر سوال یہ ہو کہ انسان نے پہلی بار اجتماعی طور پر علم حاصل کرنا کہاں شروع کیا، تو ہمیں تاریخ کے اوراق پلٹ کر ٹیکسلا کی طرف جانا ہوگا۔

ٹیکسلا، موجودہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں، راولپنڈی کے قریب واقع ایک تاریخی مقام ہے۔ ظاہری طور پر یہ ایک خاموش سی وادی ہے، مگر اس کی خامشی میں ہزاروں سال پرانا علم گونجتا ہے۔ یہاں کھنڈرات موجود ہیں، پرانی اینٹیں، ٹوٹے ہوئے ستون اور مٹی کے نیچے دفن ایسی تہذیب، جسے دیکھ کر دل کہتا ہے کہ شاید ہم اپنے ماضی کو بھول گئے ہیں، مگر ماضی نے ہمیں ابھی تک یاد رکھا ہے۔

ٹیکسلا کی تاریخ پانچ سو سال قبل مسیح تک جاتی ہے۔ یعنی یہ اُس وقت علم کا مرکز تھا جب نہ روم یونیورسٹی کا کوئی وجود تھا، نہ یونان نے فلسفے کی زبان بولی تھی اور نہ آکسفورڈ یا ہارورڈ کا خواب بھی دیکھا گیا تھا۔ یہاں وہ طلبا آتے تھے جو علم کی پیاس رکھتے تھے اور وہ استاد پڑھاتے تھے جن کے لیے علم عبادت کا درجہ رکھتا تھا۔ بدھ راہب، ہندو جوگی، یونانی حکمت کے ماہر، سب یہاں اکٹھے ہوتے۔ چینی زائرین فاہیان اور ہیوئن سانگ نے اس ادارے کو اپنی تحریروں میں"دنیا کا سب سے روشن تعلیمی مرکز" قرار دیا۔

یہاں نہ صرف مذہب اور روحانیت کی تعلیم دی جاتی تھی، بلکہ فلسفہ، منطق، گرامر، فلکیات، طب، جراحی، فنِ تعمیر، آیوروید اور ادب بھی پڑھایا جاتا تھا۔ ٹیکسلا صرف ایک مقام نہیں تھا، یہ ایک سوچ، ایک ثقافت، ایک ذہنی انقلاب تھا۔ اس وقت جب یورپ میں لوگ قدرت کے خوف سے درختوں کو دیوتا مانتے تھے، یہاں انسان کائنات کے راز کھول رہا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ یہاں کے اساتذہ طلبا کو تنقیدی سوچ سکھاتے تھے۔ سوال اٹھانا، دلیل دینا اور بات کو پرکھنا۔ یہ سب اُس تعلیمی نظام کا حصہ تھا، جو ہزاروں سال پہلے ہمارے ہی وطن کی سرزمین پر پروان چڑھا۔ یہ سوچ کر دل میں عجب سا غرور پیدا ہوتا ہے کہ وہ خطہ، جو آج دنیا میں اکثر دہشت گردی، غربت یا عدم استحکام کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے، کبھی علم، امن اور تحقیق کا منبع تھا۔

ٹیکسلا میں جسے آج ہم "یونیورسٹی" کہتے ہیں، وہ کسی ایک عمارت کا نام نہیں تھا۔ یہ ایک وسیع تعلیمی مرکز تھا، ایک ایسا شہر جو علم میں بستا تھا۔ یہاں طلبا برسوں رہتے، استادوں کے ساتھ وقت گزارتے، سوالات کرتے، علم کو سمجھتے، اسے جذب کرتے۔ اس کا کوئی باقاعدہ "ڈگری سسٹم" تو نہیں تھا، جیسا آج کی یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے، لیکن یہاں علم کا رشتہ روح سے جُڑا ہوتا تھا۔ استاد جب شاگرد کو اجازت دیتا کہ وہ بھی اب پڑھا سکتا ہے، تو وہ اجازت خود ایک سند بن جاتی۔

اس ادارے سے منسلک ایک اور حیران کن نام چانکیہ کا ہے، جو نہ صرف ماہر معیشت، سیاستدان اور استاد تھا بلکہ تاریخ کے عظیم ترین دماغوں میں شمار ہوتا ہے۔ اُس نے "ارتھ شاستر" جیسی کتاب لکھی، جو آج بھی گورننس، سیاست اور معیشت پر مکمل نصاب مانی جاتی ہے اور یہی چانکیہ، ٹیکسلا سے پڑھا اور پھر پڑھایا۔

اس ادارے میں ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ یہاں تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ہوتی تھی۔ طالبعلم صرف کتابی علم نہیں سیکھتے تھے، وہ روزمرہ کی زندگی، کردار، خدمت خلق، نظم و ضبط، سب کچھ سیکھتے۔ ان کا دن عبادت سے شروع ہوتا اور مطالعے پر ختم ہوتا۔ ان کے لیے علم ایک مشغلہ نہیں، ایک مقصد ہوتا۔ علم محض الفاظ میں نہیں، اخلاق میں بھی جھلکتا تھا۔

جب ہم ٹیکسلا کا ذکر کرتے ہیں تو درحقیقت ہم اپنے ہی وطن کے اس پہلو کو چھو رہے ہوتے ہیں جسے ہم نے بھلا دیا ہے۔ ہم نے اپنے ماضی کو فقط پرانے کھنڈرات کی شکل میں محفوظ کر لیا ہے۔ عجائب گھروں میں رکھی ہوئی مٹی کی مورتیاں، دھات کے سکے اور شکستہ پتھر ہماری یادداشت کی نشانی بن کر رہ گئے ہیں۔ مگر ہم نے اس سوچ، اس علم اور اس تہذیب کو اپنی تعلیمی، سماجی اور قومی زندگی میں جگہ نہیں دی، جس نے ہزاروں سال پہلے دنیا کو راستہ دکھایا تھا۔

کیا یہ عجیب نہیں کہ دنیا میں جب بھی کسی عظیم علمی ورثے کا ذکر ہوتا ہے، تو ہم صرف دوسروں کی مثالیں دیتے ہیں؟ ہارورڈ، آکسفورڈ، کیمبرج، سوربون، جامعہ القاہرہ، جامعہ القرویین اور ہم اپنی ہی دھرتی پر کھڑا وہ چراغ بھول گئے ہیں جس نے علم کی روشنی سب سے پہلے پھیلائی تھی۔

جی ہاں، ٹیکسلا کو دنیا کی "پہلی یونیورسٹی" کہنا ایک جذباتی بات ہو سکتی ہے، لیکن یہ جذبات صرف احساساتی بنیاد پر نہیں، تاریخی حقیقت پر مبنی ہیں۔ اگر "یونیورسٹی" کی تعریف کو صرف جدید ڈھانچے سے نہ باندھا جائے، بلکہ علم کے مرکز، تہذیب کے محور اور فکری ارتقاء کے مقام کے طور پر دیکھا جائے، تو ٹیکسلا واقعی دنیا کی پہلی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے اور یہ فخر صرف تاریخ دانوں کا نہیں، ہر پاکستانی کا ہونا چاہیے۔

آج جب ہم اپنے تعلیمی نظام پر تنقید کرتے ہیں، اپنے طلبا کی سطحی سوچ پر افسوس کرتے ہیں اور علم کو صرف ایک روزگار کی کنجی سمجھتے ہیں، تو ہمیں ٹیکسلا یاد آنا چاہیے۔ ہمیں یاد آنا چاہیے کہ ہمارے اسلاف نے علم کو کیسے پوجا، کیسے جیا اور کیسے بانٹا۔ یہ وہ یاد ہے جو ہمیں نہ صرف ماضی سے جوڑتی ہے، بلکہ مستقبل کی طرف بھی روشنی دکھاتی ہے۔

ٹیکسلا کوئی اجنبی مقام نہیں۔ یہ ہمارا اپنا ماضی ہے، ہماری اپنی وراثت ہے، جو آج بھی اسی مٹی میں دبی ہے جس میں ہم سانس لیتے ہیں۔ وہی سورج جو اس شہر پر طلوع ہوتا تھا، آج بھی چمکتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب ہم نے آنکھیں بند کر لی ہیں۔

اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنی آنکھیں کھولیں۔ اپنے طالب علموں کو بتائیں کہ تم صرف نئی یونیورسٹیوں کے طالب علم نہیں، تم اُن لوگوں کی نسل ہو جنہوں نے دنیا کو تعلیم کا پہلا سبق پڑھایا۔ تم اُن عظمتوں کے وارث ہو جنہیں دنیا نے مانا، مگر تم نے خود نظرانداز کر دیا۔

یہ فخر اگر خبط بن جائے تو کوئی مضائقہ نہیں، اگر وہ خبط ہمیں جگا دے، اگر وہ عظمت ہمیں اپنے اصل سے ملا دے۔

ٹیکسلا صرف ماضی کی یادگار نہیں، یہ حال کا پیغام اور مستقبل کی روشنی ہے۔

بس ہمیں دیکھنے والی آنکھ اور محسوس کرنے والا دل درکار ہے۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan