Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Taxila Aur Chanakya, Ilm, Siasat Aur Tadbeer Ka Ehad

Taxila Aur Chanakya, Ilm, Siasat Aur Tadbeer Ka Ehad

ٹیکسلا اور چانکیہ، علم، سیاست اور تدبیر کا عہد

جب تاریخ کا دامن کھلتا ہے تو ہمیں کچھ ایسی شخصیات اور مقامات ملتے ہیں جو اپنے وقت سے کہیں آگے سوچنے والے ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں علم صرف صفحات میں قید نہیں ہوتا، بلکہ سماج، سیاست، معیشت اور تہذیب میں رواں ہوتا ہے۔ ان میں ایک نمایاں نام ہے چانکیہ کا اور جو مقام اس کی فکر کا مرکز رہا، وہ ہے ٹیکسلا۔ ایک ایسا علمی گہوارہ جو آج کے پاکستان کی سرزمین پر واقع ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ نہ ہم نے چانکیہ کو جانا، نہ ٹیکسلا کو پہچانا اور یہی بھول ہمیں اپنی تہذیبی اور فکری شناخت سے دور کرتی چلی گئی۔

چانکیہ کو دنیا مختلف ناموں سے جانتی ہے۔ کاؤٹلیہ، وشنو گپت اور سیاست کے ماہر کے طور پر "انڈین میکیاولی" کہلایا جاتا ہے۔ مگر ان تمام القاب سے ہٹ کر چانکیہ ایک ایسا استاد تھا جس نے صرف فلسفہ نہیں پڑھایا بلکہ عملی سیاست کو علم کے تانے بانے میں بُنا۔ وہ تدبیر کا بادشاہ تھا، جو میدانِ جنگ میں نہیں، دماغ کی بساط پر سلطنتیں جیتتا تھا اور یہ دماغ جس جگہ جلا، پروان چڑھا اور سنوارا گیا، وہ تھی ٹیکسلا۔ ایک ایسا شہر جہاں راہب بھی تھے، فلسفی بھی اور انقلابی بھی۔ ایک ایسا شہر جو علم کے ہنر سے سلطنتیں سنوارتا تھا۔

ٹیکسلا کی فضا میں چانکیہ کی فکر آج بھی گونجتی ہے۔ اس نے یہاں نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ کئی سال پڑھایا بھی۔ اس کی شاگردی میں آنے والے طلبا صرف سیاست کے طالب علم نہیں ہوتے تھے، وہ قوموں کی سوچ بدلنے والے بنتے تھے۔ چانکیہ کا سب سے نمایاں کارنامہ تھا چندر گپت موریہ کو تیار کرنا، اسے ایک معمولی کسان کے بیٹے سے ہندوستان کی عظیم ترین سلطنت کا حکمران بنانا۔ مگر اس کا مقصد صرف حکومت بنانا نہیں تھا، بلکہ ایسی سلطنت قائم کرنا تھا جو "دھرم" یعنی عدل و اخلاق پر قائم ہو۔

چانکیہ نے جو کتاب لکھی، "ارتھ شاستر"، وہ محض ایک نصاب نہیں، ایک مکمل فکری نظام ہے۔ یہ کتاب اس وقت لکھی گئی جب دنیا میں نہ مغربی جمہوریت کا تصور تھا، نہ جدید معیشت کی بنیادیں رکھی گئی تھیں۔ مگر اس میں ایسے نظریات موجود ہیں جو آج بھی جدید ریاست کے بنیادی ڈھانچے کی وضاحت کرتے ہیں۔ مالیات، حکمرانی، سکیورٹی، خفیہ نظام، عدالت، معیشت، تعلیم۔ غرض ہر شعبہ اس کتاب میں موجود ہے اور یہ کتاب ٹیکسلا کے اُس فکری ماحول میں لکھی گئی، جہاں سوال کرنا گناہ نہیں، تحقیق کرنا عبادت سمجھی جاتی تھی۔

ٹیکسلا، جہاں بدھ مت کے امن کا درس دیا جاتا تھا، وہیں چانکیہ جیسے استاد اپنی ذہانت سے سیاسی فلسفہ گھڑ رہے تھے۔ یہاں مذہب اور سیاست آمنے سامنے نہیں بلکہ ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ یہاں روحانیت اور حکمت میں تضاد نہیں، توازن تھا اور یہی توازن چانکیہ کی فکر میں بھی تھا۔ وہ جانتا تھا کہ صرف نیک نیتی سے ریاستیں نہیں چلتیں، تدبیر، حکمت عملی اور عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ چانکیہ کا یہ اعتدال ہی اس کے اثر کو آج تک قائم رکھے ہوئے ہے۔

آج ہم دنیا بھر کی دانشورانہ تحریکوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یورپ کی نشاۃ ثانیہ، یونانی فلسفہ، چینی کنفیوشس ازم، مگر اپنے ہی وطن کی زمین پر جنم لینے والی ایسی نابغہ روزگار شخصیت کو فراموش کر بیٹھے ہیں جو وقت سے بہت آگے کی سوچ رکھتا تھا۔ اگر ہم ٹیکسلا اور چانکیہ کو پڑھتے، تو شاید آج ہمارے تعلیمی ادارے محض نمبروں کی فیکٹری نہ ہوتے، بلکہ سوچ اور عمل کا گہوارہ بنتے۔

چانکیہ کی خاص بات یہ تھی کہ وہ محض استاد نہیں تھا، وہ ایک مصلح تھا۔ وہ جانتا تھا کہ جب تک علم کو عمل سے نہ جوڑا جائے، وہ صرف کاغذی بوجھ بن جاتا ہے۔ اس نے علم کو سماجی تبدیلی کے لیے استعمال کیا۔ وہ جانتا تھا کہ ایک طالب علم، ایک کتاب اور ایک استاد، یہی انقلاب کی اصل طاقت ہیں اور یہی فلسفہ ٹیکسلا کی گلیوں میں گونجتا تھا۔

آج جب ہم اس خطے کی تاریخ پڑھتے ہیں، تو ہمیں چانکیہ کا نام کہیں ایک نوٹ کے طور پر ملتا ہے، یا شاید ایک امتحانی سوال میں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم چانکیہ کو سمجھیں، تو ہمیں اپنی تاریخ کے اندر سے وہ خزانے مل سکتے ہیں جو ہمیں فکری غلامی سے آزاد کر سکتے ہیں۔ ٹیکسلا نے ایسے استاد پیدا کیے جو صرف ذہنوں کو نہیں، قوموں کو سنوارا کرتے تھے اور چانکیہ ان میں سب سے نمایاں تھا۔

یہ خطہ، جو آج پاکستان کہلاتا ہے، کبھی علم کی ایسی روشنیوں سے جگمگاتا تھا جہاں طالب علم صرف اپنے مستقبل کے لیے نہیں، انسانیت کی بھلائی کے لیے سیکھتے تھے۔ چانکیہ کا فلسفہ اگر آج دوبارہ پڑھا جائے۔ علم، حکمت، تدبیر اور اخلاق کے امتزاج کے طور پر، تو ہم اپنے تعلیمی نظام میں ایک نئی روح پھونک سکتے ہیں۔

یقیناً، چانکیہ کا سب کچھ ہمارے آج سے متفق نہیں ہوگا۔ اس میں وہ وقت کی سختیاں، سیاسی چالاکیاں اور بعض اوقات سفاک حقیقتیں بھی شامل تھیں۔ مگر اس کا نکتہ آغاز علم تھا اور اس کا ہدف ایک منظم، باوقار اور باعلم ریاست۔ ہمیں اس سے اختلاف کا حق ہے، مگر انکار کا نہیں۔ اس کی فکرنے اس سرزمین پر جنم لیا جہاں آج ہم سوچنے سے بھی گریز کرتے ہیں اور یہی ہماری فکری تنزلی کی علامت ہے۔

چانکیہ اور ٹیکسلا، یہ صرف دو نام نہیں، دو حوالے ہیں۔ ایک علم کا، ایک عمل کا۔ ایک استاد کا، ایک ادارے کا۔ اگر ہم اپنی جڑوں کو جاننا چاہتے ہیں، اگر ہم اپنی فکری غلامی سے نکلنا چاہتے ہیں، اگر ہم صرف ماضی کی تاریخ بننے کے بجائے حال کا کردار بننا چاہتے ہیں، تو ہمیں پھر سے ٹیکسلا کی طرف پلٹنا ہوگا اور وہاں ہمیں چانکیہ جیسے استاد کی فکری گونج سنائی دے گی، جو کہے گی، علم وہی ہے جو عمل میں ڈھلے اور حکمت وہی جو قوم کو اٹھا دے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan