Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Tawaquat Se Barh Kar, Shahbaz Sharif

Tawaquat Se Barh Kar, Shahbaz Sharif

توقعات سے بڑھ کر، شہباز شریف

اسلام آباد کی گلیوں سے لے کر وائٹ ہاؤس کی راہداریوں تک، ریاض، بیجنگ، انقرہ، باکو اور تہران جیسے اہم ترین دارالحکومتوں میں ملاقاتوں تک، وہ شہباز شریف جنہیں کبھی مخالفین محض "انتظامی" لیڈر کہا کرتے تھے، آج سب کو حیران کر رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے سفارتی قد کو اس وقت بلند کیا جب دنیا کے بڑے بڑے پنڈت یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ان کا دائرہ کار محض ترقیاتی منصوبوں اور پنجاب کی بیوروکریسی تک محدود ہے۔ لیکن شہباز شریف نے ثابت کر دکھایا کہ اگر نیت، محنت اور تیاری ساتھ ہو تو ایک ملک کے لیڈر نہ صرف اپنے عوام کے دل جیت سکتے ہیں بلکہ دنیا بھر کے طاقتور ایوانوں میں بھی اپنے وطن کی عزت بڑھا سکتے ہیں۔

ایک وقت تھا جب یہ تاثر عام تھا کہ شہباز شریف بڑے بھائی نواز شریف کے سائے میں ہیں اور ان کا کردار محض عملی انتظام تک محدود ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ انہوں نے اپنی الگ شناخت بنائی۔ وہ شناخت ایک ایسے رہنما کی ہے جو ٹکنوکریٹ بھی ہے، عملی سیاستدان بھی، سخت محنتی بھی اور سب سے بڑھ کر، حل تلاش کرنے والا، جھوٹے وعدوں کے بجائے سچائی کے ساتھ میدان میں اترنے والا۔ ان کی زندگی کے کئی باب ہیں: پنجاب کے جدید نقشے کے معمار، سکولوں، اسپتالوں اور انفراسٹرکچر کے خالق، امن قائم کرنے والے، دہشت گردی اور بیماریوں کے خلاف صف اول کے سپاہی اور اب عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ لڑنے والے ایک مدبر رہنما۔

ڈاکٹر توقیر شاہ، جو برسوں ان کے ساتھ مرکز اور پنجاب میں کام کرتے رہے ہیں، شہباز شریف کے بارے میں یوں کہتے ہیں کہ "وہ صرف سیاستدان نہیں بلکہ ایک ایسے منتظم ہیں جو سفارت کاری کو بھی اسی باریکی سے لیتے ہیں جیسے روزمرہ کے منصوبے۔ کوئی بھی اہم سائفر آئے تو وہ گھنٹوں نہیں بلکہ دنوں تک اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ تقریریں ریہرسل کرتے ہیں، بریفنگز کو بار بار پڑھتے ہیں، ماہرین سے مشورے کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ جب کسی ملک میں جاتے ہیں تو تحفوں کے انتخاب سے لے کر کھانوں کے ذائقے اور ثقافتی حساسیت تک ہر چیز پر خود نظر رکھتے ہیں"۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی رہنما ان کے ساتھ عمر بھر کی دوستی قائم کر لیتے ہیں۔

شہباز شریف کے غیر ملکی دوروں میں سیاحت یا خریداری کا کوئی تصور نہیں۔ صبح سات بج کر تیس منٹ سے دن کا آغاز ہوتا ہے اور رات گئے تک ملاقاتوں اور مذاکرات کا سلسلہ چلتا ہے۔ یہ ان کا مزاج ہے۔ کام، کام اور صرف کام۔ شاید اسی وجہ سے انہیں"شہباز اسپیڈ" کہا گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ محض تیزی نہیں بلکہ ویژن، نکتہ رس نگاہ اور انتھک محنت ہی وہ خوبیاں ہیں جنہوں نے انہیں باقی سیاستدانوں سے ممتاز کیا۔

یاد رہے کہ 2022ء میں جب پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا تو آئی ایم ایف سے ناممکن سا معاہدہ انہی کے ہاتھوں ممکن ہوا۔ پھر 2025ء میں بھارت کے ساتھ کشیدگی کے وقت فوجی قیادت کے ساتھ قریبی ہم آہنگی اور عالمی طاقتوں کے ساتھ سفارتی چابکدستی نے حالات کو پاکستان کے حق میں موڑ دیا۔ ایران-اسرائیل تنازعے کے دوران بھی امریکہ کو ناراض کیے بغیر ایران کے ساتھ کھڑا ہونا اور پھر امریکہ ہی کو امن کی کوششوں میں شامل کرنا، یہ کوئی عام کارنامے نہیں۔

شہباز شریف کی سب سے نمایاں خوبی ان کی محنت کے ساتھ ساتھ زبانوں پر مہارت ہے۔ عربی میں روانی سے بات کرتے ہیں، جرمن میں خطاب کر چکے ہیں، روسی میں بھی گفتگو کر لیتے ہیں۔ اردو اور انگریزی تو خیر ان کی پہچان ہیں، لیکن سرائیکی اور پوٹھوہاری جیسی مقامی زبانوں میں بھی ان کی گرفت انہیں عوام کے قریب کرتی ہے۔ زبان کے یہ ہنر انہیں دنیا کے رہنماؤں سے براہِ راست اور دل سے جڑنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

ڈاکٹر توقیر شاہ کے بقول، شہباز شریف کی قیادت کا اصل امتحان سہولت میں نہیں بلکہ بحران میں ہوا۔ معاشی زوال، سیاسی الزامات، قدرتی آفات، دہشت گردی۔ ان سب حالات میں بھی انہوں نے الزام تراشی سے پرہیز کیا، اتحاد کو مقدم رکھا، عملی اقدامات پر زور دیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک طرف قومی سیاست میں اعتدال اور برداشت کی علامت ہیں اور دوسری طرف عالمی سیاست میں پاکستان کی پہچان۔

آج جب ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان چین، سعودی عرب، ترکی، امریکہ، روس اور خلیجی ممالک سب کے ساتھ بیک وقت مثبت تعلقات رکھ رہا ہے، تو یہ کسی ایک دن کی محنت نہیں بلکہ برسوں کی تیاری اور عزم کا نتیجہ ہے۔ شہباز شریف نے دکھا دیا کہ سیاست صرف نعرے لگانے کا نام نہیں بلکہ کام کرنے کا، خدمت کا اور اپنے لوگوں کے لیے قربانیاں دینے کا نام ہے۔

یہ کہنا بجا ہوگا کہ اگر نواز شریف نے پاکستان کو ایک نئے ترقیاتی دور میں داخل کرایا تو شہباز شریف اس ترقی کو عالمی سطح پر وقار اور طاقت سے جوڑ رہے ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت، توانائی، نیک نیتی اور مزید ہمت عطا فرمائے تاکہ وہ پاکستان کے لیے تاریخ کا سب سے روشن باب رقم کر سکیں۔ وہ باب جو ان کے بڑے بھائی نواز شریف کے کارناموں سے بھی زیادہ روشن ہو اور وہی باب جو آج مریم نواز پنجاب میں لکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

لیکن یہاں ایک گزارش لازم ہے۔ وزیرِاعظم صاحب اور ہماری بیٹی مریم نواز سے ہماری اپیل ہے کہ میڈیکل کالج کی حالیہ داخلہ پالیسی پر نظر ثانی کیجیے۔ یہ پالیسی غریب کے بچوں کے لیے ڈاکٹر بننے کا خواب ناممکن بنا دیتی ہے۔ تعلیم کاروبار نہیں، صدقہ جاریہ ہے۔ پیسہ کمانے کے ہزاروں طریقے ہیں لیکن تعلیم کو پیسے کا ذریعہ نہ بنائیے۔ اگر یہ بچے سستی یا مفت تعلیم حاصل کریں گے تو چند برس بعدانشاءاللہ ملک کو اگلی کئی دہائیوں تک اس سے ہزار گنا زیادہ لوٹائیں گے۔

خاص طور پر وہ سمندر پار پاکستانی جو بغیر فیملی کے مزدوری اور مشقت کر رہے ہیں، ان کے بچوں کے لیے میڈیکل تعلیم کے کوٹے بڑھائیے۔ افسوس کہ فیملی کے ساتھ رہنے والے طاقتور سمندر پار بھائیوں نے کمزوروں کے بچوں کا حق مار کر یہ کوٹہ اپنے حق میں کروا لیا ہے جبکہ یہ حق سب کا ہے۔ وزیرِاعظم صاحب! اس پر غور کیجیے اور غریب مسافروں پر شفقت کیجیے۔ مسافر کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ شفقت کرنے والوں کو اپنا دوست بنا لیتا ہے اور ان کے لیے راستے آسان کر دیتا ہے۔

شہباز شریف آج پاکستان کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ انہیں نظرِ بد سے محفوظ رکھے، ان کے قدم مضبوط کرے، ان کے ہاتھوں سے ایسے کارنامے کرائے جو دنیا کو حیران کر دیں اور پاکستان کو وہ مقام دلائیں جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan