Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Subh e Sadiq Se Pehle

Subh e Sadiq Se Pehle

صبح صادق سے پہلے

رات جب اپنے عروج پر پہنچتی ہے تو اندھیرا اتنا گہرا ہو جاتا ہے کہ روشنی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ ہر طرف ایک سنّاٹا، ایک وحشت، ایک بے نام سا خوف طاری ہوتا ہے۔ لیکن یہ وہی لمحہ ہوتا ہے جب صبح صادق بالکل قریب ہوتی ہے۔ روشنی بس پردے کے پیچھے کھڑی ہوتی ہے اور ایک اشارے پر اندھیرے کا وجود ختم کر دیتی ہے۔ انسان کی زندگی کے امتحان بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ جب ہم تیاری کر کرکے تھک جاتے ہیں، کتابوں کے صفحات الٹتے پلٹتے بے حال ہو جاتے ہیں، نوٹس کے ڈھیر کو بار بار دہرا کر بھی یہ احساس دامن گیر رہتا ہے کہ کچھ بھی نہیں آیا، کچھ یاد نہیں رہا، کچھ نہیں ہو پائے گا، تو دراصل یہ وہی لمحہ ہوتا ہے جو صبح صادق سے پہلے کی گھنی رات کی طرح ہمیں آزماتا ہے۔

ہر امتحان، چاہے وہ تعلیمی ہو یا زندگی کا، ہمارے اندر ایک ہلچل پیدا کرتا ہے۔ امتحان سے کچھ دن پہلے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے، سوچوں میں ایک ہجوم سا اتر آتا ہے۔ ہم بار بار اپنے آپ سے پوچھتے ہیں: کیا میں نے واقعی تیاری کی ہے؟ کیا میں اس قابل ہوں کہ کامیابی کی کرن مجھے چھو سکے؟ کیا یہ ہزاروں لاکھوں میں سے میں ہی منتخب ہو سکوں گا؟ یہی سوالات ہمیں کمزور کرتے ہیں، یہی وسوسے ہمیں توڑنے لگتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہی وسوسوں کو شکست دینا اصل کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔ اگر انسان ان اندھیروں سے گزرنے کا حوصلہ کر لے، تو روشنی اس کے قدموں میں بچھ جاتی ہے۔

دنیا کے ہر کامیاب شخص کی زندگی اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ انہوں نے کامیابی کسی ہموار راستے سے نہیں پائی۔ ان کی زندگی کے اوراق پر ناکامیوں کے داغ، پریشانیوں کی سیاہی اور وسوسوں کے اندھیرے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن انہوں نے ایک بات کو ہمیشہ یاد رکھا کہ اندھیرا جتنا بھی گہرا ہو جائے، صبح کا سورج اس پر قابو پا ہی لیتا ہے۔ یہ یقین ہی وہ قوت ہے جو انسان کو بھاری بوجھ اٹھانے کے قابل بنا دیتی ہے۔ جو نوجوان مقابلے کے امتحان کی تیاری میں سر جھکائے بیٹھا ہے، جو کھلاڑی کسی بڑے میچ سے پہلے پسینے میں شرابور ہو کر پریکٹس کر رہا ہے، جو لکھاری کاغذ پر الفاظ کے جال بنتے بنتے تھک گیا ہے، یا جو بزنس مین اپنی تمام جمع پونجی ایک نئے منصوبے میں لگا کر راتوں کو کروٹیں بدل رہا ہے، سب دراصل صبح صادق سے پہلے کے اندھیرے میں کھڑے ہیں اور اگر یہ ثابت قدم رہیں تو یقین کی پہلی کرن کے ساتھ ان کے دن بھی نکل آئیں گے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ صبح صادق سے ذرا پہلے ہار مان لیتے ہیں۔ وہ اندھیرے کی شدت کو دیکھ کر سمجھ لیتے ہیں کہ اب روشنی کبھی نہیں آئے گی۔ وہ امتحان کے دروازے تک پہنچتے ہیں اور خود کو قائل کر لیتے ہیں کہ تیاری ادھوری ہے، شاید ناکامی نصیب ہوگی، اس لیے بہتر ہے پیچھے ہٹ جاؤ۔ وہ زندگی کے میدان میں قدم رکھتے ہیں اور چند قدم بعد ہی یہ سوچ کر لوٹ آتے ہیں کہ مقابلہ بہت سخت ہے، ہزاروں امیدوار ہیں، میرے لیے جگہ کہاں؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسی ہجوم میں سے ایک آدمی منتخب ہوتا ہے اور کیوں نہ وہ آپ ہوں؟ اگر آپ خود کو یقین دلا دیں کہ میں ہی وہ شخص ہوں جسے کامیابی کا تاج پہننا ہے، تو کوئی طاقت آپ کو روک نہیں سکتی۔

یاد رکھیے، یہ دنیا ہمیشہ ان لوگوں کو جگہ دیتی ہے جو اپنی جگہ بنانے پر مصر ہوں۔ ہجوم میں وہی نمایاں ہوتا ہے جو ہجوم سے الگ کھڑا ہونے کی جرات رکھتا ہے۔ اگر آپ یہ سوچ لیں کہ ہزاروں میں سے ایک تو ضرور کامیاب ہوگا اور وہ ایک میں ہوں گا، تو آپ کی سوچ ہی آپ کے راستے میں روشنی کی مشعلیں جلا دے گی۔ امتحان کے پرچے میں قلم تھامنے والے ہاتھ کانپنے کے بجائے مضبوطی سے لکھنے لگیں گے۔ انٹرویو میں بولنے والی زبان لرزنے کے بجائے اعتماد کے ساتھ جملے ادا کرے گی۔ کھیل کے میدان میں آپ کا ہر قدم حریف کو مات دینے کے لیے بھرپور ہوگا اور زندگی کے کسی بھی امتحان میں آپ وہ چمکتا ہوا ستارہ ثابت ہوں گے جسے دیکھ کر باقی لوگ اپنی آنکھیں جھپکنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

کامیابی کے سفر میں سب سے بڑی رکاوٹ باہر کے حالات نہیں بلکہ اندر کا خوف ہے۔ یہ خوف ہمیں بار بار یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ ہم ناکام ہو جائیں گے۔ لیکن اصل بہادری یہی ہے کہ اس خوف کو پاؤں تلے روند دیا جائے۔ اگر آپ اندھیرے کو حقیقت مان لیں گے تو کبھی روشنی دیکھ ہی نہیں سکیں گے۔ لیکن اگر آپ یقین رکھیں گے کہ روشنی لازماً آئے گی، تو اندھیرا چاہے کتنا ہی گھنا کیوں نہ ہو، آپ کے عزم کے سامنے جھک جائے گا۔

زندگی کے کسی بھی کام کو شروع کرتے وقت سب سے پہلے ہمیں اپنے دل سے یہ جملہ نکال دینا چاہیے کہ "یہ کام مشکل ہے" یا "یہ ممکن نہیں"۔  کیونکہ یہ جملے ہی اصل رکاوٹ ہیں۔ جب کوئی کہتا ہے کہ مقابلہ بہت سخت ہے، ہزاروں لوگ بیٹھے ہیں، کامیابی کے امکانات کم ہیں، تو وہ دراصل خود اپنے راستے بند کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر آپ یہ سوچ لیں کہ ان ہزاروں میں کامیابی ایک ہی کو ملنی ہے اور وہ ایک میں ہی ہوں گا، تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو محروم نہیں رکھ سکتی۔ کامیابی قسمت کا کھیل نہیں، یقین اور محنت کا صلہ ہے۔

سوچ کے زاویے بدلنا ہی اصل انقلاب ہے۔ اگر آپ کسی دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر یہ سوچیں گے کہ یہ دروازہ بند ہے اور کھلے گا نہیں، تو وہ کبھی نہیں کھلے گا۔ لیکن اگر آپ یہ مان لیں کہ یہ دروازہ میرا منتظر ہے اور مجھے اس کے اندر جانا ہے، تو راستے خود بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہی اصول ہر امتحان پر لاگو ہوتا ہے۔ ہر میدان میں وہی جیتتا ہے جو خود کو فاتح مان کر چلتا ہے۔ جو یہ سوچتا ہے کہ ہاں، مجھے شکست ہو سکتی ہے لیکن میں شکست کھانے کے لیے نہیں آیا، میں جیتنے کے لیے آیا ہوں، وہی آخرکار فتح کا تاج اپنے سر پر سجاتا ہے۔

یہ کائنات بھی انہی لوگوں کے لیے پلکیں بچھاتی ہے جو اپنے خوابوں کے پیچھے دیوانگی کی حد تک محنت کرتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا جب کوئی واقعی کامیاب ہوتا ہے تو دنیا خود اس کا استقبال کرنے لگتی ہے۔ لوگ اسے عزت دیتے ہیں، اس کے لیے دروازے کھولتے ہیں، اس کی موجودگی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جیسے ہر کوئی کہہ رہا ہو: آپ یہاں بیٹھیں، نہیں آپ یہاں بیٹھیں۔ یہ عزت، یہ مقام، یہ پہچان صرف انہی کو نصیب ہوتی ہے جو صبح صادق سے پہلے کے اندھیرے کو ہرا دیتے ہیں۔

سو، اگر آپ آج اپنے امتحان کے خوف میں مبتلا ہیں، اگر آپ کو لگ رہا ہے کہ تیاری ناکافی ہے، اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے، اگر آپ ہجوم دیکھ کر گھبرا رہے ہیں، تو ایک لمحے کے لیے رکیں اور اپنے آپ سے کہیے: یہ اندھیرا عارضی ہے۔ یہ وسوسے وقتی ہیں۔ روشنی بس دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ مجھے ہمت نہیں ہارنی، مجھے پیچھے نہیں ہٹنا، مجھے یہ ماننا ہے کہ ہزاروں میں سے منتخب ہونے والا وہ ایک شخص میں ہی ہوں گا۔ باقی سب ہٹ جائیں گے اور میں اپنی محنت، اپنے یقین اور اپنے عزم سے آگے بڑھوں گا۔

یاد رکھیں، صبح صادق ہمیشہ رات کے سب سے گھنے اندھیرے کے بعد آتی ہے۔ اگر آپ نے اس گھنی رات کو جھیل لیا تو روشنی آپ ہی کی دہلیز پر اترے گی۔ کامیابی آپ ہی کے قدم چومے گی اور پھر دنیا واقعی آپ کے استقبال کے لیے صف بستہ ہوگی۔ آپ کی راہوں میں پھول بچھائے جائیں گے۔ لوگ آپ کو دیکھ کر رشک کریں گے۔ آپ خود پر فخر کریں گے۔ آپ کے والدین کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو ہوں گے۔ آپ اپنے ملک کی پہچان بنیں گے اور پھر دنیا آپ کی دیوانی ہوگی۔ یہ سب کچھ صرف ایک شرط پر ہے: کہ آپ صبح صادق سے پہلے ہار نہ مانیں۔ بلکہ صبح صادق سے پہلے کے گھپ اندھیرے سے مسلسل لڑتے رہیں حتٰی کہ آپ کے چاروں اطراف روشنی پھیل جائے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari