Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Taleem Nahi, Karobar e Maseehai

Taleem Nahi, Karobar e Maseehai

تعلیم نہیں، کاروبارِ مسیحائی

یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں، بلکہ بولنے کا ہے۔ کیونکہ اگر آج ہم خاموش رہے تو کل ہمارے بچوں کا مستقبل چند سرمایہ داروں کے ہاتھوں گروی پڑ جائے گا۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجز نے، ایک اخبار کے فرنٹ پیج پر آدھے صفحے کا رنگین اشتہار لگا کر، حکومت سے جو مطالبات کیے ہیں، وہ کسی تعلیمی ادارے کے نہیں، بلکہ ایک منافع خور کمپنی کے لگتے ہیں جو صرف اپنی جیبیں بھرنے کے لیے نظامِ تعلیم کو بھی نیلام کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ انہوں نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ فیسوں اور داخلوں کے نظام پر ان سے کوئی سوال نہ کیا جائے، کوئی آڈٹ نہ ہو اور کسی کو یہ حق حاصل نہ ہو کہ ان سے پوچھ سکے کہ آپ طلبہ سے اتنی خطیر رقم کیوں لے رہے ہیں؟ کیا یہ کسی تعلیمی ادارے کا رویہ ہے؟ یا ایک بے لگام تجارتی گروہ کا؟

آج والدین سراپا احتجاج ہیں۔ ان کا مؤقف واضح ہے کہ میڈیکل تعلیم ایک مقدس پیشہ ہے، نہ کہ سرمایہ کاری کا کاروبار۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجز فیسیں پہلے ہی آسمان کو چھو رہی ہیں۔ ایک طرف ملک کی اوسط فی کس آمدنی چند لاکھ روپے سالانہ ہے، دوسری طرف میڈیکل کالجز کی فیسیں بیس لاکھ سے پچاس لاکھ سالانہ تک جا پہنچی ہیں۔ یہ کون سا انصاف ہے؟ ایک والد جو محنت مزدوری یا سرکاری ملازمت سے بمشکل گھر چلاتا ہے، وہ اپنے بچے کو ڈاکٹر بنانے کا خواب کیسے دیکھے؟ کیا تعلیم اب صرف امیروں کا حق بن چکی ہے؟

یہی وجہ ہے کہ ہزاروں ذہین طلبا، جو میرٹ پر ڈاکٹر بننے کے اہل ہیں، پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ وہ بیرون ملک جا کر تعلیم حاصل کرتے ہیں، وہاں کے نظام میں ضم ہو جاتے ہیں اور پاکستان کا قیمتی زرمبادلہ ہی نہیں، انتہائی انمول دماغی سرمایہ بھی ہمیشہ کے لیے ضائع ہو جاتا ہے۔ مگر ان نجی کالجز کے مالکان اسے "زرِمبادلہ کے ضیاع" کا نام دے کر حکومت کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اصل ذمہ دار یہی پرائیویٹ کالجز ہیں جنہوں نے تعلیم کو کاروبار بنا دیا ہے۔

اگر ہم تقابل کریں تو واضح نظر آتا ہے کہ انجینئرنگ، بزنس اور آئی ٹی جیسے دیگر پیشوں میں فیسیں ایک سے پانچ لاکھ سالانہ کے درمیان ہیں، جبکہ میڈیکل کی فیسیں دس گنا زیادہ ہیں۔ لیکن گریجوایشن کے بعد ان ڈاکٹروں کو وہ تنخواہیں اور مراعات نہیں ملتیں جو ان فیسوں کا جواز فراہم کریں۔ پھر یہ ظلم کیوں؟ کیا ڈاکٹر بننے کا خواب صرف ان کے لیے ہے جن کے پاس کروڑوں روپے ہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر بعد از گریجوایشن ڈاکٹروں کو اسی تناسب سے اتنی ہی بڑی تنخواہیں بھی دی جائیں جتنی بڑی فیسیں لی گئی تھیں۔

المیہ یہ ہے کہ اتنی بھاری فیسیں لینے کے باوجود میڈیکل کالجز میں بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں۔ لیبارٹریز میں ماسک، دستانے اور دیگر حفاظتی اشیاء طلبہ کو خود خریدنی پڑتی ہیں۔ وہ کالجز جو کروڑوں روپے کماتے ہیں، وہ چند روپے کی حفاظتی اشیاء دینے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ یہ شرمناک ہے۔ دنیا بھر میں میڈیکل ادارے ان چیزوں کو مفت فراہم کرتے ہیں، کیونکہ یہ تعلیم کا لازمی حصہ ہیں۔ مگر ہمارے یہاں یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ جتنا زیادہ ممکن ہو، اتنا ہی منافع کماؤ۔

پرائیویٹ میڈیکل کالجز کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے عالمی معیار کے مطابق نظام بنایا ہے۔ اگر یہی معیار ہے کہ طلبہ سے بھاری رقم لے کر انہیں بنیادی سہولتوں سے بھی محروم رکھا جائے تو پھر یہ تعلیم نہیں، استحصال ہے۔ یہ ادارے وہی چھوٹی سوچ پروان چڑھا رہے ہیں جو بعد میں انہی طلبہ کے مزاج کا حصہ بن جاتی ہے۔ اگر آج کے طالب علم کو سکھایا جائے کہ منافع انسانیت سے زیادہ اہم ہے، تو کل کے ڈاکٹر سے ہم ہمدردی اور اخلاقیات کی توقع کیسے رکھیں؟

حکومت اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) کا فرض ہے کہ وہ ایسے مطالبات کو یکسر مسترد کرے۔ تعلیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ ادارے جو عوام کے بچوں کے خواب بیچ کر اربوں روپے کما رہے ہیں، ان پر کڑی نگرانی ہونی چاہیے۔ ان کی فیسوں کا باقاعدہ آڈٹ ہونا چاہیے۔ ہر کالج سے تفصیلی رپورٹ طلب کی جائے کہ وہ کس مد میں کتنی رقم لے رہے ہیں اور وہ رقم کہاں خرچ ہو رہی ہے۔

یہ کہنا کہ "ہم آزاد ہیں، ہمیں کوئی نہ پوچھے" کسی مہذب ملک میں قابلِ قبول نہیں۔ آزادی صرف اس وقت تک ہوتی ہے جب تک وہ دوسروں کے حقوق پامال نہ کرے۔ ان کالجز نے اپنے منافع کی خاطر تعلیم کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ ملک کے اندر تعلیمی عدم مساوات بڑھتی جا رہی ہے۔ امیر کے بچے ڈاکٹر، غریب کے بچے لیبر بننے پر مجبور ہیں۔ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا؟

حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے فیس ڈھانچے کا جائزہ لے۔ ایک واضح، شفاف اور عوامی مفاد پر مبنی پالیسی بنائی جائے۔ داخلوں کا نظام صرف میرٹ پر ہو، کسی سفارش یا مالی طاقت پر نہیں۔ اگر کوئی کالج ان اصولوں کی خلاف ورزی کرے تو اس کا لائسنس منسوخ کیا جائے۔

میڈیکل تعلیم قومی خدمت ہے، کاروبار نہیں۔ یہ وہ شعبہ ہے جس سے انسانی جانوں کا معاملہ جڑا ہے۔ اس شعبے کو چند سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اگر آج ان کی من مانیوں کو روکنے کے لیے مضبوط اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے وقت میں میڈیکل پیشہ ایک اخلاقی بحران کا شکار ہو جائے گا۔

یہ اپیل والدین کی طرف سے ہے، ان والدین کی جو دن رات محنت کرتے ہیں تاکہ ان کے بچے خدمتِ انسانیت کے مشن کو اپنائیں۔ ہم حکومت، وزیراعظم، وزیر تعلیم، وزیر صحت اور چیف جسٹس پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے کا فوری نوٹس لیں۔ تعلیم فروشی کو روکا جائے، میڈیکل کالجز کے مالی معاملات کا آڈٹ کیا جائے اور ایک ایسا نظام بنایا جائے جس میں تعلیم کا مقصد منافع نہیں بلکہ قوم کی خدمت ہو۔

یاد رکھیے، قومیں وہی ترقی کرتی ہیں جو اپنے تعلیمی اداروں کو ایمانداری، دیانت اور انصاف پر قائم کرتی ہیں۔ اگر تعلیم ہی بے رحم کاروبار بن گئی تو پھر معاشرہ بھی بے رحم ہو جائے گا۔ آج ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اپنے بچوں کا مستقبل بیچنے والوں کے ساتھ ہیں یا ان کے خوابوں کے محافظ بننے والوں کے ساتھ۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali