Semiconductors Aur Masnoi Zahanat Ke Mahir He Dunya Ke Hukmaran
سیمی کنڈکٹرز اور مصنوعی ذہانت کے ماہر ہی دنیا کے حکمران

دنیا آج ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں اقتدار کی کنجی بندوق یا تلوار نہیں بلکہ چِپ ہے۔ وہ ننھی سی سلیکان کی پرت جس پر انسانی ذہانت کی لامتناہی وسعتیں سمٹ آئی ہیں۔ وہی سیمی کنڈکٹر جس پر آج عالمی معیشت، دفاع، تعلیم، طب، مواصلات اور روزمرہ زندگی کے تمام نظام قائم ہیں۔ یہی وہ ٹیکنالوجی ہے جس نے دنیا کے طاقت کے توازن کو ازسرِنو متعین کر دیا ہے۔ اسی تناظر میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کا یہ کہنا کہ "جو قومیں سیمی کنڈکٹرز اور مصنوعی ذہانت پر عبور حاصل کریں گی، وہی دنیا پر حکمرانی کریں گی"، دراصل ایک تاریخی حقیقت کا اعتراف ہے۔
اسلام آباد میں منعقدہ ایک اہم تقریب میں وزیرِ اعظم نے پاکستان کے نیشنل سیمی کنڈکٹر پروگرام کا باضابطہ آغاز کیا۔ یہ منصوبہ پاکستان کے لیے ایک نئے عہد کا آغاز قرار دیا جا سکتا ہے۔ وہ عہد جس میں قومیں تیل یا معدنیات سے نہیں، بلکہ ٹیکنالوجی اور علم سے طاقت حاصل کرتی ہیں۔ وزیرِ اعظم نے اس موقع پر کہا کہ سیمی کنڈکٹر پروگرام وقت کی فوری ضرورت ہے، کیونکہ دنیا بھر میں اس موضوع پر ایک فکری اور صنعتی جنگ برپا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کے نوجوانوں کو آئی ٹی، مصنوعی ذہانت اور سیمی کنڈکٹرز کی تربیت دینا اب محض ایک اختیار نہیں بلکہ بقا کی شرط ہے۔
یہ پروگرام "انسپائر" (Inspire) کے نام سے شروع کیا گیا ہے۔ جس کا مکمل عنوان ہے "Initiative to Nurture Semiconductor Professionals for Industry, Research & Education"۔ یہ منصوبہ وزارتِ اطلاعات و ٹیکنالوجی (MoITT) کے زیرِ اہتمام اور پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ (PSEB) کے تعاون سے چلایا جائے گا۔ اس کی بدولت پاکستان پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر 600 ارب ڈالر مالیت کی عالمی سیمی کنڈکٹر انڈسٹری کا حصہ بننے جا رہا ہے۔ ایک ایسی صنعت جس کی عالمی قدر 2030 تک ایک ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔
وزیرِ اعظم نے تقریب میں اپنے خطاب کے دوران کہا کہ "یہ منصوبہ پاکستان کی نالج بیسڈ ڈیجیٹل معیشت کی طرف ایک فیصلہ کن قدم ہے، جہاں ترقی کا انحصار تحقیق، جدت اور افرادی قوت پر ہوگا، نہ کہ روایتی درآمدات یا قرضوں پر"۔ ان کے مطابق اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اپنے نوجوانوں کو آنے والی صنعتی دنیا کے لیے تیار کرے۔ ایسی دنیا جہاں روبوٹ، خودکار نظام اور ذہین مشینیں کارخانے، اسپتال، بینک، حتیٰ کہ گھروں میں بھی انسانوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہوں گی۔
انہوں نے کہا، "یہ منصوبہ دراصل ہمارے نوجوانوں اور آنے والی نسلوں کا مستقبل ہے۔ ہم ایک نئے اقتصادی سرحد کی بنیاد رکھ رہے ہیں جہاں پاکستان دنیا کو اپنی صلاحیت، ٹیکنالوجی اور جدت کے ساتھ خدمات فراہم کرے گا"۔
وزیرِ اعظم نے واضح کیا کہ حکومت نے اس منصوبے کے لیے فنڈز مختص کر دیے ہیں۔ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (PSDP) کے تحت 4.5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، لیکن ان کے بقول یہ رقم تو صرف "سمندر میں ایک قطرہ" ہے۔ اصل سرمایہ انسانی سرمائے کی صورت میں ہوگا۔ وہ نوجوان جو آنے والے برسوں میں پاکستان کے لیے ٹیکنالوجیکل خود کفالت کا ستون بنیں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت پہلے ہی کئی اقدامات کر چکی ہے، جن میں پاکستان ڈیجیٹل اتھارٹی کا قیام، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کی مکمل ڈیجیٹائزیشن اور کیش لیس اکانومی کی طرف منتقلی شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے اب یہ قدم نہ اٹھایا تو ہم دنیا کی نئی صنعتی تقسیم میں ہمیشہ کے لیے پیچھے رہ جائیں گے۔
وزیرِ اعظم نے اس موقع پر اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کی بھی تعریف کی، جس کے تعاون سے نجی و سرکاری شعبے کے درمیان مؤثر اشتراک ممکن ہوا۔ ان کے مطابق "انسپائر" جیسے منصوبے اسی قومی شراکت داری کی پیداوار ہیں جو پاکستان کو ٹیکنالوجی کی دوڑ میں عزت اور مقام دلا سکتی ہے۔
وفاقی وزیر برائے آئی ٹی و ٹیلی کمیونی کیشن شزا فاطمہ خواجہ نے تقریب میں اپنے خطاب کے دوران کہا کہ "انسپائر، وزیرِ اعظم کے وژن کی عملی تعبیر ہے۔ ایک ایسا وژن جس میں ٹیکنالوجی پر مبنی معیشت نہ صرف مردوں بلکہ خواتین اور نوجوانوں کو بھی عالمی سطح پر قائدانہ کردار کے لیے تیار کرتی ہے"۔ ان کے مطابق یہ پروگرام پاکستانی طلبہ، محققین اور پیشہ ور ماہرین کو عالمی سیمی کنڈکٹر صنعت میں "سیکھنے سے قیادت تک" لے جانے کی طاقت رکھتا ہے۔
پانچ سالہ منصوبے کے تحت "انسپائر" کے ذریعے 7200 نوجوانوں کو سیمی کنڈکٹر ڈیزائن، ویریفیکیشن اور ریسرچ کے شعبوں میں تربیت دی جائے گی۔ اس کے لیے پاکستان کے شمالی، وسطی اور جنوبی حصوں میں موجود نو سرکاری جامعات کو شامل کیا گیا ہے، جبکہ چھ انٹیگریٹڈ سرکٹ (IC) لیبز قائم کی جا رہی ہیں۔
یہ منصوبہ پاکستان کے وسیع نیشنل سیمی کنڈکٹر ڈیولپمنٹ روڈ میپ کا پہلا مرحلہ ہے، جو مستقبل میں او ایس اے ٹی (Outsourced Assembly & Testing) اور فیبریکیشن جیسی اعلیٰ سطح کی صنعتی صلاحیتوں کی بنیاد بنے گا۔ یوں پاکستان نہ صرف اپنے لیے سیمی کنڈکٹر چِپس تیار کرنے کے قابل ہوگا بلکہ عالمی سپلائی چین کا ایک فعال حصہ بھی بنے گا۔
وزیرِ اعظم نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ قوموں کی اصل دولت ان کے دماغ ہیں، نہ کہ ان کے بینک۔ انہوں نے کہا، "ہم اپنے بچوں کے ہاتھ میں ہتھیار نہیں بلکہ لیپ ٹاپ، کوڈ اور چِپ رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ہمارا اصل ہتھیار ہے۔ علم کا ہتھیار، جدت کا ہتھیار، ترقی کا ہتھیار"۔
یہ اعلان محض ایک سرکاری تقریب نہیں بلکہ پاکستان کی ٹیکنالوجیکل آزادی کی سمت ایک تاریخی موڑ ہے۔ آج دنیا میں طاقت کی تعریف بدل چکی ہے۔ پہلے ہتھیار سے جنگ جیتی جاتی تھی، اب ڈیٹا اور چِپ سے۔ پہلے زمینیں فتح کی جاتی تھیں، اب مارکیٹس اور ذہن فتح کیے جاتے ہیں۔ چین، امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا اسی دوڑ میں آگے بڑھ کر عالمی طاقتیں بنے۔ پاکستان اگر اس میدان میں قدم رکھ کر اپنے نوجوانوں کو عالمی معیار کی تربیت فراہم کر دے، تو وہ نہ صرف خود کفیل ہو سکتا ہے بلکہ اپنی معیشت کو اربوں ڈالر سالانہ کے شعبے میں داخل کر سکتا ہے۔
اسی موقع پر وزیرِ اعظم نے جاپان کی نئی وزیرِ اعظم سانائے تاکائچی کو ان کے انتخاب پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان جاپان کے ساتھ دوستی اور تعاون کے تعلقات مزید مضبوط کرنے کا خواہاں ہے۔ یہ بیان دراصل اس حقیقت کا عکاس ہے کہ پاکستان اپنی ٹیکنالوجی پالیسی کو عالمی سطح پر شراکت داری کے اصول پر استوار کرنا چاہتا ہے، نہ کہ انحصار پر۔
پاکستان کے لیے یہ لمحہ فیصلہ کن ہے۔ دنیا سیمی کنڈکٹرز اور مصنوعی ذہانت کے میدان میں جس تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، وہاں وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ یہ وہ دو شعبے ہیں جو آنے والے پچاس برسوں کی طاقت، معیشت اور دفاع کے بنیادی ستون ہوں گے۔
اگر ہم نے اپنی پالیسیوں کو تسلسل دیا، نوجوانوں کو جدید تربیت فراہم کی، تحقیق و ترقی میں سرمایہ کاری کی اور نجی و سرکاری اشتراک کو مضبوط کیا، تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں ٹیکنالوجی کا مرکز نہ بن سکے۔
یہ "انسپائر" منصوبہ صرف ایک تکنیکی پروگرام نہیں، بلکہ امید، خود اعتمادی اور ترقی کے خواب کا دوسرا نام ہے۔ اگر یہ خواب حقیقت میں بدل گیا تو آنے والے وقت میں پاکستانی نوجوان صرف صارف نہیں، بلکہ خالقِ ٹیکنالوجی ہوں گے۔
اور وہ دن دور نہیں جب دنیا کی کسی جدید لیبارٹری میں نصب چِپ پر چھپا ہوا ایک ننھا سا لفظ پڑھا جائے گا۔
"Made in Pakistan"۔

