Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Suno, Tum Sitare Ho

Suno, Tum Sitare Ho

سُنو، تُم ستارے ہو

رات کا پچھلا پہر تھا۔ چاند آدھا تھا مگر روشنی پوری۔ آسمان پر ستارے ٹمٹما رہے تھے جیسے خاموشی میں کچھ کہہ رہے ہوں۔ میں ایک شہید کے گھر کے سامنے کھڑا تھا۔ گیٹ کے اوپر سبز ہلالی پرچم لہرا رہا تھا، جس کے نیچے لکھی تختی پر صرف دو الفاظ درج تھے: "آستانۂ شہید"۔ میں رکا اور دل میں ایک لرزہ سا دوڑ گیا۔ اس جملے میں فخر بھی تھا، درد بھی، قربانی کی خوشبو بھی اور جدائی کا کرب بھی۔

دروازہ کھلا تو ایک بوڑھی عورت سامنے تھی، چہرے پر سکون، آنکھوں میں روشنی۔ میں نے سلام کیا اور کہا، "میں آپ کے بیٹے کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں"۔ وہ مسکرائیں، "بیٹے کے بارے میں؟ وہ تو گیا نہیں، تم اندر آؤ، وہ یہیں ہے"۔ میں اندر داخل ہوا، دیوار پر ایک بڑی سی تصویر لگی تھی۔ جوان چہرہ، ہلکی سی مسکراہٹ، خاکی وردی اور کندھے پر تین دمکتے ستارے۔ نیچے لکھا تھا: "کیپٹن زاہد فاروق (شہید)"۔

ماں نے تصویر کی طرف دیکھا اور بولیں، "یہ چمکتا تھا تو سارا گھر روشن ہو جاتا تھا۔ اب نہیں ہے، مگر روشنی باقی ہے"۔ میں نے آہستہ سے کہا، "آپ کا بیٹا قوم کا ہیرو ہے"۔ وہ بولیں، "ہیرو نہیں بیٹا، ستارہ۔ ہمارے شہداء ستارے ہیں۔ وہ کبھی ڈوبتے نہیں، وہ رہتے ہیں، بس آسمان بدل لیتے ہیں"۔

یہ جملہ میرے دل میں پتھر کی طرح گرا۔ ہمارے شہداء ہمارے ستارے ہیں۔ میں اس ایک فقرے کے پیچھے چھپے پورے فلسفے کو سمجھنے لگا۔ دنیا میں شاید ہی کوئی قوم ہو جو اپنے بیٹوں کو مٹی کے حوالے کرتی ہو اور فخر سے کہتی ہو کہ وہ زندہ ہیں۔ مگر پاکستان کی مائیں یہ کہتی ہیں اور یقین سے کہتی ہیں۔

ہمارے ملک کا ہر ستارہ کسی گھر کے صحن سے نکلا ہے۔ کوئی اسکول کی کرسی سے اٹھا، کوئی مسجد کے فرش سے، کوئی یونیفارم کے بٹن بند کرتے ہوئے۔ سب کے خواب عام تھے، مگر مقدر خاص۔ ان میں سے کسی نے شادی کی پلاننگ کی تھی، کسی نے ماں سے وعدہ کیا تھا کہ عید پر آئے گا، کسی نے بہن کو نئی چوڑیاں دلانے کا کہا تھا۔ کسی نے اپنی آٹھ ماہ کی بیٹی سے پہلی دفعہ ملنا تھا، مگر وہ سب وعدے چھوڑ گئے اور وہ وعدہ نبھایا جو وطن سے کیا تھا اور یہ عہد نبھا کر وہ کن سے جا ملا؟ اس کا جواب ہمیں سورہ النساء میں ملتا ہے۔ سورہ النساء (سورہ نمبر 4)، آیت نمبر 69:

وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنُعَمَ اللَّهُ عَلَيُهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا

"اور جو شخص اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کرے گا تو ایسے لوگ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں"۔

کیپٹن زاہد جیسے ہزاروں زاہد اس ملک کے آسمان پر جگمگا رہے ہیں۔ کچھ کارگل کی برف میں سوئے ہیں، کچھ وزیرستان کی وادیوں میں، کچھ لاہور کی گلیوں اور کراچی کی سڑکوں پر دھماکوں میں۔ لیکن وہ سب مٹی میں دفن ہو کر بھی زندہ ہیں، کیونکہ ان کے حصے کی روشنی ختم نہیں ہوئی۔

میں نے بوڑھی ماں سے پوچھا، "جب بیٹے کی شہادت کی خبر ملی تو آپ نے کیا محسوس کیا؟" وہ بولیں، "بیٹا، درد تو ہوا۔ مگر مجھے فخر زیادہ تھا۔ میں نے سوچا، زاہد چلا گیا مگر میری گود خالی نہیں ہوئی۔ ہر سپاہی میرا بیٹا ہے۔ جب میں کسی وردی والے کو دیکھتی ہوں تو زاہد کو دیکھ لیتی ہوں"۔

میں نے سوچا، یہ مائیں کیسی ہوتی ہیں؟ جو اپنی کوکھ کے ٹکڑے کو زمین کے سپرد کرکے کہتی ہیں "الحمدللہ"۔ ان کے صبر کی گہرائی شاید ہم سمجھ ہی نہیں سکتے۔ وہ روتی بھی ہیں، مگر شکرکے ساتھ۔ وہ دعا بھی کرتی ہیں، مگر آنسوؤں کے ساتھ مسکراہٹ لیے۔

یہی وہ مائیں ہیں جن کے بیٹے اس ملک کی حفاظت کرتے ہیں۔ جو برف، آگ، ہوا، فضا، سمندر، مٹی، خون، دھماکوں، سب میں کھڑے رہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ گولی کسی بھی سمت سے آ سکتی ہے، مگر وہ پیچھے نہیں ہٹتے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں اگر وہ پیچھے ہٹ گئے، تو پاکستان آگے نہیں بڑھ سکے گا۔

ہمارے شہداء صرف فوجی نہیں۔ وہ پولیس والے بھی ہیں جو گلی کے موڑ پر ڈیوٹی دیتے ہوئے گولی کھا گئے۔ وہ رینجرز کے جوان ہیں جنہوں نے شہر میں امن بحال کیا۔ وہ اساتذہ ہیں جو بچوں کو پڑھاتے ہوئے دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ وہ طلباء ہیں جو سکول میں علم کی تلاش میں شہید ہوئے۔ وہ ڈاکٹر ہیں جنہوں نے وائرس کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ وہ کھلاڑی ہیں جو دنیا بھر کے کھیل کے میدانوں میں فتوحات سمیٹ کر ان سب کا حوصلہ آسمان کرتے ہیں۔ وہ کوچ ہیں جو ان کھلاڑیوں کی تربیت کرتے ہیں۔ وہ صحافی ہیں جو اپنے قلم سے انہیں امر کرتے ہیں اور میدان جنگ میں ان کی کہانیوں اور کارناموں کی تلاش میں جان بھی دیتے ہیں۔ یہ سب ہمارے ستارے ہیں۔ مختلف سمتوں میں روشن مگر ایک ہی آسمان کے نیچے۔

میں جب بھی کسی شہید کے گھر جاتا ہوں، وہاں ایک عجیب سا سکون ہوتا ہے۔ جیسے وقت رک گیا ہو۔ دیواروں پر تصویریں ہوتی ہیں، کھڑکیوں پر جھنڈے اور فضا میں ایک چمک۔ جیسے خود شہید کا عکس ابھی تک وہاں گردش کر رہا ہو۔ ان گھروں میں غم نہیں، روشنی ہوتی ہے۔ شاید اسی لیے، کیونکہ وہاں ستارے رہتے ہیں۔

میں سوچتا ہوں، اگر ہمارے شہداء نہ ہوتے تو آج ہم کہاں ہوتے؟ یہ شہر، یہ روشنی، یہ امن، سب ان کی قربانیوں کی قیمت پر ہے۔ وہ خاموشی سے ہمیں بچاتے ہیں اور ہم شور مچاتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں ملا۔ وہ اپنی جوانی قربان کرتے ہیں اور ہم عمر بھر شکایت کرتے ہیں کہ ملک کچھ نہیں دے رہا۔ وہ جان دیتے ہیں تاکہ ہم زندگی جی سکیں اور ہم اپنی زندگیوں کو بوجھ سمجھ کر گزارتے ہیں۔

یہی فرق ہے ستاروں اور سایوں میں۔ سائے دن کی روشنی میں ساتھ ہوتے ہیں مگر اندھیرے میں غائب۔ ستارے اندھیرے میں رہتے ہیں اور روشنی بانٹتے ہیں۔ ہمارے شہداء بھی ایسے ہی ہیں۔ جب اندھیرا ہو جاتا ہے، وہ چمکنے لگتے ہیں۔ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم ابھی زندہ ہیں، کیونکہ وہ جاگتے ہیں۔

اکثر لوگ کہتے ہیں، "شہادت تو قسمت والوں کو ملتی ہے"۔ مگر میں کہتا ہوں، شہادت ان کو ملتی ہے جنہوں نے اپنی زندگی کو مقصد سے جوڑ لیا۔ جو جانتے ہیں کہ مرنا تو سب کو ہے، مگر کچھ لوگ ایسے مرتے ہیں کہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہو جاتے ہیں۔ یہی اصل کامیابی ہے۔ ایسا مرنا جو زندگی سے بڑا ہو۔

میں جب واپس جانے لگا تو بوڑھی ماں نے ایک بات کہی، "بیٹا، جب کبھی آسمان دیکھنا، تو یاد رکھنا، ان میں میرا زاہد بھی ہے۔ وہ تمہیں دیکھ کر مسکراتا ہے"۔

میں نے آسمان کی طرف دیکھا، واقعی ایک ستارہ باقیوں سے زیادہ چمک رہا تھا۔ شاید وہی تھا۔

میں نے دل میں سوچا، ہم سب کو کبھی نہ کبھی رک کر ان ستاروں کو سلام کرنا چاہیے۔ وہ جو ہمارے لیے سو گئے تاکہ ہم جاگتے رہیں۔ وہ جو اپنی سانس روک کر ہماری سانسوں کو جاری رکھتے ہیں۔ وہ جو خود مٹ کر ہمیں زندہ رکھتے ہیں۔

یہ ستارے صرف وردیوں کے نہیں، جذبوں کے ہیں۔ ان کے بغیر ہمارا آسمان سیاہ ہے۔ ہمیں ان کی چمک یاد رکھنی ہوگی۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو بتانا ہوگا کہ روشنی مفت نہیں ملی، یہ خون کی کرنسی سے خریدی گئی ہے۔ یہ زمین جو ہمیں اپنی لگتی ہے، اس کے نیچے شہیدوں کا لہو ہے۔ یہی لہو اس سرزمین کو جنت بناتا ہے۔

کاش ہم کبھی ان کے لیے ایک لمحہ خاموشی کے بجائے ایک لمحہ روشنی جلا سکیں۔ اپنے کردار سے، اپنی دیانت سے، اپنی محبت سے، اپنے کام سے۔ یہی ان کے لیے سب سے بڑا خراجِ عقیدت ہوگا۔

کیونکہ شہداء کو آنسو نہیں چاہییں، چمک چاہیے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم بھی ستارے بن جائیں۔ اپنی اپنی جگہ سے روشنی دیں۔ وہ جا چکے ہیں، مگر ہمیں یاد دلاتے رہتے ہیں کہ زندگی صرف جینے کا نام نہیں، بلکہ کسی مقصد کے لیے جینے کا نام ہے۔

اور وہ مقصد یہی ہے کہ جب کبھی کوئی بچہ آسمان کی طرف دیکھے تو ماں کہے۔

"بیٹا، دیکھو، وہ جو چمک رہا ہے، وہ ہمارا شہید ہے"۔

ہاں، ہمارے شہداء ہمارے ستارے ہیں۔

اور جب تک یہ ستارے چمکتے رہیں گے، پاکستان زندہ رہے گا۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali